نام کتاب: کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے
صفحات: ۲۱۹
مولف: مولانا نور عالم خلیل امینی
تبصرہ نگار: محمد اکرم طائر پرتاپ گڑھی
رات کے پونے تین بج رہے ہیں، ہر سو سناٹا چھایا ہوا ہے، تھوڑی ہی دیر قبل چائے کا گلاس خالی ہوا ہے، لیکن ہمارے پاس چائے کی کوئی ایسی خاص قسم نہیں ہے، جسے بار بار پی کر نشاط حاصل کیا جائے، ہماری چائے وہی گھسی پٹی روایتی چائے ہے، اور ذوق بھی کچھ ایسا نہیں ہے کہ چائے کے لئے باقاعدہ انتظام کیا جائے، وہ تو مولانا آزاد تھے جنھوں نے اپنی چائے پر قلم اٹھا کر چائے کا سر فخر سے بلند کر دیا، اللہ بھلا کرے میرے قابل دوست مولانا شعبان صاحب سیتاپوری کا جنھوں نے چائے کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنا لیا ہے، ان کی صحبت نے ہمیں بھی چائے سے قریب کر دیا ہے، لیکن یہ قربت بھی صرف رسمی ہے، مل گئی تو واہ واہ، نہیں ملی تو کیا ہوا، ہاں اتنا ہے کہ چائے جب اپنے لوازمات کے ساتھ مل جاتی ہے تو دو چار سطریں مزید وجود میں آجاتی ہیں، یا دو چار صفحات مزید پڑھ لئے جاتے ہیں، خیر ایک پیالی چائے کے لئے شاید اتنے سطور کو سیاہ کرنا فضول ہو، اس لئے ہم واپس لوٹتے ہیں، اور کتاب پر نظر ڈالتے ہیں
زیر تبصرہ کتاب مولانا امینی کے مضامین کا مجموعہ ہے، اس میں سے اکثر مضامین عربی سے اردو مترجم ہیں، اور کچھ براہ راست اردو ہی میں لکھے گئے ہیں، عربی مضامین الداعی میں شائع ہوتے رہے ہیں؛ جبکہ اردو ترجمے مختلف رسالوں اور ماہناموں میں چھپے ہیں
تمام تر مضامین جن کی تعداد بارہ تک پہنچتی ہے؛ عالم اسلام اور مذہب اسلام کے خلاف چھڑی عالمی یلغاروں اور سازشوں سے متعلق ہیں، یہ سارے مضامین ۲۰۰۱ سے ۲۰۰۶ / 2001 / 2006 کے درمیان لکھے گئے ہیں، یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ عالم اسلام پر، بالخصوص افغانستان و عراق کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا خواب لے کر مغرب سے مشرق وسطی میں داخل ہوا تھا
مولانا امینی نے اپنے مضامین میں جہاں حالات کا بخوبی ہر چہار جانب جائزہ لیا ہے، وہیں مسلمانوں کو امید بھی دلائی ہے، اور عنقریب حالات کا رخ بدلنے کی پیشین گوئی بھی کی ہے
اس کتاب میں پہلا مضمون ہے ” خیر و شر کی معرکہ آرائی: جیت کس کی ہوگی؟”
اس عنوان کے تحت مولانا امینی نے افغانستان پر امریکہ بزدل کی جانب سے ہونے والے ناجائز حملے کا تذکرہ کیا ہے، مولانا نے افغانستان پر ہونے والے حملوں کی جھوٹی دلیلوں کو بے نقاب کیا ہے، طالبان کی حوصلہ افزائی کی ہے، عالم اسلام کی منافقانہ خاموشی کی مذمت اور اظہار افسوس کیا ہے
دوسرا عنوان ہے ” اتحاد و اشتراک، ہماری تمام مشکلوں کی شاہ کلید
اس عنوان کے تحت مولانا نے پوری امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بات کی ہے، مولانا نے لکھا ہے کہ؛ جب ساری ملتِ کفر صرف اسلام دشمنی کی بنیاد پر تمام تر اختلافات و تعصبات کے باوجود مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان کلمہ کی بنیاد پر اکٹھے نہیں ہورے ہیں؟
اسی طرح دیگر تمام مضامین نہایت وقیع، معلومات کا خزانہ، حالات کا تجزیہ اور امید افزا دلائل و شواہد سے معمور ہیں، مولانا لکھتے ہیں کہ؛ عراق پر حملہ کرنے کے ایک مدت بعد جبکہ عراق میں مکمل طور پر امریکہ کی حکومت قائم ہوچکی تھی، فوج، پولیس، اقتدار سب کچھ امریکہ کے زیر اثر آچکا تھا، تو فرعون وقت بش پورے گھمنڈ و غرور کے ساتھ عراق کی سرزمین پر وارد ہوا، اور اپنی فتح کا اعلان کرنے کے لیے میڈیا سے روبرو ہوا اسی اثنا ایک صحافی نے ساری دنیا کے کیمروں کے سامنے اس ظالم پر جوتا پھینک کر اس کمبخت کو ذلیل کر کے رکھ دیا، بعد میں وہ جوتا قریب تین کروڑ روپے کا بکا، مولانا امینی نے اس تاریخ ساز واقعے کی روشنی میں بڑی امید افزا باتیں لکھی ہیں
مولانا امینی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ جو رسوائی و ذلت ہم جھیل رہے ہیں، یہ ہمارے اعمال کی بدولت ہے، اللہ و رسول نے مسلمانوں کے لئے عزت و عظمت کی جو خوش خبریاں دی ہیں، وہ صرف نام کے مسلمانوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ وہ ساری خوش خبریاں اطاعت خداوندی اور سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ مشروط ہیں، مولانا لکھتے ہیں کہ ہم مسلمان درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کی تصویر ہیں، اور تصویر حقیقت کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتی ہے
مولانا امینی نے مسلمانوں کو عہد ماضی کے واقعات کی روشنی میں پر امید رہنے کی دعوت دی ہے، اور لکھا ہے یہ جو کچھ ہے سب وقتی ہے، دائمی نہیں ہے، دائمی عزت اللہ، رسول اور مومنین کے لئے لکھ دی گئی ہے،
مولانا نے ثابت کیا ہے کہ؛ اسلام حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کو اسلام پسند نہیں کرتا ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو بہادر دیکھنا پسند کرتا ہے، اسلام میں بزدلی کی کوئی جگہ نہیں ہے
کاش کہ آج مولانا باحیات ہوتے تو اپنی کھلی آنکھوں وہ سب دیکھ لیتے، جس کی امید وہ آج سے اٹھارہ بیس سال پہلے دلا رہے تھے
کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا امینی عالمی حالات پر باریک نظر رکھتے تھے، اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر بین الاقوامی حالات پر مستقل اپنا نظریہ رکھتے تھے، مولانا نے لکھا ہے کہ باطل خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتا ہے، اور ایک سے بڑھ کر ایک اور جدید ترین خطرناک اسلحوں کو استعمال کرتا ہے، لیکن غلبہ حق یعنی اسلام کا ہوگا، مولانا لکھتے ہیں کہ؛ مکی دور میں اگر رسول چاہتے تو حالات بگڑنے کے بعد آپ بھی خاموش ہو جاتے، اور حالات کے موافق ہونے کا انتظار کرتے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ ہر نئی مصیبت کے بعد رسول ایک نئے جذبے کے ساتھ کھڑے ہوئے، دعوت دینے میں آپ نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹایا، مولانا لکھتے ہیں کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں، میدان نہیں چھوڑنا چاہیے، انداز بدل کر میدان میں آنا چاہئے، زندگی کے اس سفر میں ٹھہر جانا ناکامی ہے، بس چلتے رہنا ہے