Heech Novel

ھیچ ناول انیس اشفاق

انیس اشفاق صاحب کا نام اس دور کے اہم فکشن نگاروں میں شمار “کرنا چاہیے”۔ سمجھنے والے خوب سمجھیں گے کہ میں نے دانستہ کیوں کرنا چاہیے لکھا ہے۔ کہنے کو تو انیس اشفاق صاحب کے تعارف کو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر تعارف تحصیلِ لا حاصل کے سوا کچھ نہیں۔ بہرحال انیس اشفاق صاحب کا نو آمدہ ناول، ھیچ، جی ہاں ھیچ، مطالعے کی میز سے اتر کر اپنی جگہ لے چکا ہے مگر ناول کیا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کی “فکشنل تلخیص” ہے۔ ٤٧ سے شروع ہونے والی کہانی گزشتہ کل پر ختم ہو جاتی ہے اور قاری کو حیران کرتی ہے کہ یہ تین سو پینسٹھ صفحے کا ناول کب شروع ہوا اور کب ختم۔ زبان انتہائی سلیس، گویا پرانے لکھنؤ کے کسی مہذب آدمی کے پاس بیٹھے ہو۔ مکالمے چست، جملے ترشے ہوئے درست اور تراکیب کی نا آشنا بوجھلوں سے عبارت کوسوں دور۔ طرزِ نگارش کیا ہے، ایک ڈھلان ہے جس پر قاری سیلِ رواں کی طرح اترتا چلا آ رہا ہے۔

بلا شبہ اس ناول کو گزشتہ سالوں میں لکھے گئے ناولوں میں سر فہرست کہیے۔ لکھنؤ کے شیعہ سنی دنگے ہوں، ٧٢ کی جنگ ہو، ایمرجنسی ہو، ہندو مسلم فسادات ہوں، ایمرجنسی ہو، بابری مسجد سانحہ ہو، بر صغیر کی سیاسی اتھل پتھل ہو یا غیر علانیہ جنگی حالات میں پنپنے والی شدید رومانیت ہو، جس خوبصورتی اور مہارت سے ان سب کے امتزاج کو صفحات پر پھیلایا گیا ہے، یقینا یہ کسی صاحبِ دل کے قلم کے ہی بس کی بات تھی۔

ورنہ ایسے حالات میں جب لاشوں کے ڈھیر پر بنی بستیوں میں سخن گستری کا رواج ہو، آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسے جملے تکرارا لکھے گا کہ:

“ضد۔ یہ دکھانے کے لیے کہ اگر تم چڑھوگے تو ہم اور چڑھائیں گے”

“یا کھلے میدان کی ہوا یا قید خانے کا حبس”

“ظلم کا زمانہ آگیا ہے، اپنی زبان بند نہ رکھنا”

“خدا کی بنائی ہوئی مخلوق اور اس مخلوق کے تعمیر کیے ہوئے آثار اگر محفوظ نہیں رہے تو سمجھو کہ قیامت کا دن قریب ہے”

“اب ہمیں اس زمین پر ایک ہی جنگ لڑنا ہے، اپنے وجود کو بچانے کی۔ یہ آثار بتا رہے ہیں کہ ہمارا سب کچھ ہم سے چھننے والا ہے، یہاں تک کہ ہماری پہچان بھی۔”

یہ چند ان جملوں کی مثالیں ہیں جن کے آتشیں احساس سے یہ ناول اپنے قاری کو متن سے مربوط کیے رہتا ہے۔

رہی پلاٹ کی بات تو کتاب کے خاتمے تک کہیں ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ وہ ڈھیلا پڑ رہا ہے، کہانی اپنی رَو میں بہتی ہے۔ یہ کہے بغیر شاید نہ رہا جا سکے کہ یہ ناول شاید خواب سراب سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اس کو خوش گمانی کہیے یا مداحی۔

آخری چیز ہے، بین السطور، اب تک پڑھے گئے تمام ناولوں میں مجھے اتنا مضبوط بین السطور کہیں نہیں میسر آیا، اور یہ صرف مکالموں کی حد تک نہیں بلکہ واقعہ نگاری اور علامت نگاری میں بھی بخوبی نبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

کہیں کہیں فلسفیانہ نوعیت کی باتیں سطروں کو بوجھل کرتی اور غیر ضروری معلوم‌ ہوتی ہیں، مگر ان کا شمار نا ہونے کے برابر ہے۔

ہر اس شخص کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے جو ایسے وقت میں خاموش رہنے کو ظلم میں تعاون سے تعبیر کرتا ہے، جب دستِ ستم بے دریغ خوں ریزی پر آمادہ ہو یا وہ اپنے ضمیر کی آواز سن سکتا ہو۔

ناول کی وجہِ تسمیہ اختتام تک آتے آتے قاری خود سمجھ جائے گا کہ ھیچ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟

~ عبداللّٰہ ثاقبؔ

کتاب خریدے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *