مصنف: مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی
اس وقت پوری دنیا میں مسلمان جن خطرات سے دو چار ہیں اس کا احساس کم و بیش سب کو ہے، پورا عالم اسلام کوہ آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے، ہندوستان میں مسلمان آزادی کے بعد سے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا غیر محفوظ نہیں سمجھتے تھے جتنا آج سمجھ رہے ہیں، خطرہ کی گھنٹیاں چاروں طرف بج رہی ہیں، لیکن جو چیز اس سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ ان تمام حالات کے باوجود ہماری حالت تقریباً وہی ہے جو حالیؔ نے زمانہ ٔجاہلیت کی کھینچی تھی ع پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی۔
خطرات کی گھنٹیاں اس زور سے بج رہی ہیں کہ بہرے بھی جاگ جائیں، لیکن ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم جاگ کر بھی صرف آنکھیں ملنے میں لگے ہیں، یہ خیال کسی کو نہیں کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے، یہ خطرات کیوں پیدا ہوئے، ہم نے کیا کیا کوتاہیاں کیں، کہاں کہاں سے پانی مر رہا ہے، اس کا جائزہ لے کر آگے بڑھنے کے خواب اگر ہیں بھی تو صرف آنکھوں میں سجے ہوئے، اس کے لیے نہ وہ جوش ایمان ہے نہ وہ قوت عمل ہے، اور نہ آگے بڑھنے کی وہ تیاری ہے جو نظر آنی چاہیے۔
عالم اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خطرات اس سے بڑھ کر سامنے آچکے ہیں، مختلف زمانوں میں مسلمانوں نے ان کا سامنا کیا ہے، کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ یہ سورج ڈوب نہ جائے، لیکن وہ ایمان والے تھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ؎
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
تاتاری جب مور و ملخ کی طرح بڑھے تو لگتا تھا کہ مسلمانوں کا چراغ گل ہی ہوجائے گا، لیکن یہ اہل ایمان کی قوت ِایمانی اور جذبۂ دعوت تھا کہ اللہ نے ان ہی کو کھڑا کردیا، ایک اللہ کے صاحب ایمان بندے کی قوت ایمانی کو دیکھ کر اور اس کے جذبۂ دعوت سے متاثر ہوکر پوری ایک تاتاری شاخ حلقہ بگوش اسلام ہوئی ع پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے
آج جو حالات ہیں اس سے سخت حالات پہلے گذر چکے ہیں، مسئلہ حالات کی سنگینی کا نہیں، مسئلہ ہماری غفلت کا ہے، خطرہ غیروں سے نہیں، خطرہ ہمیں خود اپنی ذات سے ہے اور یہ خطرہ ہر خطرہ پر بھاری ہے، اس کے سد باب کی کوشش اگر نہ کی گئی، خود اپنی غیرت ایمانی کو نہ للکارا گیا، دلوں میں اگر خودداری اور احساس ذمہ داری پیدا نہ کی گئی تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔
کم از کم اس ملک کی حد تک ہمارے علماء اور دانشوروں کی بڑی ذمہ داری ہے، وہ لوگوں کو خطرات سے آگاہ کریں، اس کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، ایمان کو جگانے کی کوشش کریں، سینہ میں دبی ہوئی چنگاری کو فروزاں کریں، اس کے لیے بڑی قربانی کی بھی ضرورت ہے، اور بڑے حوصلہ اور دردمندی کی بھی، ہر طرح کے اختلافات کو بھلاکر اللہ کے لیے، اللہ کے دین کے لیے، نبی کریمﷺکی شریعت کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔
گاؤں گاؤں دورے کیے جائیں، مکاتب دینیہ قائم کیے جائیں، شہروں میں اسلامک اسکولز کا جال بچھایا جائے، لوگوں میں ایمانی بیداری پیدا کی جائے اور غیروں میں گھس کر ان میں کام کیا جائے، خدمت خلق کے ذریعہ ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، اور حقیقت اسلام سے ان کو روشناس کرایا جائے، یہی اس وقت ہماری بقا و تحفظ کا راستہ ہے، خطرات کیسے بھی ہوں، اگر ہم نے تدارک کرلیا تو ایمان کی طاقت کے آگے ساری طاقتیں پانی ہیں۔