ترتیب: مولانا مفتی محمد صادق قاسمی مبارکپوری
انیسویں صدی کے بالکل آخری سال (۱۸۹۹ء) میں قائم کیا جانے والا مکتب احیاء العلوم آج ہند وبیرون ہند میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم کے نام سے ایک معتبر دینی درسگاہ اور منفرد تربیت گاہ کی حیثیت سے ایک نمایاں وممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس ادارہ کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی اسے مولانا شکر اللہ مبارکپوری ( م: مارچ ۱۹۴۲ء ) کی صورت میں ایک صاحب عزیمت وصاحب علم مردمجاہد میسر آیا جس نے اپنا سب کچھ تج کر اس ادارے کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھایا ۔ مولانا مرحوم کی پچیس سالہ شبانہ روز محنت اور قربانیوں کے نتیجہ میں اسے ملک کے علمی حلقوں میں ایک اعتبار ومقام اور قبول عام حاصل ہوا ،اور یہ علاقہ کا دینی وعلمی مرکز قرارپایا ۔ طلبہ کا رجوع بکثرت ہوا ، اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے مستفیدین وفیض یافتگان کی ایک لمبی تعداد ہے جن کے علمی وعملی فیضان سے ایک دنیا سیراب ہورہی ہے۔
مولانا شکر اللہ صاحب کے وصال کے تقریباً پون صدی کے بعد۲۰۱۵ء میں یہاں کے چند باحوصلہ افراد نے ان کے نام پر ’’ مولانا شکر اللہ اکیڈمی ‘‘ قائم کی ، جس کے منجملہ اغراض ومقاصد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ’’ مبارکپور اور اطراف وجوانب کی خاک سے پیدا ہونے والے علماء، فقہاء ، محدثین ومفسرین اور ادباء وخطباء کی خدمات اور کارناموں کو منظر عام پر لانا ۔‘‘ چنانچہ اس کے قیام کے چند ماہ بعد ۱۴؍ مئی ۲۰۱۵ء میں اکیڈمی کے ذمہ داروں نے ’’ مشاہیر احیاء العلوم ‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا ، جس میں احیاء العلوم کی فیض یافتہ ۹؍ شخصیات پر مقالے پیش کئے گئے ، جسے اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی محمد صادق قاسمی نے مرتب کرکے ’’ مشاہیر احیاء العلوم ‘‘ کے نام سے ستمبر ۲۰۱۷ء میں ’’ مولانا شکر اللہ اکیڈمی ‘‘ سے کتابی شکل میں شائع کیا ۔
کتاب کا آغاز دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کے دعائیہ کلمات سے ہوتا ہے ، جس کے بعد مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی کے تاثرات ہیں ، مفتی صاحب بھی اس ادارے کے فیض یافتگان میں سے ہیں ۔اس کے بعد مولانا ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی سابق مدیر مجلہ المآثر مئو کا پیش لفظ ہے۔ مرتب کتاب نے اپنے مقدمہ میں اکیڈمی کے قیام اور اس سیمینار کی مفصل رپورٹ پیش کی ہے۔
پہلا مقالہ مولانا محامد ہلال قاسمی کا ’’ نقوش مبارکپور ‘‘ ہے ، جس میں انھوں نے مبارکپور کی مختصر تاریخ اور یہاں کی دینی وعلمی اور صنعتی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد مرتب کتاب نے ’’ بناء احیاء العلوم ‘‘ کے عنوان سے چند صفحات میں اس ادارہ کی تاسیس وبناء کی تاریخ بیان کی ہے۔ جن شخصیات پر مقالات پیش کئے گئے ان میں پہلی شخصیت مولانا حکیم الٰہی بخش ( و: ۱۸۶۳ء ۔م: جون ۱۹۳۷ء ) بانی احیاء العلوم مبارکپور کی ہے ، ان پر مفتی محمدصادق قاسمی کا مقالہ ہے، جس میں حکیم صاحب کے اوصاف وکمالات اور فن طب میں ان کی مہارت کا ذکر ہے۔ مفتی محمد صادق کا تعلق حکیم صاحب کے خانوادے سے ہے ۔ دوسرا مقالہ مولانا شکر اللہ صاحب پر ہے ، جو مفتی محمد سالم سریانوی استاذ جامعہ احیاء العلوم کے قلم سے ہے ، اور کافی تحقیق سے لکھا گیا ہے ، مولانا شکر اللہؒ صاحب کا انتقال ۴۹؍ سال کی عمر میں۲۳؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو ہوا۔ اس کے بعد استاذ العلماء مفتی محمد یٰسین مباکپوری ؒ (۱۹۰۷ء ۔ ۱۹۸۳ء) پر دو مقالے ہیں ، ایک مفتی محمد یاسر قاسمی کے قلم سے ہے اور دوسرا مفتی فرحت افتخار قاسمی نوادوی کے قلم سے ۔
اس سلسلہ کی قسط ۶۰ میں’’ تذکرۂ فقیہ العصر مولانا مفتی محمد یٰسین مبارکپوری‘‘ میں مفتی صاحبؒ کا ذکر آچکا ہے۔ پانچواں مقالہ مولانا محمد یحییٰ رسولپوریؒ(م:۲۲؍ مئی ۱۹۶۷ء) پر مولانا خورشید انور اعظمی صدر مدرس مظہر العلوم بنارس کا ہے ۔مولانا یحییٰ صاحب علوم عقلیہ و فن ہیئت وفلکیات میں غیر معمولی درک رکھنے والے ایک ذہین وطباع عالم وادیب تھے ، یہ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کے سگے ماموں تھے ۔ چھٹا مقالہ مولانا عبدا لستار مبارکپوری (م:۱۴؍ مئی ۱۹۹۲ء) پر ان کے صاحبزادے مولانا محمود الحسن قاسمی مدنی کا ہے۔ مولانا موصوف نے شاہی مرادآباد اور دارالعلوم دیوبند دونوں جگہ سے دورہ حدیث پڑھا تھا ، فراغت کے بعد تجارتی مصروفیات کی وجہ سےدرس وتدریس سے واسطہ نہ رہا، البتہ دینی وملی اور سماجی امور میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔
ساتواں مقالہ خاکسار راقم الحروف کا مورخ اسلام قاضی اطہر مبارکپوری پر ہے جو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ آٹھواں مقالہ بھی قاضی صاحب پر ہے جو مولانا ارشاد الحق قاسمی مدنی مئوی کے قلم سے ہے۔نواں مقالہ احیاء العلوم کے سب سے طویل المیعاد ناظم مولانا عبد الباری قاسمی( م: ۵؍ دسمبر ۱۹۸۷ء) کی ملی ، سیاسی وسماجی خدمات پر ہے ، جو مولانا عبد الرب اعظمی صدر جمعیۃ علماء یوپی کا ہے۔ دسواں مقالہ بھی انھیں پر ہے جو ان کے پوتے مولانا عبدالمان مظہر قاسمی نے ان کی حیات وخدمات پر لکھا ہے۔ گیارہواں مقالہ مولانا عبدالکریم ابراہیم پوری (م: ۲۱؍ دسمبر ۲۰۱۰ء)کی حیات وخدمات پر مولانا راشد علی بہادر گنجی کے قلم سے ہے ۔ آخری مقالہ ماہر فن تدریس مولانا محمد مسلم بمہوری( م: جنوری ۱۹۹۳ء) پر مولانا محمد طیب قاسمی بمہوری کے قلم سے ہے۔ اخیر میں مرتب کتاب کے قلم سے مولانا شکراللہ اکیڈمی کے تعارف پر ایک تفصیلی تحریر ہے ۔
مرتب کتاب مفتی محمد صادق قاسمی، مولانا جمیل احمد قاسمی مدنی(م:۱۱/نومبر۲۰۱۸ء) کے صاحبزادے اور ایک متحرک وفعال صاحب قلم عالم ہیں ،وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، ابھی حال میں ’’تذکرۂ علماء مبارکپور ‘‘ کا اضافہ شدہ ایڈیشن ان کی ترتیب و اضافات کے ساتھ شائع ہوچکا ہے۔ ابتداء سے متوسطات تک تعلیم احیاء العلوم مبارکپور میں ہوئی ، فراغت ۱۹۹۷ء میں دارالعلوم دیوبندسے ہوئی ، اس کے بعد تکمیل ادب اور افتاء کیا ۔ پھر تقریباً ۱۵؍ سال احیاء العلوم میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اس وقت مدر سہ نور الاسلام ولید پور میں صدارت تدریس کے منصب پر فائز ہیں۔