Maqalat e Nizami Professor Khaliq Ahmad Nizami

مقالات نظامی پروفیسر خلیق احمد نظامی

پروفیسر خلیق احمد نظامی کا تعلق امروہہ سے تھا، اور میرٹھ کالج میں جب وہ تاریخ کے استاد تھے تو تاریخ کے جید عالم پروفیسر محمد حبیب نے ایک اتفاقی ملاقات میں ان سے متاثر ہوکر انھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں استاد کے طور پر آنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد کا تمام زمانہ نظامی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی گزارا اور اپنے کرم فرما محمد حبیب کی طرح وہ بھی ادارہ ساز شخصیت بن گئے۔ پروفیسر حبیب کے ساتھ انھوں نے متعدد علمی کام کیے جس میں A Comprehensive History of India Vol. 5: The Delhi Sultanat (.D. 1206–(1526آج بھی تاریخ کے اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی کی شخصیت ان تمام عناصر سے مملو تھی جو انھیں مورخین اور علیگ برادری میں منفرد بناتی ہے۔ پروفیسر نظامی عمر بھر علی گڑھ میں رہے مگر مغرب میں تاریخ کے دبستانوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ سرتاپیر سیکولر اور مذہبی دونوں تھے۔ انھیں تصوف سے یک گونہ لگاؤ تھا مگر عرفِ عام میں جنھیں وہابی کہنے کی حماقت کی جاتی ہے ان کے نظریۂ فکر سے بھی پروفیسر نظامی کو اس درجہ دل چسپی تھی کہ وہ خاندانِ سعود کے بھی قریب تھے۔ مولانا ابوالحسن ندوی انھیں حددرجہ عزیز رکھتے تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز ترین استاد اور بے حد مشفق منتظم تھے۔ سرسید ہال کے پرووسٹ کے طور پر ان کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مسلم یونیورسٹی کے موجودہ دور کے استادوں کے لیے مشکل ہوگا۔ ایک مورخ کے طور پر انھیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی باقاعدہ تاریخ سرسید کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ شاید یونی ورسٹی کی اوفیشیل تاریخ تو ابھی بھی نہیں لکھی گئی ہے۔ پروفیسر نظامی نے اس باب میں پیش قدمی کرتے ہوئے اولاً سرسید ہال میگزین اور پھر کتابی شکل میں ایس کے بھٹناگر کی کتاب History of M.A.O. College شائع کی۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی سر تا سر علمی شخصیت سے حامل تھے اور سیاست دانوں (اگر انھیں واقعی سیاست داں کہا جاسکے) تو مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سے انھیں قرب حاصل تھا، اسی لیے، جب وہ قائم مقام وائس چانسلر تھے تو یونی ورسٹی کورٹ کی میٹنگ میں انھوں نے نہرو خاندان کے نفسِ بے ناطقہ محمد یونس کو سرِمحفل ڈانٹ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ باقاعدہ وائس چانسلر نہ بن سکے اور ایک آؤٹ سائڈر اور Populist علی محمد خسرو کو وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ خسرو صاحب کسی کو ناراض کرنا جانتے ہی نہ تھے یوں یونی ورسٹی کا نظام ایسا درہم برہم ہوا کہ آج تک وہ ڈھرے پر نہ آسکا ہے۔ ان کے بعد سید حامد کی سرکار کے تئیں غیرمشروط وفاداری اور خود کو حددرجہ اصول پسند ثابت کرنے کی پالیسی نے یونی ورسٹی کو تکنیکی طور پر حکومت نے شکنجے میں ایسا کسا کہ اب یونی ورسٹی کا اس دور کی تہذیب کی طرف لوٹنا ناممکن ہے جس کے آخری نمائندہ منتظم پروفیسر خلیق احمد نظامی تھے۔

پروفیسر خلیق احمد نظامیؒ کی شخصیت اردو تحقیق و تاریخ نگاری کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔ وہ تاریخ اسلام، اسلامی تہذیب، تصوف، تاریخ ہند، اسلامی تمدن اور علمی روایت کے بے مثال شارح تھے۔ ادب، تاریخ، تصوف اور اسلامی فنون و تہذیب کے میدان میں پروفیسر خلیق احمد نظامیؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی علمی خدمات اور تحقیقی کاموں نےتاریخ و تصوف اور اسلامی علوم میں جو چراغ روشن کیے، وہ آج بھی قارئین کے دل و دماغ کو روشنی بخشتے ہیں۔مقالات نظامی موصوف کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی نے پورے تزک و احتشام کے ساتھ اس کو شائع کیا ہے۔ یہ چھے ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک مکمل دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی حیثیت رکھتی ہے۔

١. جلد اول: تاریخ و تمدنِ اسلام
مقالات نظامی کی پہلی جلد تاریخ و تمدنِ اسلام ہے۔232صفحات کی اس جلد میں تاریخِ اسلام کے ان چیدہ موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جنہیں عموماً یا تو تاریخ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا یا ان پر بات نہیں کی جاتی، خاص طور پر اسلامی تہذیب کی وسعت، پیغمبر اسلام ﷺ کی شخصیت، خلفائے راشدین، مستشرقین کے افکار کے مختلف ادوارکا تجزیہ اور برصغیر میں اسلامی علوم کے ارتقاء جیسے موضوعات کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ نظامی صاحب نے اپنی تحریروں میں جن موضوعات کو شامل کیا ہے ان میں اسلامی تاریخ کو محض مورخ کی طرح تسلسل کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اس کے تہذیبی اور فکری پہلوؤں پر خاص زور دیا ہے۔

عہد وسطیٰ کے ہندستان میں اسلامی تہذیب اور تمدن کے نشو و نما کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’ہندستان میں اسلامی تہذیب کے اثر و نفوذ کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ کی مدت پر محیط ہے۔ اس کے مختلف دور تھے اور یہ نشیب و فراز اور پیچ و خم کی مختلف کیفیتوں سے گذرتی ہے‘۔ ہندستان میں اسلامی تہذیب کے ارتقا کا اصل منبع وہ صوفیا کو مانتے ہیں لکھتے ہیں: ’ ہندستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کے نشو و نما کی کوئی تاریخ ان صوفیہ اور مشائخ کی جد و جہد و مساعی کو پیش نظر رکھے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ بادشاہوں کی نظریں قلعوں پر جمی تھیں، ان کی انسانی قلوب پر۔‘دنیا بھر کے مقابلے وہ ہندستان کو علوم قرآنی کے نشو ونما میں بھی مرکزی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیںجس کا مکمل تجزیہ کتاب میںشامل مقالہ ’ہندستان میں علوم قرآنی کا نشو و نما‘ میں کیا ہے۔ اسی طرح علوم فقہ پر بھی وافر مقدار میں ہندستان میں جو کام ہوا وہ بھی حیرت انگیز ہے، فقہ اسلامی کی اہم ترین ماخذی کتب بھی ہندستان میں ہی لکھی گئیں جن میں خصوصاً فقہ حنفی کی تشریحات پیش پیش ہیں۔ ابتدا میں ہندستانی سماج پر مسلمانوں کے اثرات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے،جہاں سب سے زیادہ طبقاتی تقسیم پائی جاتی تھی وہاں مسلمانوں نے طبقاتی اتحاد کی مثالیں پیش کیں، جن میں سماجی، لسانی، سیاسی، تہذیبی، تمدنی، فوجی اور علمی سب شامل ہیں، مساوات کی بنیاد پر قائم اس معاشرہ کے ڈھانچہ کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس جلد کا اختتام مستشرقین کے افکار و نظریات کے مختلف ادوار کے تجزیہ پر ہوا ہے۔ یہ جلد قسط وار روزنامہ انقلاب میں بھی شائع ہورہی ہے۔

٢. جلد دوم: تصوف اور صوفیہ
مقالاتِ نظامی کی دوسری جلد، جو ’’تصوف اور صوفیہ‘‘ کے عنوان سے ہے، تصوف کی تاریخ پر جامع اور کئی پہلوؤں سے منفرد ہے۔ 490صفحات کی اس جلد میں برصغیر کے روحانی ورثے، صوفیانہ افکار، اور تہذیبی اثرات کو نہایت سلیقے اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ جلد پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔
١. تصوف اور صوفیہ
٢. صوفیہ اور ہندستان
٣. ملفوظات اور مکتوبات
٤. صوفیہ اور ادب
٥. چند پیش لفظ

اس جلد میں باعتبار ابواب نظامی صاحب نے موضوعات کا مکمل احاطہ کیا ہے۔ ابتدا سے لے کر عہدِ وسطیٰ تک، صوفی فکر کی نشو و نما اور اس کی مختلف تعبیرات کو بڑے فکری استحضار کے ساتھ پیش کیاہے۔ خاص طور پر برصغیر کے عظیم صوفیاخواجہ معین الدین چشتی المعروف بہ حضرت خواجہ غریب نواز، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت بی بی فاطمہ سام، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء، مولانا ضیاء الدین نخشبی، حضرت گیسو دراز، اور حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی رحمھم اللہ وغیرہ کی حیات، تعلیمات اور روحانی اثرات کا گہرا تجزیہ ہے۔ دہلی کے دیگر ممتاز صوفیاء کا بھی تفصیلی تذکرہ پہلے باب میں شامل کیا ہے، نظامی صاحب ہندستان میں دلی کوتصوف کا گہوارہ اور صوفیا کا مخزن سمجھتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں: دہلی اسلامی ہند کی ابتدا سے صوفیا اور علما کا مرکز رہی۔ دجلہ و فرات سے علم و عرفان کی جو موجیں اٹھیں ہیں وہ جمنا ہی کے کناروں سے ٹکرائی ہیںبغداد و بخارا سے جو علمی و روحانے قافلے چلے وہ یہیں آکر ٹھہرے ۔

کتاب کاچوتھا باب اردو زبان اور اس کے فروغ میں صوفیاءکے کردار پر ہے۔صوفیائے کرام کی زبان عوام سے قریب تھی، انھوں نے وعظ و نصیحت کے لیے جو سادہ، دل نشین اور پر تاثیر انداز اختیار کیا، وہ اردو زبان کے ارتقاء کا باعث بنا۔ خاص طور پر خاندانِ ولی اللہی کی خدمات کا ذکر قابلِ توجہ ہے، جنہوں نے مذہبی لٹریچر کو علمی گہرائی کے ساتھ اردو میں پیش کیا۔ ’’اردو زبان کی ترقی میں خاندانِ ولی اللہی کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مذہبی لٹریچر کو اس زبان میں منتقل کر دیا اور اس طرح اس کے مقبول عام ہونے کے امکانات اور بڑھا دیئے۔‘‘

آخری حصے میں وہ پیش لفظ بھی شامل کردیے گئے ہیں جو نظامی صاحب نے تصوف پر مبنی بعض کتابوں کے لیے تحریر کیے تھے۔ جو مصنف کے علمی ذوق، تنقیدی بصیرت اور فکری گہرائی کا مظہر ہیں۔

٣. جلد چہارم: تاریخ و تمدن ہند
مقالات کی تیسری جلد حضرت امیر خسرو کے عنوان سے ہے۔ 202صفحات پر مبنی یہ جلد خسرو کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرتی ہے۔ آغاز میں ان کی حیات اور کمالات پر سیر حاصل مضمون شامل ہے جو ان کے علمی، روحانی اور درباری پہلوؤں کو واضح کرتا ہے۔مقالات نظامی کی اس جلد میں امیر خسرو کی شخصیت کے جس پہلو کو سب سے مؤثر انداز میں واضح کیا ہے، وہ ان کی درباری زندگی کا وہ چہرہ ہے جو اکثر غلط فہمیوں کا شکار رہا ہے۔ خسرو دربار میں ضرور موجود تھے، مگر وہ درباری مزاج کے حامل کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے ہمیشہ عزت نفس کو مقدم رکھا، حق گوئی سے کبھی پیچھے نہ ہٹے، اور دولت و جاہ کی تمنا کو کبھی دل میں جگہ نہ دی۔ ان کی سیرت کا یہ پہلو بے مثال ہے کہ وہ بادشاہوں کے سامنے بھی بے خوف ہو کر سچ کہہ سکتے تھے۔ ان کی شاعری میں علانیہ طور پر یہ بات ملتی ہے کہ بادشاہ کو نہ شراب نوشی کرنی چاہیے، نہ عشق و ہوس میں آلودہ ہونا۔ علاء الدین خلجی کی قبر پر کھڑے ہو کر وہ پورے عہد کے حکمرانوں کو یہ پیغام دے جاتے ہیں کہ جب انجام کار چار گز زمین سے زیادہ کچھ حاصل نہ ہونا ہو، تو اتنے شہر و ملک فتح کرنے کی ہوس کس لیے؟ ان کی نظر میں سونا مٹی کے برابر تھا، اور وہ بے تکلفی سے کہہ سکتے تھے کہ ’گنج زَر اندر نظرم چیست؟ خاک!‘ایسا شخص کسی درباری پیمانے سے ماپا نہیں جا سکتا۔ امیر خسرو دراصل اُس تہذیبی، فکری، اور روحانی روایت کے علمبردار تھے جو صدیوں سے ہندستان کی قومی زندگی کی آبیاری کرتی آئی ہے۔ ملک سے محبت کو وہ ایمان کا جز مانتے تھے۔

فکر، فن اور شخصیت کے مختلف عنوانات کے تحت ان کے صوفیانہ رجحانات، فکری وسعت، اور تہذیبی شعور پر گفتگو کی۔ ہندستان کی تہذیب و ثقافت میں ان کے گہرے اثرات کو مؤثر انداز میں پیش کیا اور ان کی زبان دانی اور فنونِ لطیفہ سے گہری وابستگی کو بھرپور طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ امیر خسرو کی حیثیت ایک مورخ کے طور پر بھی سامنے آتی ہے، جنہوں نے اپنے دور کے حالات کا ادراک رکھتے ہوئے فکری نقوش چھوڑے۔

٤. جلد چہارم: تاریخ و تمدن ہند
سلسلے کی یہ چوتھی جلد 538صفحات پر مبنی ہے۔ اس کے دو گوشے ہیں۔ پہلا تاریخ اور دوسرا شخصیات۔ تاریخی حصے میں جہاں قدیم مآخذ، سیاحتی تاثرات، اور برصغیر کی مختلف ریاستوں کی سیاسی و تہذیبی جھلکیاں اجاگر کی گئیں ہیں، وہیں تحقیق کے نئے طریقوں پر بھی سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے۔ ’نفائس المآثر‘، ’طبقات اکبری‘، ’ذکر ملوک‘، اور ’یادِ ایام‘ پر نظامی صاحب کی گفتگو تاریخی دستاویزات کے تنقیدی مطالعے کا بھی ایک حسین منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ سترہویں صدی کے فرانسیسی سیاح برنئے (Bernier)کی نگارشات سے لے کر نوّابینِ اودھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے باہمی تعلقات تک، تاریخ کے مختلف پرت کھولے ہیں۔ ’انیسویں صدی میں دہلی کا علمی و تہذیبی ماحول‘ اور ’عہدِ غالب‘ جیسے مضامین اُس دور کی فکری و تمدنی فضا کو بڑی گہرائی سے اجاگر کرتے ہیں۔ بنگال کے مسلمانوں کی تحریکِ آزادی میں شرکت اور سلطان ٹیپو شہید کی حیات و جدوجہد پر تحقیقی مضامین بھی اس حصے شامل ہیں۔ شخصیات کے گوشے میں برصغیر کی دینی، فکری اور سیاسی شخصیات کے کارنامے پیش کیے ہیں۔ سید احمد شہید کی تحریکِ اصلاح و جہاد، مولانا محمد علی اور ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت، سید سلیمان ندوی اور حکیم عبدالحی کی علمی خدمات کا بھی گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔ ہندستان میں خواجہ حسن نظامی کی دینی و ادبی جہات، امارت شرعیہ میں مولانا منت اللہ رحمانی کی امارت، اور مولانا نسیم احمد فریدی کی علمی سیرت بھی اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ ذاکر حسین کا تصور مذہب، ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی فکری میراث، پنڈت جواہر لال نہرو کا ذوقِ اردو شاعری، یہ تمام مضامین اس جلد کا حصہ ہیں۔

٦. جلد ششم: دلّی تاریخ کے آئینے میں
مقالاتِ نظامی کی یہ پانچویں جلد، جو مکمل طور پر سرسید احمد خاں کی شخصیت، افکار اور ان کی علمی و تہذیبی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر مبنی ہے، دراصل برصغیر کے فکری، تعلیمی اور تمدنی احیاء کا ایک تاریخی آئینہ ہے۔ 606صفحات پر محیط یہ جلد اس شخصیت پر ہے جس نے ایک شکست خوردہ، بکھری ہوئی، اور حوصلہ ہاری ہوئی قوم کو نئے حوصلے، نئی سمت اور نئے خواب عطا کیے۔ 1857ء کے المیے کے بعد جب پورے ہندستان پر یاسیت، مایوسی اور خوف کے سائے چھائے ہوئے تھے، جب دہلی کے کنوئیں نعشوں سے بھر چکے تھے،اس وقت سرسید احمد خاں نے اپنی قوم کے مستقبل کی تعمیر کا بیڑا اس طرح اٹھایاکہ انھوں نے مسلم اشراف اور زمین داروں کے انگریزوں سے تعلقات بحال کرانے اور بعد میں ان کے بچوں کی انگریزی تعلیم کے لیےMAOکالج کی بنیاد اسی لیے رکھی تاکہ برطانوی حکومت سے ان کے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہ سکیں۔ یہی کالج1920 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی بن گیا۔ مگر علیحدگی پسند قوتوں نے سر سید کے مشن کو برباد کرنے کے لیے1906کی اس ڈھاکہ کانفرنس میں جو مسلم لیگ کے قیام کے لیے منعقد کی گئی تھی، میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو ضم کرکے سر سید کے تعلیمی مشن کے منھ پر کالکھ پوت دی۔
اس جلد میں ایک نئی بحث جو جمال الدین افغانی اور سر سید کی شخصیات پر تجزیاتی کی گئی وہ بھی ایک نئی گفتگو کا آغاز ہے، خلیق احمد نظامی نے اس کو جس انداز میں شروع کیا ہے اس معتدل تجزیہ کو شاید ہی کسی نے ابھی تک چھیڑا ہو۔ انیسویں صدی کا عالم اسلام ایک عجیب کشمکش کا شکار تھا۔ ایک طرف یورپ صنعتی انقلاب، علمی بیداری اور سیاسی ترقی کے زینے پر چڑھ رہا تھا، دوسری طرف مسلمانانِ عالم زوال، جمود، اور ذہنی شکستگی میں گرفتار تھے۔ سر سید نے برطانوی ہندستان کے مخصوص سیاسی و سماجی پس منظر میں تعلیم، سائنسی شعور، اور دینی عقلیت کو اپنا ہتھیار بنایا اور تدریجی اصلاح کی راہ اپنائی، نظامی صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تین رجحانات والی تقسیم کا حوالہ بھی اس میں شامل کیا ہے، مگر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی ایک طرز فکر کو تمام دنیا پر نافذ کرنا قرینِ انصاف نہیں۔

٦. جلد ششم: دلّی تاریخ کے آئینے میں
مقالات کی چھٹی اور آخری جلد ’’دلّی تاریخ کے آئینے میں‘‘ہے۔یہ کئی معنوں میں نظامی صاحب کی سب سے اہم تصنیف ہے۔ آج جب تاریخ پر حملے ہورہے ہیں اور ان کے دفاع کے لیے بقراطی زبان میں لکھی گئی مورخین کی کتابیں کسی کام کی نہیں، یہ کتاب ٹیکسٹ طالبِ علموں ہی نہیں بلکہ استادوں کے لیے بھی ٹیکسٹ بک کی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا بے پناہ عمدہ ترجمہ ڈاکٹر اطہر فاروقی نے Delhi in Historical Perspectives کے عنوان سے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کے لیے کیا ہے۔ یہ جلد تین ابواب پر مشتمل ہے: ’دہلی عہدِ سلاطین میں‘، ’دہلی دورِ مغلیہ میں‘ اور ’غالب کی دہلی‘۔ پہلے باب میں دہلی کو تہذیب و تمدن کا گہوارہ، علم و فن کا محور اور ایک ایسا تاریخی منظرنامہ بنا کر پیش کیا ہے، جہاں صدیوں تک اخلاق و مذہب، فن و ادب اور سیاست و سماج کے سانچے ڈھلتے رہے۔ لکھتے ہیں: عہد وسطی کی دلی صرف ایک شہر ہی نہ تھا بلکہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ علم و ادب کا مرکز اور ایک ایسا کارگاہ فکر و نظر تھا جہاں علم و فن، تعلیم و تربیت، اخلاق و مذہب، معاشرت و سیاست کے سانچے صدیوں تک ڈھلتے رہے۔ ہماری مشتر کہ تہذیب نے اس کی آغوش میں پرورش پائی۔ گیسوئے اردو یہیں سنوارے گئے ۔ سیاسی عروج وزوال کی کتنی ہی داستانیں ہیں جو اُس کے اوراق پر لکھی گئیں۔ اُس کے دروازوں پر حملہ آوروں کی فوجیں بھی کھڑی رہیں اور اہل ہنر و دانش کے قافلے بھی اُترتے رہے۔ یہاں کی سماجی زندگی میں جو ہمہ گیری اور تنوع تھا، وہ ہندوستان کے کسی شہر کو نصیب نہیں ہوا۔۔۔‘‘
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

دوسرے باب میں مغلیہ دور کی دہلی کا تہذیبی ارتقاء، صوبائی روایتوں کی آمیزش، اور ایک ہمہ گیر ہندستانی تہذیب کی تشکیل کو فصاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بادشاہوں کے جمالیاتی ذوق، تعمیرات، اور فکری فضا کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ دہلی ہمیشہ فن و حکمت کا ایک روشن مینار رہی۔ تیسرا باب دہلی کی اس تاریخ پر روشنی ڈالتا ہے جو غالب کے عہد میں زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ 1857ء کے بعد کی دہلی، غالب کی آنکھوں سے، ایک اجڑا ہوا خواب معلوم ہوتی ہے، جہاں ماضی کی شان و شوکت کا ملبہ اور موجودہ بے بسی کا نوحہ ایک دوسرے میں گُھلتے چلے جاتے ہیں۔ غالب کی تحریریں اس دہلی کی نفسیاتی اور تہذیبی شکست کا آئینہ ہیں، جو نوآبادیاتی یلغار کا شکار ہو چکی تھی۔ سا بقہ جلدوں کی طرح اس کا اسلوب بھی تحقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے لبریز ہے، اور مآخذ کی فہرست اس کی علمی وقعت میں اضافہ کرتی ہے۔ کل 134صفحات پر مشتمل یہ جلد دہلی کے تہذیبی ارتقاء کا ایک فکری و تاریخی مرقع ہے، جس میں ماضی کی عظمت، حال کی ویرانی، اور ایک تہذیب کی شکست و ریخت کے مناظر یکجا نظر آتے ہیں۔

سالم فاروق ندوی

کتاب خریدے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *