نام کتاب: شجرۂ مبارکہ یعنی تذکرہ علماء مبارکپور
مصنف: مولانا قاضی اطہر مبارکپوری
مبارکپور ہمارے دیار کا ایک ممتاز ومعروف علمی و تاریخی اور صنعتی قصبہ ہے۔جس کی خاک سے ایک سے ایک جہابذۂ علم وفن اٹھے جن کی ملکی وبین الاقوامی سطح پر ایک شناخت اور پہچان ہے ۔ انھیں میں سے ایک نمایاں نام مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کا ہے ، جنھوں نے دیگر علمی وتحقیقی کارناموں کے ساتھ اپنے وطن کی مفصل تاریخ اور یہاں کے علماء کا تذکرہ لکھا۔جس میں اپنے قصبہ مبارک پور اور اس کے ملحق گاؤں وقصبات کی ساڑھے چارسو سالہ اجمالی تاریخ اور قصبہ وسواد قصبہ کے مشائخ وبزرگانِ دین، علماء، فقہاء، محدثین، مدرسین ومصنفین، شعراء وادباء اور دیگر ارباب علم وفضل کے حالات اور ان کے علمی ودینی کارناموں کو بیان کیا ہے۔
1947ء میں جب قاضی صاحب اخبار ’’ انصار ‘‘بہرائچ کے مدیر تھے، اسی وقت ’’مشاہیر اعظم گڈھ ومبارکپور ‘‘ کے عنوان سے تلاش وتحقیق کا کام شروع کردیا تھا ، ان کی ایک ڈائری میں جو ان کے محفوظات میں موجود ہے اس کی تفصیل میں نے دیکھی ہے۔لیکن دوسرے کاموں کے ہجوم میں یہ سلسلہ اس وقت پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ۔آزادی کے بعد ملک کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے قاضی صاحب کو محسوس ہوا کہ ہمارے ملک کی علمی بستیوں کی تاریخ بھی لکھی جانی چاہئے اور وہاں کے اہل علم وفضل کے کارناموں کو منظر عام پر لانا چاہئے۔ وہ ’’ اسلامی ہند کی عظمت رفتہ‘‘کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
*’’ملک میں مسلمانوں کی جو بستیاں علم وفضل اور دینی امانت کا صدیوں تک گہوارہ رہ چکی ہیں ، ان کی بھی اسلامی تاریخ مرتب کردینی چاہئے، تاکہ سند رہے اور وقت پر اپنی نسل کے کام آئے، ورنہ فرقہ واریت اور تعصب کا منصوبہ یہاں سے ایک ایک اسلامی نشان کو مٹادینا چاہتا ہے ،اور مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی وثقافت سے محروم کرکے مسکین ویتیم بنانے کی کوشش میں ہے ، اس کے دفاع کی ایک کامیاب شکل یہ بھی ہے ۔( اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ،ص: ۱۴، مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی ،۱۹۶۹ء) *
چنانچہ انھوں نے خود اس سلسلہ میں دو کتابیں لکھیں، ایک تو یہی شجرۂ مبارکہ یعنی تذکرہ علماء مبارکپور اور دوسرےدیار پورب میں علم اور علماء۔ ان کے ایما پر ان کے شاگرد مولانا محمد عثمان معروفی نے مشاہیر پورہ معروف اور مشاہیر کوپاگنج، مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی نے تذکرہ علماء اعظم گڈھ اورمولانا وسیم احمد بنارسی نے تذکرہ علماء بنارس لکھی۔ان کے علاوہ مشرقی یوپی کے کئی خطوں کی تاریخ اور وہاں کے علماء کے تذکرے لکھے گئے۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن جمادی الاوّل ۱۳۹۴ھ/جون ۱۹۷۴ء میں دائرہ ملیہ مبارکپور سے شائع ہوا ۔اس کی ترتیب وتدوین میں جو تلاش وتحقیق اور کاوش وجستجو قاضی صاحب نے کی ہے ، مقدمہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
میں نے اس کتاب کی تالیف کے لیے معلومات حا صل کرنے میں بڑی محنت کی ہے اور اپنے بزرگوں کے حالات وتراجم کی تلاش میں دن اور رات کی قید سے آزاد رہ کر آبادیوں اور ویرانوں کاچکر کاٹاہے۔ محلوں اور جھونپڑوں میں آیا گیاہوں اور دورونزدیک ہر جگہ سے مطلب کی بات حاصل کی ہے۔ ذمہ داری اور جذبۂ تشکر کے ماتحت جن حضرات نے تراجم کی فراہمی میں مدد کی ہے، ان کے نام بھی دے دیے ہیں۔ اس کتاب میں ان ہی حضرات کے تراجم درج کیے گئے ہیں، جن کو موت نے تاریخ کا عنوان بنادیاہے اور جوسلف کے زمرہ میں شامل ہوکر ہماری طرف سے اس قرآنی دعاکے مستحق بن چکے ہیں:رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَ وْفٌ رَّحِیْم [سورۃ الحشر :۱۰]
کتاب کا آغاز مبارکپور کی اجمالی تاریخ کے عنوان سے ہوتا ہے ، جسے اعظم گزیٹر (مطبوعہ 1911ء) اور دیگر کتب کی مددسے لکھا گیا ہے، اس کے بعد تقریباً پچاس صفحات میں مبارکپور اور اس سے ملحق ایک درجن سے زائدگاؤں کی تاریخ ، وہاں کے وقائع وحوادث ، مذاہب اور فرقے، دینی ، علمی، درسی اور روحانی سلسلے ،مدارس ومکاتب کی داستان ، شعر وادب اور علماء مبارکپور کی تصنیفی خدمات، ان کی عالمی شہرت ، ان سب موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب حضرات اہل علم کے حالات وکارنامے پوری تلاش وتحقیق کے ساتھ لکھے گئے ہیں ۔ قاضی صاحب کی اس محنت کے نتیجہ میں مبارکپور اور اس کے مضافات کی کئی صدیوں پر مشتمل تاریخ اور وہاں کے علماء ومشائخ کے حالات وکارنامے محفوظ ہوگئے ۔قاضی صاحب لکھتے ہیں:
’’مبارکپور کی علمی و دینی تاریخ کے تین ادوار ہیں، پہلا دَور یہاں کی آبادی حدود ۹۵۰ھ سے تیرہویں صدی کے نصف آخر تک، اس دَور کے علماء ، فضلاء اور مشائخ کے نام اور حالات بہت کم مل سکے ہیں۔ دوسرا دَور تیرہویں صدی کے اواخر سے لے کر چودہویں صدی کے اواخر کا سوسالہ دَور مبارکپور کی علمی، دینی اور ادبی زندگی کے حق میں بہت ہی عہدآفریں اور بڑامردم خیزہے۔ اس دَور کے مبارکپور کو بجا طور پر ’’نیشاپورہند‘‘کہاجاسکتاہے۔اس دَور میں مولانا عبدالرحمن محدث، مولانا عبدالسلام ، مولانا عبدالعلیم، مولانا احمد حسین، مولانا محمد شریف، مولانا ظفرحسن عینی، ملارحمت علی، مولانا ابومحمد عبدالحق، مولانا محمد احمد، مولانا الٰہی بخش، مولانا محمد شکراﷲ وغیرہ آسمانِ علم وفضل کے آفتاب وماہتاب تھے اور ان میں ہر ایک اپنی ذات سے انجمن تھا۔ ان کی تدریسی وتعلیمی خدمات نے ہزارہا علماء وفضلاء پیدا کیے اور ان کے تصنیفی کارنامے ہندوستان سے گزرکر عرب وعجم میں پھیلے۔ اسی دَور میں ہم نے آنکھ کھولی ہے اور ان بزرگوں میں سے اکثر حضرات کو دیکھا ہے اور ان کی علمی و دینی زندگی سے حصہ پایاہے۔
تیسرا دَور اُن حضرات کے تلامذہ ومتوسلین کا ہے، جو چل رہاہے اور آج یہاں جوعلمی و دینی روشنی نظر آرہی ہے، اُن ہی چراغوں کا فیض ہے۔(طبع سوم ،ص:۴۲)
اس کتاب میں قاضی صاحب نے ان علماء کا تذکرہ کیا ہے جو کتاب کی تالیف کے وقت وفات پاچکے تھے ۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1974ء میں شائع ہوا،اس کے بعد قاضی صاحب 22؍ سال زندہ رہے ، انھوں نے اس دوران وفات پانے والے 20؍ علماء کی تاریخ وفات بھی اپنی ڈائری میں درج کررکھی تھی ۔ ان کی اخیر حیات میں کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوچکا تھا،اگر اس وقت دوسرے ایڈیشن کی تحریک ہوئی ہوتی تو یقیناً وہ ان حضرات پر لکھتے ، لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ قاضی صاحب کے انتقال کے دس بارہ سال بعد ان کے صاحبزادے مولانا قاضی سلمان مبشر قاسمی مدنی کی کوششوں سے اس کا دوسرا ایڈیشن ان کے پیش لفظ ، تعارف مصنف اور کچھ دیگر اضافات کے ساتھ ۲۰۱۰ء میں مکتبہ الفہیم مئو سے شائع ہوا، اس میں ان ۲۰؍ علماء کی فہرست بھی شامل کردی گئی جو قاضی صاحب نے اپنی ڈائری میں بطور یادداشت لکھ رکھی تھی،یہ ۳۷۵؍ صفحات پر مشتمل تھااور انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
کتاب خریدیں
Tazkira Ulama e Mubarakpur, شجرہ مبارکہ یعنی تذکرہ علماء مبارکپور