کتاب کا انتساب عبد اللہ بدر الحبشی کے نام: بدرِ کمال، ماہ ِتمام، صاحبِ شیخ اکبر، ابو محمد عبد الله بدر الحبشی الحرّانی اليمنی کے نام۔ آپ حرم مکی میں مجاور تھے، کہ خواب میں شیخ اکبر کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم ہوا، آپ سب چھوڑ چھاڑ کر شہر فاس پہنچے، شیخ کی صحبت اختیار کی اور اپنی زندگی کے آخری تیئس سال شیخ اکبر کا سایہ بن کر گزارے ۔
مواقع النجوم شیخ اکبر کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ یہ کتاب آپ کو رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اللہ کی طرف سے خصوصی تحفے کی صورت میں دی گئی۔ اس بارے میں شیخ فرماتے ہیں:
جب سبحانہ کی مشیت نے اِس کریم کتاب کو وجود میں ظاہر کرنا چاہا ، اپنی مخلوق کو اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے ہاتھوں وہ تحفہ دینا چاہا جو اُس نے اُن کے لیے اپنے جُود کے خزانوں میں اپنی الطاف وبرکات کی صورت میں چھپا کر رکھا تھا؛ تو میرے وجدان کو حرکت دی کہ میں مرسیہ سے المریہ کی جانب کوچ کروں۔ پس میں سواری پر بیٹھا اور منزل کی جانب رواں ہوا، اس وقت میری ہم سفر مطہر جماعت اور کرم والا گروہ تھا، یہ سن 595ھ کی بات ہے۔
پھر جب میں ان متوقع امور کو سرانجام دینے وہاں پہنچا، تو رمضانِ معظم نے اپنے ہلال سے میرا استقبال کیا،اور جانے سے قبل بہت سے اسرار کا اظہار کیا۔سو میں وہیں رُکا اور ذکر واستغفار میں مشغول ہو گیا، اور یہ (ہلال) میرا کریم ہم نشین اور بہترین انیس تھا۔ ابھی میں دنیا سے ناتا توڑ کر خشوع سے اُن گھروں میں اللہ کی عبادت میں مشغول تھا کہ جن کے بارے میں اُس کا حکم ہے کہ وہاں اُس کا نام بلند کیا جائے، کہ یہ ہلال قمر میں تبدیل ہو گیا، اور اِس کے گزرتے ایام اور راتوں سے لوگوں نے نفع اٹھایا، کہ سبحانہ (تعالی) نے میری طرف اپنے الہام کا پیامبر بھیجا، پھر اِس (الہام) کی تائید اُس خواب سے کی جو پرہیزگار بیٹے (بدر الحبشی) کو دکھایا۔ چنانچہ خواب الہام کے موافق ٹھہرا، اور اِس کتاب میں حکمت کا دھاگا بہترین ترتیب پر جوڑا گیا۔ وہاں میرے علم میں آیا کہ اِس کتاب کو منظر عام پر لانے میں میرا کردار وہی ہے جیسا کہ اُس نے ذکر کیا: “اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چُنتا ہے” اور میں اِن معالم کا خزانچی اور ان آثار کو (کتابی شکل میں) ظاہر اور عیاں کرنے والا ہوں۔ پس میرے شعور میں اُس کی پاک روح نے القا کیا، اور میری ہمت کے آکاشی افق پر اُس کا “فطین بدر” ظاہر ہوا؛ پس روحِ عقلی اِس کی تصنیف میں متحرک ہوئی اور اِس کی تالیف کے اسباب مہیا ہوئے، پھر روحِ فکری نے اِس کی ترتیب میں غور کیا تو اِسے تین مراتب میں ترتیب دیا، اور اِس بارے میں بہترین طریقہ اختیار کیا۔
اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں
میں نے اِسے شہر المریہ میں رمضان المبارک سن 595 ھ کے گیارہ ایام میں تالیف کیا۔ یہ (کتاب) شیخ سے بے نیاز کرتی ہے بلکہ شیخ کو اس کی ضرورت ہے، بے شک شیوخ میں عالی بھی ہیں اور اعلی بھی، اور یہ کتاب اس اعلی مقام پر ہے کہ جس پر کوئی شیخ ہو سکتا ہے، کہ (ہماری) شریعت میں اِس سے آگے کوئی مقام نہیں، جس کا ہمیں مکلف کیا گیا۔سو یہ (کتاب) جس کے ہاتھ لگے تو اُسے چاہیے کہ اِس پر توفیق الہی سے اعتماد کرے؛ کیونکہ اِس کا فائدہ عظیم ہے۔ اور میں تجھے اس کی منزلت کی پہچان اسی لیے کروا رہا ہوں کیونکہ میں نے حق تعالی کو خواب میں دو مرتبہ دیکھا، اور وہ مجھے کہہ رہا تھا: “میرے بندوں کو نصیحت کر۔” یہ وہ سب سے بڑی نصیحت ہے جو میں نے تجھے کی، اللہ ہی توفیق دینے والا ہے اور اسی کے ہاتھ ہدایت ہے، ہمارے ہاتھ تو کچھ نہیں۔
منہج کتاب
شیخ اکبر نے یہ کتاب اہل تصوف کے تین گروہوں کے لیے لکھی اور ہر باب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ تین گروہ : 1- صاحب کشف محققین، 2- شیوخ، 3- سالکین و مریدین ہیں۔ شیخ نے ابواب کتاب میں ایک سا اسلوب نہیں اپنایا بلکہ اسلامی افلاک کو فہم سے قریب تر کیا ہے، تاکہ ہر طالبِ ہدایت، مرید اِس سے نفع اٹھا سکے۔ جبکہ ایمانی اور احسانی افلاک کو فہم سے دور رکھا ہے؛ اِس غیرت سے کہ کہیں نااہل کی ان تک رسائی نہ ہو جائے، اور وہ اِن کا دعوی نہ کر بیٹھے۔ لہذا ان دونوں افلاک میں اشاروں کی زبان اپنائی گئی، استعارہ بندی کی صنف کا بھرپور استعمال کیا گیا، معانی اور الفاظ کو اس حدتک مبہم رکھا گیا کہ محض عبارت پڑھنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
لہذا جہاں جہاں شیخ اکبر نے فہم کا اسلوب اپنایا وہاں عربی عبارت اور اردو ترجمہ شیخ کے اسلوب سے قریب تر ہے۔ ان مقامات پر بات سمجھ بھی آتی ہے اور سمجھائی بھی جا سکتی ہے۔ لیکن جو مقامات اصل عربی میں ابہام کے متقاضی ہیں اُن عبارات کی کما حقہ درست ترجمانی کسی صاحب کشف ہستی کے لیے ہی ممکن ہے، جو ذوق سے ان مقامات پر مطلع ہوا ہو۔ ہم نے اپنے شیخ احمد محمد علی کی وساطت سے اس بارے میں کچھ جمع تفریق کی ہے لیکن پھر بھی اِن مقامات پر شیخ کا حقیقی مدعا بعینہ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ امید ہے شیخ ہمارا عذرقبول کریں گے۔اسی طرح کتاب کے قارئین سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبے کے حوالے سے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر بعض اعلی مقامات میں اردو ترجمہ یا عربی متن بھی حقائق سے دور ہوتا دکھائی دے تو حقائق پر ہی بھروسا کریں۔
کسی بھی غیر معروف کلام کا کما حقہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں، اور شیخ اکبر کا کلام تو الہیات کے بلند ترین مدارج میں سے ہے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر اِس عمل کی ابتداکی، ترجمہ کرنے میں ہمارا اسلوب یہ ہے کہ سب سے پہلے سلیس عبارات کا ترجمہ کرتے ہیں اور مشکل عبارات چھوڑتے جاتے ہیں، یوں دوسے تین ماہ کی محنت کے بعد ترجمے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے۔ جس میں اس کتاب کا ایک ابتدائی مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حسب عادت ایک بار پھر اصل عربی سے ملا کر مکمل ترجمہ چیک کیا جاتا ہے، اغلاط کو کم سے کم کیا جاتا ہے اور ترجمے میں مزید سلاست اور نفاست اپنائی جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ اُن مقامات پر بھی غور کیا جاتا ہے جو پہلی بار ترجمہ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ چونکہ ترجمے کا پہلا مسودہ پرانے متن سے کیا گیا تھا لہذا اِس کو نئے متن سے ہم آہنگ کیا گیا۔
حسب روایت اِس کتاب کے ترجمے میں بھی یہ خصوصیت رکھی گئی کہ شیخ اکبر کا اسلوبِ عبارت نقل کیا گیا، ترجمے میں بھی وہی طرز اپنانے کی کوشش کی گئی جو اصل متن میں ہے؛ مثلاً نص میں جہاں آپ نے مسجع و مقفیٰ رنگ دیا ہے ترجمے میں بھی وہ رنگ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں آپ حقائق کی بات کرتے ہوئے واضح کلام کرتے ہیں وہاں ترجمے میں بھی وضاحت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ واقعات میں جہاں آپ نے عربی روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا، ترجمے میں بھی اردو روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا گیا ہے۔ غرض اپنی طرف سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ بھی اسلوبِ شیخ سے ہٹنے نہ پائے۔