مسلک ارباب حق‘‘ حضرت مولانا شاہ وجیہ الدین احمد رام پوری (1899ء- 1987ء) کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہے، جو اپنے قابل رشک سلسلۂ اساتذہ، علمی وجاہت، فکری و نظری توسع اور معتدل مسلکانہ روش کی بنا پر اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کےلیے قابل احترام ہیں۔ سچی بات ہے کہ حضرت رام پوری نے یہ کتاب لکھ کر روز افزوں افتراقِ امت اور مسلکانہ مخاصمت (بالخصوص بریلی و دیوبند) کے لیے گویا بہترین تریاق فراہم کردیا ہے۔ علامہ رام پوری نے جہاں طرفین (دیوبند و بریلی) کی درست باتوں کی تائید اور غلط عقائد و نظریات کا علمی رد کیا وہیں اتحاد بین المسالک کی دعوت بھی بڑے احسن انداز میں دی ہے۔ اس کتاب کی ثقاہت اور اہل علم و فضل کے ہاں وقعت کااندازہ اس سے لگائیےکہ معروف محقق ودانش ور پروفیسر نثار احمد فاروقی (سابق صدر شعبۂ عربی دہلی یونی ورسٹی) نے اس کا مقدمہ لکھا ہے، اور بلیغ اسلوب میں جہاں کتاب کے معنوی حسن اور محققانہ طرز پر روشنی ڈالی ہے وہیں مصنف کی اتحاد بین المسلمین کے لیے دل سوزی اور جذب دروں کی بھی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔
علّامہ رام پوری کی وجاہت علمی کے تعارف میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انھیں مدرسہ عالیہ رام پور کے جید علما اور کامل الفن اساتذہ کی شاگردی کا شرف حاصل رہا۔ رام پور کا خطہ اپنی مردم خیزی، معارف پروری اور فروغِ علم و فن میں ہندوستان بھر میں مشہور رہا ہے۔ یہاں ایک طرف معقولات و منقولات کے نادر روزگار اساتذہ یعنی بحر العلوم مولانا عبد العلی لکھنوی فرنگی محلّی اور ملاحسن لکھنوی نے علم و حکمت کے خزانے لُٹائے تو دوسری طرف خانوادۂ ولی اللہی کے پروردہ مولانا سلام الله رام پوری، مولانا نور الاسلام رام پوری اور مولانا سیّد حسن محدث رام پوری جیسے جہابذہ تفسیرو حدیث کے علوم کی ضیا پاشیاں کرتے رہے۔ شاید اسی وجہ سے رام پور کو ’’بخاراے ہند‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علمی و فکری فضا کی ایسی جلوہ نمائی ہی نوّاب فیض اللہ خاں کے دور میں مدرسہ عالیہ کے قیام پر منتج ہوئی۔
یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مدرسہ عالیہ رام پور دیوبند و بریلی کے مدارس سے بہت پہلے 1774ء میں قائم ہوا، جس نے بڑے جلیل القدر علما اور مدرّسین پیدا کیے، جن میں امامِ منطق و فلسفہ علّامہ فضل حق خیر آبادی، علّامہ عبد الحق خیر آبادی، علّامہ مفتی ارشاد حسین رام پوری مجددی، علّامہ عبد السمیع بیدؔل رام پوری، علّامہ فضل حق رام پوری، علّامہ حکیم نجم الغنی خاں رام پوری، علّامہ مفتی سلامت اللہ نقش بندی مجدّدی اور مولانا وزیر محمّد خاں رام پوری جیسے علماے زماں اور حکماے دہر اس کا شان دار تعارف بنے۔ نیز رام پور کے خواص علما کو بریلوی و دیوبندی علما کے ہاں جو اعتماد حاصل تھا وہ اس پر مستزاد ہے۔یہ فیضان صرف ہندوستان تک محدود نہیں بل کہ پاکستان کے اجلہ علما مثلاً سیّد دیدار علی شاہ الوری، پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری، شیخ الجامعہ علّامہ غلام محمّد گھوٹوی، قاضی صدر الدّین نقش بندی مجددی، مولانا محمّد دین منطقی‘ رام پوری علما کے مایہ ناز تلامذہ تھے۔ غزالی زماں علّامہ سیّد احمد سعید کاظمی کا سلسلۂ سند بھی علماے رام پور تک پہنچتا ہے۔
نیز وطن عزیز پاکستان میں اہل سنت کے چوٹی کے علما مثلاً استاذ العلما مفتی سید مسعود علی قادری (متوفی 1393ھ/ 1973ء) اور تاجدارِ ملتان حضرت مولانا حامد علی خاں (متوفی 1401ھ/ 1980ء) کو تو بہ راہِ راست علّامہ وجیہ رام پوری سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ اگر اس تاریخی تناظر کو مد نظر رکھا جائے تو ہندوستان کے مراکز علمی و دینی میں علماے رام پور اور ان کی تحقیقات و تخلیقات کی قدرو قیمت کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ سوسالہ پاک و ہند کی دینی تاریخ میں دیوبندی بریلی نزاع کا غیر جانب دارانہ اور معروضی جائزہ اگر کہیں ممکن تھا تو وہ علماے رام پور سے ہی متوقع ہو سکتا تھا۔ لہٰذا علّامہ وجیہ رام پوری کی سلامت روی، حق گوئی اور محققانہ بصیرت کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ ان اختلافی موضوعات پر کتنی عمدگی، فنی مہارت اور داعیانہ دل سوزی سے کلام کیا ہے۔ اگر قارئین اس تناظر کو ذہن میں رکھ کر کتاب کے مشمولات کی ورق گردانی کریں تو بہتر نتائج فکر اور وضوحِ حق کی بڑے اطمینان سے پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔
رضاء الحسن قادری صاحب نے قلیل عرصے میں دین اسلام بالخصوص مذہب اہل سنت کی معتدل تعبیر و تشریح کو اپنا مقصد اولین بناکرجس یکسوئی اور تن دہی سے کام کیا ہے وہ لائق صد تحسین ہے۔ دارالاسلام کے اشاعتی مرکز سے علامہ اسید الحق محمد عاصم بدایونی کی ’’حدیث افتراق امت‘‘ مصباحی حضرات کی ’’دعوت دین کے جدید تقاضے‘‘ اور ’’دعوت دین کی راہیں مسدود کیوں؟‘‘ ایسے فکر انگیز موضوعات اور بصیرت افروز عنوانات پر تھوڑے ہی عرصے میں اشاعتِ کتب اسی مقصدیت کی کرشمہ سازی اور اسی لگن کی جلوہ سامانی معلوم ہوتی ہے۔ اب انھوں نے ’’مسلک ارباب حق‘‘ ایسی معرکہ آرا تصنیف کو پاکستان سے شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ علامہ وجیہ ایسی ثقہ، مستند اور وقیع علمی شخصیت کی کتاب اس قابل ہے کہ تمام مکاتب فکر کے وابستگان اس کا بالاستیعاب مطالعہ کریں، اور صاحب کتاب کی متوازن اور معتدل آرا سے مستفید ہوکر فروعی اختلافات کے حوالے سے تشدّد وتحکم کا راستہ ترک کریں، تاکہ تمام دین دار طبقات فکری و عملی محاذ پر امت کو درپیش چیلنجوں کا زیادہ یکسوئی اور اتحاد و اتفاق سے مقابلہ کرسکیں.
Bilal masjid thana ganj mohalla shutar khana Rampur Uttar Pradesh
244901
Mujhe ye kitaab cahiye
60000028182