Web Analytics Made Easy -
StatCounter

کیا واقعہ کربلا کے بعد آل حسین کی بے حرمتی کی گئی

کیا واقعہ کربلا کے بعد آل حسین کی بے حرمتی کی گئی

کیا واقعہ کربلا کے بعد آل حسین کی بے حرمتی کی گئی

اہلسنت کے ایک عالم صاحب جن کو کافی عرصہ مولوی اسحٰق جھالوی کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے، اپنی کتاب “شانِ حسنؓ و حسینؓ” میں فرماتے ہیں کہ

“جن ظالموں نے رسول اللہﷺ کی آل کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا ہو ان سے کسی رحم و کرم اور خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تمام اہل تاریخ اس پر بات پر متفق ہیں کہ کربلا میں جو زندہ بچے تھے ان کو قید کرلیا گیا اور نہایت ظالمانہ سلوک کیا گیا۔” (شانِ حسنؓ و حسینؓ صفحہ نمبر ۱۶۸)

پھر یہی عالم صاحب ہی نہیں بلکہ اہلسنت میں سے کئی حضرات جنہوں نے شیعی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر واقعہ کربلا سے متعلق صرف سماعی غیر محقق خبروں پر تکیہ کررکھا ہے وہ حضرات بھی کچھ اسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت میں باقی ماندہ حسینی قافلے پر ایسے مظالم کے یہ سارے دعاوی سخت غیر علمی و غیر ثابت ہیں جن کی محققینِ اہلسنت ہمیشہ تغلیط کرتے آئے ہیں جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب منھاج السنۃ میں تصریح کرتے ہیں:

“حسینؓ کی بیویوں اور آپ کی ذریت کو قید کرنے پھر انہیں بلا پالان اونٹوں پر بٹھا کر شہروں میں گھمانے کے تعلق سے جو کچھ روایتوں میں مذکور ہے وہ کذب و بطلان پر مشتمل ہے۔ الحمدللہ مسلمانوں نے کبھی کسی ہاشمیہ خاتون کو قید نہیں کیا، نہ ہی بنو ہاشم کے کسی فرد کو قید کرنا حلال سمجھا، لیکن جاھل اور نفس پرست لوگ کافی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔” (منھاج السنۃ جلد ۴ صفحہ ۵۵۹)

بعینہٖ طبری اور العقد الفرید وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے:
“جب ابنائے حسینؓ یزید کے پاس پہنچے تو فاطمہ بنت حسین نے کہا: اے یزید! کیا رسول اللہﷺ کی بیٹیاں قیدی اور باندیاں ہیں؟ یزید نے کہا: نہیں، بلکہ وہ معزز اور آزاد ہیں، اپنی عم زاد بہنوں کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ وہ کیا کچھ کررہی ہیں۔ فاطمہ کا بیان ہے کہ میں ان کے پاس گئی تو دیکھا کہ کوئی سفیانیہ یعنی یزید کے گھر کی خاتون ایسی نہیں جو افسردہ و دکھی اور گریہ کناں نہ ہو۔” (طبری جلد ۵ صفحہ ۴۶۴، العقد الفرید جلد ۴ صفحہ ۳۸۳)

اس روایت سے صاف تصریح ہوجاتی ہے کہ خود اہل بیت حسینؓ نے اس بات کی شہادت و گواہی دی کہ نہ ہی لشکرِ ابن زیاد نے ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی یا ظالمانہ حرکت کی اور نہ ہی امیر یزید نے بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ رکھا۔

اس سلسلے میں علامہ ابن سعد اپنی کتاب طبقات کی جلد پنجم صفحہ ۳۹۷ میں مختلف روایات لائے ہیں جن میں تصریح ہے کہ قافلۂ حسینؓ کے باقی ماندگان کے ساتھ یزیدنے نہایت احترام اور صلہ رحمی کا معاملہ کیا۔ ان روایات میں مذکور ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد جب خانوادۂ حسینؓ کے افراد امیر یزید کے ہاں لائے گئے تو وہ ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ صبح و شام کے کھانے میں حسین بن علیؒ کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے تھے اور تمام ہاشمیہ عورتوں سے دریافت کیا کہ اس معرکہ میں ان کا کون کون سا سامان ضائع ہوا ہے؟ اس وقت جس خاتون نے جو بھی بتایا اس کا دوگنا عطیہ دینے کا حکم دیا۔ بلکہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسی صفحہ پر ابن سعد لکھتے ہیں کہ خانوادۂ حسینؓ کے باقی ماندگان کو دمشق سے مدینہ واپس بھیجتے ہوئے امیر یزید بارہا ان سے ان کی حاجات او ر ضروریات کا پوچھتے رہے اور ان کے بتانے پر ان کے تمام تر مطالبات کو پورا کیا حتیٰ کہ مدینہ پہنچ کر وہاں پیش آنے والی ضروریات تک کی حاجت برآری کا سامان بہم پہنچایا۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ صفحہ ۳۹۷)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ یزید نے ابنائے حسینؓ کی تکریم و اکرام کیا اور انہیں اپنے پاس ہی قیام کرنے یا مدینہ واپس جانے کا پورا اختیار دیا۔ چنانچہ انہون نے مدینہ واپسی ہی کو پسند کیا۔ (منھاج السنۃ جلد ۴ صفحہ ۵۵۹)

اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے علامہ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں:
“یزید نے خانوادۂ حسین کو اعزاز و اکرام عطا کیا، ان کے جو کچھ بھی اسباب حیات دوران جنگ ضائع ہوگئے تھے، ان کا دوگنا عطا کیا اور پوری شان و شوکت اور جلال و اکرام کے ساتھ سواریوں پر بٹھا کر انہیں مدینہ بھیجا اور خود یزید کے اہل خانہ نے اپنے گھروں میں حسینؓ کے حادثہ پر غم کے آنسو بہائے۔” ( البدایہ و النہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۲۳۵)

امید ہے کہ ہماری ان گزارشات کے بعد قارئین کے سامنے خانوادۂ حسینؓ پر لشکر ابن زیاد یا یزید کی طرف سے مظالم کے الزام کی قلعی کھل گئی ہوگی۔ اپنے اس مبحث کو ہم علامہ عتیق الرحمٰن سنبھلی فرزندِ ارجمند مولانا منظور احمد نعمانی مرحوم کے اس بیان پر ختم کرتے ہیں:

“خواتین خانوادۂ نبوت کے ساتھ اور صاحبزادہ علی بن حسینؒ کے ساتھ رنج رسانی اور سخت کلامی وغیرہ کی روایتیں جو طبری میں بھی آتی ہیں اور دوسری کتابوں میں بھی ہیں، ان سب کے بارے میں ہم اپنے آپ کو یہی کہنے کے لئے مجبور پاتے ہیں کہ جب اِن روایتوں سے بالکل مختلف صورت بتانے والی روایتیں بھی موجود ہیں، جو ابھی ہمارے سامنے گزریں تو کوئی جواز نہیں کہ برائی اور بدسلوکی کا معاملہ دکھانے والی روایتیں قبول کرلی جائیں، اور یہ تو مانا ہوا ہے کہ یزید نے اس قافلے کو بہت دے دلا کر نہایت احترام کے ساتھ ایسے لوگوں کی معیت میں مدینے روانہ کیا تھا، جن کے احترام اور حفظِ مرتبت کے رویہ سے اہل قافلہ نہایت خوشنود اور شکر گزار ہوئے ( تاریخ طبری جلد ۶ صفحہ ۲۶۶) اور پھر مدت العمر اس خاندان کے ساتھ غیر معمولی مراعات اور حسن سلوک کا رویہ رہا جس کی تفصیلات میں جانے کی شاید ضرورت نہیں۔” (واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر صفحہ ۲۶۳)
محمد فھد حارث

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *