الماس ممبئی کی خصوصی پیشکش مولانا حبیب الرحمن اعظمی حیات و خدمات
مفتی شرف الدین عظیم اعظمی شہر ممبئی کے گوونڈی علاقہ میں رہتے ہیں ، اور وہیں کی ’ انوار جامع مسجد ‘ کے امام و خطیب ہیں ۔ امام و خطیب کا منصب ویسے ہی مرتبے کا منصب ہے ، لیکن اس مرتبے میں ، لکھنے پڑھنے کا ان کا شوق ، چار چاند لگا دیتا ہے ۔ گذشتہ دنوں جب ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ممبئی آئے تھے ، تب ان کے توسط سے میری مفتی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی ، اس سے قبل میری ان سے فون پر بس ایک دو دفعہ گفتگو ہوئی تھی ، اس ملاقات کے دوران مفتی صاحب نے مجھے اپنی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’ الماس ‘ کے کئی شمارے تحفے میں دیے ، ساتھ ہی ایک خاص تحفہ ’ الماس کی خاص پیشکش : مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ حیات و خدمات ‘ کی صورت میں پیش کیا ۔یہ خاص نمبر۴۷۹ صفحات میں، اپنے دور کے دیدہ ور محدث ،مولانا اعظمیؒ کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں کو پانچ ابواب میں پھیلے مضامین میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ آغاز میں مفتی ابوالقاسم نعمانی ، مہتمم دارالعلوم دیوبند ، مولانا نعمت اللہ صاحب ، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند اور ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی صاحب ، رفیق اعزازی دارالمصنفین اعظم گڑھ کے پیغامات ہیں ۔مولانا ارشدمدنی صاحب ، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند ، مولانا شفیق احمد صاحب قاسمی ، امام و خطیب ابو ظہبی متحدہ عرب امارت اور مفتی ارشد صاحب شیروانی ، المرکزالرسمی للافتا ء ابو ظہبی کے تاثرات اور دعائیہ کلمات ہیں ۔
مدیر تحریر مفتی شرف الدین عظیم اعظمی نے ’ حرفِ آغاز ‘ میں اس خاص نمبر کی غرض و غایت پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مولانا اعظمیؒ پرایک مفصّل کتاب لانے کی تحریک ان کے دل میں کس لیے پیدا ہوئی ۔وہ لکھتے ہیں ، ’’ ایسی تاریخ ساز اور جلیل القدر شخصیت کی علمی و فکری اور تحقیقی و تصنیفی خدمات کا تقاضا تھا کہ اس خاکدان سے رخصت ہونے کے بعد اس کی جدوجہد بھری زندگی کی تصویر کشی کی جائے ، اس کے کارناموں کو منظرعام پر لایا جائے ، اس کی گراں قدر خدمات کواجاگر کیا جائے تاکہ نسلوں کو معلوم ہو کہ سرزمین ’ اعظم گڑھ ‘ کی زرخیز مٹی نے اس گیے گذرے دور میں بھی ایسے جلیل القدر اور عظیم الشان انسان کو پیدا کیا ہے جس کے آفتاب کمالات کی تنویروں سے ایک دنیا روشن ہے ، جس کے چشمۂ فیض سے ان گنت تشنگانِ علوم نے علم و ادب کی پیاس بجھائی ہے ۔‘‘
خاص نمبر کا پہلا باب ’ نقوش و تأثرات ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں مولانا اعظمی ؒ پر ۱۴ تاثراتی مضامین شامل ہیں ۔جگہ کی تنگی کے باعث تمام مضامین پر بات نہیں کی جاسکتی ، اس لیے صرف دو مضامین کا ہی ذکر کروں گا ۔مولانا شفیق احمد صاحب قاسمی کا ایک تاثراتی مضمون ’ مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ اور جمعیتہ علما ہند ‘ کے عنوان سےہے ، اس میں مولانا اعظمی ؒ کے جمعیتہ علما اورفدائے ملّت مولانا سیّد اسعد مدنی ؒ سے مخلصانہ تعلق ، تدریسی اور انتظامی صلاحیتیں اور سنہ ۲۰۰۱میں سیاہ بِل تحریک کو کامیاب بنانے میں مولانا اعظمی ؒ کےکردار کا دلنشین انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جمعیتہ علما کے دودھڑوںمیں تقسیم ہونے کے بعد مولانا اعظمیؒ مولانا ارشد مدنی کے ساتھ کھڑے رہے کیونکہ ’’ اصولی طور پر وہ اسی گروپ کو صحیح مانتے تھے ، لیکن اس اختلاف کے باوجود مدنی خاندان کے ہر چھوٹے بڑے فرد سے ان کا تعلق برقرار رہا اور دونوں جانب کے ذمہ داروں کو باہم قریب لانے میں ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔‘‘
ایک مضمون مفتی اظفر صاحب قاسمی اعظمی کا بعنوان ’ آہ میرے محسن ، مجمع الکمالات شخصیت ‘ ہے ،مضمون قدرے طویل ہے اور مولانا اعظمیؒ کی شخصیت کے کئی گوشوں کو منوّر کرتا ہے ۔ اس مضمون میں مولانا اعظمیؒ کی شفقت ، محبت ، تربیت کا انداز ، مطالعۂ کتب کی دیوانگی ، اردو ادب پر دسترس ، مولانا کی شاعری ،مورخانہ تصانیف ، اداریہ نویسی ،حافظہ ،مہمان نوازی ، ذوقِ عبادت و بندگی ، فنِ حدیث کے تحریری کارنامے ،لباس پوشاک ، رہن سہن ، دارالعلوم سے محبت ،روابط اور اختلافات غرضیکہ مولانا اعظمیؒ کی حیات اور خدمات کو کوزہ میں سمندر کی طرح سمو دیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ’ استحضار موت ‘ کے ضمنی عنوان سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک ملاقات میں مولانا اعظمی ؒ انتقال کی بات پر کہنے لگے ’’ دس سال سے کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جس رات یہ نہ لگتا ہو کہ یہ میری آخری رات ہے ۔‘‘
اس خاص نمبر کا دوسرا باب ’ حیات و خدمات ‘ کے عنوان سے ہے ، جس میں کُل پانچ مضامین شامل ہیں اور یہ سب ہی مضامین نہایت وقیع ہیں ۔ مولانا خورشید احمد اعظمی قاسمی کا مضمون ’ سوانح نقوش ‘ کے عنوان سے ہے ، اور عنوان کے عین مطابق ہے ۔ مضمون میں مولانااعظمیؒ کی تعلیم اور مختلف مدارس میں ان کی درسی و تدریسی خدمات کا احاطہ تو کیا ہی گیا ہے ، دارلعلوم دیوبند میں تقرری ، ماہنامہ ’ قاسم العلوم ‘ اور ’ دارالعلوم ‘ کی ادارت ، بیرون ملک کے اسفار ، سفر حج و عمرہ ، تصنیف و تالیف اور انتقال کے احوال بھی قلم بند کر دیے گیے ہیں ۔
مولانا عبدالعلیم بن عبدالعظیم اعظمی کا مضمون بعنوان ’ مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ اور جمعیت علمائے ہند ‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے اہم ہے ۔ پہلے کے چند مضامین میں بھی اس موضوع پر لوگوں نے مختصراً لکھا ہے ، لیکن یہ تفصیلی مضمون ہے ۔ اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک ایسے دور کو سامنے لے آتا ہے بابری مسجد کا مسٔلہ گرم تھا ، مضمون میں اس حوالے سے مولانا اعظمیؒ کے ایک رسالے کا تعارف کرایا گیا ہے جس میں بابری مسجد کا ’ سچ ‘ لوگوں کے سامنے لایا اور ’ سنگھ پریوار ‘ کے ’ جھوٹ ‘ کا پردہ فاش کیا گیا ہے ، بعد میں مولانا مرحومؒ نے اس رسالے کی بنیاد پر اپنی اہم کتاب ’ اجودھیا کے اسلامی آثار ‘ تحریر کی تھی ۔
اس مضمون میں شہریت ترمیمی قانون اور آر ایس ایس کے بارے میں مولانا اعظمیؒ کا موقف بھی سامنے لایا گیا ہے ۔ مولانا مرحومؒ چاہتے تھے کہ جمعیت شہریت ترمیمی قانون پر اپنا سخت احتجاج درج کرائے ، مگر یہ تجویز مانی نہیں گئی ۔ مولانا اعظمیؒ کا یہ یقین تھا کہ آر ایس ایس کبھی بھی اپنے نظریات اور پالیسی سے ہٹ نہیں سکتی ۔ مولانا مرحومؒ آر ایس ایس سے گفتگو کرنے کے سخت خلاف تھے ۔ اس باب میں ایک مضمون مفتی عبید اللہ شمیم صاحب قاسنی اعظمی کا ہے جس میں انہوں نے مولانا اعظمیؒ کے بلند پایہ اساتذہ کرام کا تذکرہ کیا ہے ۔ مولاناعبدالعلیم صاحب کا ایک مضمون مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کے حوالے سے ہے ، قاضی صاحب مرحومؒ مولانا اعظمی کے لیے ایک استاذ سے بڑھ کر تھے اور لکھنے پڑھنے میں حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔ مولانا محمد معاذ صاحب قاسمی اعظمی کا مضمون مولانا مرحومؒ کے اسفار پر ہے ۔
تیسرا باب ’ فکر و فن ‘ کے عنوان سے ہے ،اس باب میں مولانا اعظمی کی فنِ حدیث پر بےپناہ دسترس اور مولانا اعظمیؒ کی تمام تصانیف کا جن میں تاریخی تصانیف بھی شامل ہیں ، تنقیدی اور تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے ۔ چوتھا باب جہاتِ ذات ‘ ہے ، اس باب میں مولانا مرحومؒ کے تاریخی شعور ، ان کی تحقیق ، اداریہ نویسی ، سلیقۂ اختلاف ، ان کی تذکرہ نگاری ، نثر نگاری کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ، ان کی تحریر کردہ کتابوں اور مضامین کے حوالے سے ’ دفاعِ حق ‘ میں ان کی خدمات سامنے لائی گئی ہیں ۔ آخری باب ’ اوصاف و کمالات ‘ کے عنوان سے ہے ۔
اس باب کے مضامین کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’ مرنے والے کی تمام خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں ۔‘ آخر کے تینوں ابواب میں سب ہی لکھنے والے ، پہلے کے دونوں ابواب کے لکھنے والوں کی طرح ، اہم ہیں ، سب کا مولانا اعظمیؒ کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے ۔ یہ خاص نمبر ماہنامہ ’ الماس ‘ کی طرف سے مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کو بہترین ’ خراجِ عقیدت ‘ ہے ۔ اللہ مفتی شرف الدین عظیم اعظمی اور ان کے معاون مدیران مولانا حفظ الرحمن اعظمی ، مولانا خورشید احمد اعظمی کو اور سرپرستان مولانا شفیق احمد قاسمی و ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کو جزائے خیر دے ، آمین
شکیل رشید