ناول ھیچ قرأت اول میں ایک دکھ نامہ معلوم ہوتا ہے۔ انیس اشفاق کے گذشتہ تینوں ناولوں کی طرح یہ ناول بھی لکھنؤ کی گم گشتہ تہذیب کی بازیافت کی ایک کڑی کے طور پر سامنے آتا ہے لیکن ڈیڑھ سو صفحات کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے اور ملک کی موجودہ صورت حال سامنے آنے لگتی ہے۔
ناول نگار نے ‘ھیچ’ میں تقسیم کے بعد سے اب تک کے تمام اہم اور تکلیف دہ واقعات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ گاندھی کا قتل، ایمرجنسی کا نفاذ، کارگل کی جنگ، گجرات فسادات، یکساں سول کوڈ، جے این یو فساد، آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور وبا کا دورانیہ جیسے تمام بڑے حادثات یکے بعد دیگرے ناول کے منظرنامے میں ابھرتے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناول نگار کے ضبط کا پیمانہ چھلک اٹھا ہے اور برسوں کا دبا ہوا لاوا یکلخت ابل پڑا ہے۔
انیس اشفاق اپنے ناولوں میں لکھنوی تہذیب و تمدن کے حوالے سے جس ناسٹیلجیائی کیفیت کے شکار نظر آتے ہیں وہ کیفیت ‘ھیچ’ میں بھی برقرار ہے۔ اس دفعہ انہوں نے لکھنؤ کے شیعہ سنی اختلاف کے پس منظر میں ایک لطیف اور سلگتا ہوا رومان جس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ بے نظیر ہے۔ ناول کے دومرکزی کرداروں شہلا اور شہنام کی جدوجہد اور داخلی کرب قاری کو افسردگی کا احساس دلاتے ہیں اور ہندوستان کی روبہ زوال جمہوری حیثیت کے حوالے سے غوروفکر پر مجبور کرتے ہیں۔ حالانکہ ناول نگار نے کہیں بھی کسی مخصوص فرد یا ملک کا نام نہیں لیا ہے لیکن ان کے مبہم انداز کے باوجود ہر ذی شعور قاری کو ادراک ہوجاتا ہے کہ اشارہ کس جانب ہے۔ ناول کا راوی واحد متکلم ہے جسے انیس اشفاق نے گذشتہ ناولوں کی مانند بخوبی برتا ہے۔ ناول کا قصہ تجرید اور علامتی ابہام سے پاک ہے لیکن کچھ باتیں بین السطور میں پوشیدہ ہیں جن کی تہہ تک پہنچنے میں قاری کو دشواری نہیں ہوتی۔
ناول ھیچ جہاں ہندوستان میں ایک مخصوص طبقے کے افراد کی شخصی آزادی اور شناخت کے حوالے سے اہم ہے وہیں یہ ماضی حال اور مستقبل کا ایک فکری آئینہ بھی ہے جہاں ہم اپنے وجود اور اس کی بقا کے لئے کی جانے والی جنگوں کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ناول حیات انسانی کے مختلف گوشوں کو فلسفیانہ انداز میں بھی پیش کرتا ہے۔ ناول پر بحث کرنے کے لئے کئی اہم نکات ہیں جن پر ان شاءاللہ تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔
حمیرا عالیہ لکھنؤ



