عہد صدیقی و فاروقی میں صحابہ کرام کی فتوحات ایران و عراق کی سچی تاریخ، بالخصوص حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی متعدد جنگوں کی تفصیل
تاریخ فتوحات فارس فیصل بھائی کی پہلی کتاب ہے جس کو ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔یہ کتاب تین سو تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا موضوع خلافت راشدہ میں دور صدیقی و دور فاروقی میں ایران و عراق کی فتوحات ہیں۔ یوں تو اس دور مبارک میں مسلمانوں نے شام و مصر میں فتوحات شروع کر دی تھیں مگر وہ فتوحات اس کتاب کے موضوع سے خارج ہیں۔ ساسانی سلطنت اپنے زمانے کے سپر پاور تھی جس کا غرور محض کچھ سالوں میں مسلمانوں نے خاک میں ملا ڈالا۔ یہ کتاب ساسانی سلطنت کی مسلمانوں کے
ہاتھوں شکست کی ایک روداد ہے۔
یہ کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلے باب میں ساسانی سلطنت کی تاریخ اور فارس کے شاہان کا مختصراً ذکر ہے۔ اس سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ جزیرہ نما عرب کسی کی غلامی میں نہیں رہا کیونکہ یہ کوئی زرخیز علاقہ نہیں تھا جبکہ اس کے جنوب میں واقع یمن سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقہ تھا تو اس پر ساسانیوں کی نظر تھی اس لیے یہاں کی حکومتوں کو انہوں نے اپنا مطیع کر لیا تھا۔
جب سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو اس وقت فارس میں ساسانی خاندان کی حکومت تھی جو اس وقت ساڑھے تین سو سال سے حکومت کر رہا تھا۔ ساسانی سلطنت سے پہلے فارس پر تین سلطنتوں کا ذکر مصنف نے کیا ہے۔
پہلی ہخامنشی سلطنت (Achaemenes Empire) ہے۔ اس سلطنت کی بنیاد قریباً چھ سو قبل مسیح میں رکھی گئی۔ اس سلطنت کو عروج کوروش اعظم یا سائرس اعظم کے دور میں ملا۔ سائرس کو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودوی سمیت کچھ مفسرین نے سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ مصنف کو اس نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کہ سائرس قرآن مجید میں مذکور ذوالقرنین ہیں۔ مجھے اس حوالے سے مولانا مودودی و مولانا آزاد کی تحقیق مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ ذوالقرنین کا تعین چونکہ اس کتاب کا موضوع نہیں اس لیے مصنف نے فقط اپنے نکتہ نظر کا نتیجہ ذکر کر دیا ہے۔ مصنف نے اس سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست دی ہے اس سلطنت کا آخری بادشاہ داریوش تھا جس کا زمانہ 330 قبل مسیح بنتا ہے۔
دوسری سلطنت سلیوقی سلطنت (Seleucid Empire) ہے۔ درایوش کو سکندر مقدونی نے شکست دے کر اس سلطنت کی بنیاد رکھی مگر سکندر کے انتقال کے بعد یہ سلطنت نااہل ہاتھوں میں چلی گئی اور 83 سال بعد ہی ختم ہو گئی۔ سلیوقیوں کو پارتھیوں سے شکست ہوئی
تیسری سلطنت اشکانی سلطنت (Parthian Empire) تھی۔ اس کا پہلا بادشاہ ارشک تھا۔ اس سلطنت میں تقریباً 28 بادشاہ گزرے ہیں اور ساڑھے چار سو سال سے زائد عرصہ تک یہ قائم رہی۔
اشکانی سلطنت کا خاتمہ ساسانیوں کے ہاتھوں ہوا اور اردشیر اکبر پہلا ساسانی بادشاہ تھا اس سلطنت کا اکیسواں بادشاہ خسرو پرویز تھا جس بد بخت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط پھاڑا تھا۔ یہ اس سلطنت کا آخری مضبوط بادشاہ ثابت ہوا۔
فارس کی مذہبی تاریخ پر بھی مصنف نے لکھا ہے کہ زرتشت نے مشرکانہ عقائد کو رد کر کے توحید کی دعوت دی مگر جب فارس سکندر مقدونی کے ہاتھوں فتح ہوا تو اس نے زرتشت مذہب کی کتاب اوستا کو جلا دیا۔ جب ساسانی اقتدار میں آئے انہوں نے اوستا کو نئے سرے سے مرتب کیا مگر چار پانچ صدیاں گزرنے کے باعث زرتشتی عقائد میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آ گئی تھیں اور اس نے فارسیوں کو مجوسیت کا مرکز بنا دیا۔
اوائل اسلام میں ایران و روم کی جنگ بھی ہوئی جس میں مشرکین کی ہمدردیاں مجوسیوں کے ساتھ جبکہ مسلمانوں کی اہل کتاب کے ساتھ تھیں مصنف نے اس کا بھی جامع انداز میں ذکر کیا ہے۔
فارس کے ساتھ اسلام کا تعارف تب ہوا جب حضرت سیدنا عبداللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب لیکر خسرو پرویز کے پاس گئے جس میں اس کو دعوت اسلام دی گئی مگر خسرو نے مخاصمانہ رویہ اپنایا جس سے اس نے اپنی سلطنت کی تباہی کی بنیاد رکھ دی۔ اس نے یمن کے گورنر بازان کو خط لکھا کہ مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی ایک شخص نے دعویٰ نبوت کیا ہے ان کو گرفتار کر کے میرے پاس لے آؤ۔
خسرو پرویز اپنے بیٹے شرویہ کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا اس کے بعد ساسانی سلطنت عدم استحکام کا شکار ہوئی اور اس میں کئی بادشاہ آئے مگر کوئی بھی آرام سے حکومت نہیں کر سکا۔
فارس کا تاریخی پس منظر اور وہاں کے سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ پہلے باب میں پیش کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں عراقی مہمات کا ذکر ہے۔ اس سے پہلے حیرہ کی عرب ریاست کا ذکر ہے جو کہ ساسانیوں کی باجگزار تھی۔ عربوں کو غلام رکھنا مشکل تھا تو ساسانی حکمران اردشیر نے اس کا حل یہ نکالا کہ عربوں پر ان میں سے کسی عربی کو سردار بنا دیا جائے جو کہ ساسانیوں کا وفادار ہو اس سے رومیوں کے خلاف بھی عربوں سے مدد لی جا سکتی تھی۔ عربوں کی اس ریاست کو لخمی ریاست کہا جاتا تھا جس کا دارالحکومت حیرہ تھا۔
جب خسرو پرویز کا دور آیا تو اس نے لخمی ریاست کی داخلی خود مختاری کا بھی خاتمہ کر دیا اور لخمی ریاست کے حکمران نعمان بن منذر کو قتل کروا کر اس کی جگہ ایاس بن قبیصہ الطائی کو گورنر بنا دیا۔ نعمان بن منذر کے بنو بکر بن وائل والوں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور اپنے خزانے کی چابیاں بھی اس نے بنو بکر کے سردار مسعود شیبانی کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں۔ نعمان کے قتل کے بعد عربوں اور فارسیوں کی چپقلش چلتی رہی۔ پھر اسلام عراق میں آیا تو بنو بکر والے بڑی تعداد میں مسلمان ہو گئے جن میں سے ان کے ایک سردار حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی بھی تھے۔ اسلام لانے سے پہلے حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی نے نوجوان عیسائی عربوں کی ایک خفیہ تنظیم بنائی ہوئی تھی جو فارسی فوجیوں پر حملے کرتی تھی، ایسے ہی کاروائیاں قبیلہ بنو عجل کے سربراہ حضرت مذعور بن عدی کی جانب سے بھی فارسیوں پر ہو رہی تھیں اور حضرت مثنی بن حارثہ کے ساتھ حضرت حرملہ بن مریط حنظلی اور حضرت سلمہ بن القین تمیمی بھی شامل تھے۔ اسلام نے ان چاروں کو مزید قریب کر دیا اور فارسیوں سے مخاصمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ قبول اسلام کے بعد حضرت مثنی بن حارثہ نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فارسیوں کے خلاف جنگ کی اجازت چاہی تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ ان کی سربراہی میں جنگ ہو۔ یوں یہ تمام لشکر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں اہل فارس کے خلاف لشکر اسلام کا حصہ بن گئے۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آتے ہی فتوحات کا آغاز کیا اور بہت ہی تھوڑے عرصے میں حیرہ پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ اس باب میں مندرجہ ذیل جنگوں کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔
جنگ کاظمہ
جنگ مذار
جنگ ولجہ
جنگ الیس
اور
فتح حیرہ
ان جنگوں کے حالات پڑھ کر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بہترین کمانڈ کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ہر بار مجاہدین نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو دھول چٹائی اور پیش قدمی جاری رکھی۔
اس باب میں حضرت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ہے جو تن تنہا مدینہ منورہ سے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر کا حصہ بنے جبکہ حضرت خالد بڑی کمک کی امید لگائے بیٹھے تھے مگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ جس لشکر میں قعقاع رضی اللہ عنہ جیسا نوجوان ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ پھر ہر جنگ میں حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے جس طرح بہادری کے جوہر دکھائے وہ حرف بحرف درست ثابت ہوئے۔
مسلمانوں کا پہلا ہدف حیرہ تھا جو کہ حاصل کر لیا گیا
تیسرا باب الجزیرہ کی مہمات کے بارے میں ہے۔ اس باب میں انبار، عین التمر، دومتہ الجندل، حصید و خناخس، مضیح، ذومیل اور جنگ فراض کا ذکر ہے۔ ان میں سے حصید و خناخس کے علاوہ سب مہمات میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ حصید حضرت سیدنا قعقاع بن عمرو اور خناخس حضرت ابو یعلیٰ نے فتح کیا۔
جنگ فراض اس حوالے سے اہم ترین جنگ تھی جس میں فارسیوں کے ساتھ ساتھ رومی بھی متحد ہو کر لشکر اسلام کے مقابل آئے تھے۔ اسلامی لشکر کی تعداد پندرہ ہزار جبکہ فارسیوں و رومی لشکر کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی جس کی سربراہی ایرانی جنرل ہرمز جادویہ کر رہا تھا۔ اس جنگ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور فارسیوں کا غرور خاک میں ملا دیا۔ جنگ فراض کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو فارس کے محاذ سے شامی محاذ پر بھیج دیا۔اسلامی لشکر حضرت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں لڑ کر اب کافی تجربہ کار ہو چکا تھا بالخصوص حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کافی سیکھا۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد مسلم فتوحات کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری رہا البتہ فارس کے حکمرانوں کو کمانڈ تبدیل ہونے پر لگا کہ اب موقع ہے اپنی پہ در پہ شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے اس کے لیے جنگ بابل ہوئی مسلمانوں کے لشکر کی قیادت اس بار حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تھی اور اس بار بھی ایرانیوں کو شکست ہوئی۔ چوتھے باب میں جنگ بابل کے ساتھ ساتھ
جنگ نمارق
جنگ کسکر
جنگ باقسیاثا
جنگ جسر
اور جنگ بویب کا ذکر ہے۔
ان جنگوں میں سے جنگ جسر کے سوا سب جنگوں میں مسلمان فاتح رہے۔ جنگ جسر میں اسلامی لشکر کی کمان حضرت ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے پاس تھی اس سے پہلے نمارق، کسکر، باقسیاثا میں ان کے زیر کمان ہی اسلامی لشکر نے فتوحات حاصل کیں مگر اس جنگ میں ایرانی جنرل بہمن جادویہ نے حضرت ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کو اشتعال دلا کر دریا پار کرنے پر مجبور کردیا جو کہ ایرانیوں کے لیے ہر طرح سے موزوں میدان تھا مسلمان چونکہ قلیل تعداد میں تھے اور ان کے پیچھے دریا تھا اس لیے اس بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شہید ہو گئے اور دوسرے اہم کمانڈر حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی رحمۃ اللہ علیہ زخمی ہو گئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک جب حضرت ابو عبیدہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ حضرت سیدنا ابو عبیدہ ثقفی رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے والد ہیں اور یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں مگر مصنف نے لکھا ہے کہ یہ جلیل القدر تابعی تھے۔
جنگ بویب نے مسلمانوں کا مورال بحال کیا جو جنگ جسر کی وجہ سے کافی پست ہو چکا تھا۔
پانچواں باب جنگ قادسیہ کے بارے میں ہے۔اس سے پہلے ایرانی زعماء نے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے یزدگرد کی حکمرانی تسلیم کر لی اور جنرل رستم بن فرخ زاد جو کہ مشہور جرنیل تھا کی سربراہی میں ایک بھاری لشکر تیار کیا گیا۔ رستم مسلمانوں کی ہیبت سے خوفزدہ تھا اس لیے وہ جنگ نہیں چاہتا تھا مگر یزدگرد کے حکم پر وہ اپنے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف نکل پڑا۔ اس بار مسلمانوں کی کمانڈ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کر رہے تھے۔ عین جنگ کے موقع پر حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو تکلیف ہوئی اور وہ چلنے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے حضرت خالد بن عرفطہ کی مدد سے لشکر اسلام کو کمانڈ دی۔ اس جنگ میں عیسائی عرب بھی مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ یہ جنگ پانچ دن جاری رہی اور بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوئی رستم ہلاک ہو گیا۔ادھر مدینہ منورہ میں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بہت بے چینی سے جنگ کے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے کہ خود جا کر قاصد سے حالات معلوم کیے جس کو نہیں معلوم تھا کہ حالات دریافت کرنے والے امیر المومنین ہیں۔ قادسیہ کی فتح نے ساسانی سلطنت پر ایک کاری ضرب لگا دی تھی۔
چھٹا باب ساسانی درالحکومت مدائن کی فتح کے بارے میں ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی سربراہی حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف ساسانی بادشاہ یزدگرد تھا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے دریا میں اپنے گھوڑے اتار دئیے اور وہ صیح سلامت دوسری جانب چلے گئے۔ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تین شرائط رکھیں ایرانیوں نے جنگ کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر دیا مگر جزیہ پر راضی ہو گئے۔ یزدگرد خود بھاگ گیا تھا اس لیے اس کے ہوتے ہوئے فارس مکمل فتح نہیں ہو سکتا تھا۔
ساتواں باب بھی خوزستان و فارس کی مہمات کے بارے میں ہے۔اس باب صوبہ فارس پر مجاہدین اسلام کے پہلے بحری حملے کے احوال ذکر کیے گئے ہیں۔
آٹھواں باب جنگ نہاوند کے بارے میں ہے جو کہ سلطنت ساسانیہ کے خاتمے کے لیے فیصلہ کُن جنگ تھی۔ جنگ سے پہلے کچھ لوگ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو کہ اس وقت کوفہ کے گورنر تھے کے بارے میں شکایات لیکر مدینہ منورہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کو تحقیقات کے لیے کوفہ بھیجا تو حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بے قصور پایا اور ان کی شکایت کرنے والے بدنیت تھے۔ حضرت سیدنا عمر نے حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہم کو واپس بلا لیا۔ اب فارسیوں کے مقابل نہاوند میں لشکر اسلام کے سپہ سالار کا انتخاب کرنا تھا تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ کو کمان دی۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس جنگ میں خود شریک ہونا چاہتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت سیدنا طلحہٰ بن عبید اللہ اور حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم نے جانے کا مشورہ دیا مگر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں جانا چاہیے، بالآخر مشاورت کے بعد حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ مانا اور خود جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔
جنگ نہاوند فیصلہ کُن جنگ تھی اس جنگ میں دونوں طرف سے شدید لڑائی ہوئی اور اتنا خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں خون پر پھسل رہے تھے۔ سپہ سالار حضرت سیدنا نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ بھی اس جنگ میں شہید ہو گئے تو کمان حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئی۔ بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوئی اور ساسانی سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ مگر یزدگرد پھر فرار ہو گیا۔ اس کی گرفتاری یا موت تک مسلمان آرام سے نہیں بیٹھ سکتے تھے کیونکہ وہ ہر جگہ لشکر جمع کر کے حملہ کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اس لیے اس کا تعاقب جاری رہا۔
نواں باب دیگر فتوحات و تسخیرات کے متعلق ہے جس میں ہمدان، آذربائجان،رے (تہران) ، طبرستان، آرمینیا، خراسان، سجستان اور مکران کی فتوحات کا مختصر بیان ہے۔مکران حضرت حکم بن عمرو تغلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا تو اس پر حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مزید پیش قدمی سے روک دیا۔ مکران کی جنگ مسلمانوں کی ہندوؤں یا بدھوں کے خلاف پہلی جنگ تھی اس جنگ کو جنگ راسل کہتے ہیں جس میں مکرانی فوج کی کمان راجہ راسل کر رہا تھا۔
اس باب میں دارالبجرد کی فتح کا بھی ذکر ہے جس میں اسلامی لشکر کے سربراہ حضرت سیدنا ساریہ بن زنیم رضی اللہ عنہ تھے۔ اس جنگ میں ہی حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وہ کرامت ظاہر ہوئی جب آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر حضرت سیدنا ساریہ رضی اللہ عنہ کو کہا کہ پہاڑ کی طرف ہو جاو۔ اس آواز کو حضرت سیدنا ساریہ رضی اللہ عنہ نے پہچان لیا اور پہاڑ کی طرف ہو گئے اور اسلامی لشکر کو نقصان سے بچا لیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فتوحات کو بیان کرتی ایک بہترین کتاب ہے جس میں کئی ایسی شخصیات کا ذکر ملتا ہے جن کو بدقسمتی سے اب ہم فراموش کر چکے اور ان کا ذکر اب شاذ و نادر ہی ہمارے ہاں ہوتا ہے جیسے کہ حضرت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ، حضرت زہرہ بن حولی، حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی، حضرت معنی بن حارثہ شیبانی، حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان رضی اللہ عنہم جیسی ہستیاں۔ پھر ایک اور اہم شخصیت جناب طلیحہ بن خویلد اسدی جو کہ بعد از وصال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مدعی نبوت ہو کر مرتد ہو گئے تھے دوبارہ اسلام لائے نہاوند کی جنگ تک فتوحات فارس میں مسلم لشکر کا حصہ رہے اور بہادری و جانثاری کے بہترین جوہر دکھائے۔
راجہ قاسم محمود