Web Analytics Made Easy -
StatCounter

سیرت کی ایک قدیم کتاب

سیرت کی ایک قدیم کتاب

سیرت کی ایک قدیم کتاب

حال ہی میں سلیمان بن ترخان تیمی کی کتاب السیرہ شائع ہوئی ہے، یہ کتاب دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں تحریر کی گئی تھی اور اس کا ایک مخطوطہ میڈرڈ(اسپین ) کی کسی لائبریری میں موجود تھا ۔

ابو المعتمرسُلَیمان بن طَرخان تیمی(م143ھ/768ء) انس بن مالک کے شاگرد تھے۔46ھ میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد طرخان نے بنو مُرہ سے مکاتبت کرلی تھی یوں یہ بنو ضبیعہ کی شاخ عمرو بن مُرہ بن عباد کے مولیٰ تھے ،انہیں بنی تیم کی جانب اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ ان کی رہائش گاہ اور مسجد انہی لوگوں کی بستی میں تھی۔ قاضی فضل بن عیسیٰ رقاشی کی دختر ان کے عقدمیں تھیں۔ نہایت عباد ت گزار تھے۔ سلیمان نے اپنے عہد کے نہایت معروف اساتذہ سے استفادہ کیا ۔اُن میں حضرت انس بن مالک، ابو عثمان النہدی، ابو مِجلَز، ابو نَضرہ، حسن بصری، ابن سیرین، ابو العالیہ اور ابو قلابہ وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح آپ سے روایت کرنے والوں میں بھی مشاہیر اہلِ علم شامل ہیں مثلاً شُعبہ۔ زُھیر ، قاسم بن معن، عیسیٰ ابن یونس، جریر ، یحییٰ القطان اور ابن عُلَیَّہ وغیرہ ۔
ان کی کتاب المغازی کا ذکر کئ تذکرہ نگاروں نے کیا جس کی روایت کی اجازت خطیب بغدادی نے حاصل کی اور دمشق میں اس کی روایت کی ۔طبری نے اپنی تاریخ میں اس کے دو بڑے اقتباسات لیے ہیں نیز امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب المغازی میں ابو المعتمر سلیمان بن طرخان کی چند روایتیں نقل کی ہیں۔

سلیمان بن طرخان کی کتاب المغازی سیرة رسول اللہﷺ کے نام سے ڈاکٹر رضوان الحصری کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ۔ رضوان الحصری کو اس کتاب کا مخطوطہ میڈرڈ اسپین کے ایک کتب خانے سے میسر ہوا۔یہ نسخہ دراصل ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی کے تلامذہ کے سلسلے میں پانچویں صدی کی ایک معروف شخصیت ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عیسیٰ بن منظور القیسی الاشبیلی (م469ھ)کی روایت سے ہے۔

سلیمان بن طرخان کی یہ کتاب سیرت حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل 1855ءمیں اس کتاب کا کچھ حصہ وان کریمر نے امام واقدی کی کتاب المغازی کا ایڈیشن مرتب کرتے ہوئے ،جو واقدی کاپہلا ایڈیشن تھا، اس کتاب کے آخر میں یہ کہہ کر شامل کرلیا تھا کہ یہ حصہ سلیمان کی کتاب سیرت کا معلوم ہوتاہے۔ اس کتاب کے فاضل محقق بھی اس کی تائید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ان کی یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے اس سے استفادہ بھی کیا ہے اور وان کریمر کے نسخے کی بعض غلطیوں پر بھی تنبیہ کی ہے۔ سلیمان سے لے کر اشبیلی تک کتاب کی سندیوں بنتی ہے:
سلیمان بن طرخان
المعتمر بن سلیمان
محمد بن عبدالعلی الصنعانی
صَنعانی سے پھر چار افراد نے روایت کی ہے:
الحسین الفارسی
ابراہیم الزبیبی
خالد القُریشی
یعقوب بن زھیر
ابراہیم سے پھر دو راویوں نے یہ متن نقل کیا ہے:
زاہر السرخسی ابن شاہین
زاہرسے راویِ کتاب ابن منظور الاشبیلی نے روایت کی ہے۔

کتاب کا آغاز بنائے کعبہ کی روایت سے ہوتاہے۔ اس کے بعد بعثت، شعبِ بنی ھاشم میں محصوری، اسلامِ عمرؓ، بیعت عقبہ اور ہجرت مدینہ کے عنوانات شامل ہیں۔ اس کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔ جن میں بدر،بنی نَضیر، خندق، بنی قُریظہ، بنی لِحیان، بئرَ معونہ، بنی مصطلق، حدیبیہ، خیبر، عُمرة القضائ، موتہ، فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک شامل ہیں۔ آخری فصل میں حجة الوداع اور وفات نبوی کا ذکر ہے جس پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب، اب تک کی معلومات کے مطابق، سیرت کی قدیم ترین مطبوعہ کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔
(راویوں کی معلومات “آثار سیرت ” سے ماخوذ ہے، ص 95 از سید عزیزالرحمن )

ابو المعتمر سلیمان بن طرخان تاریخ وسیرت نگاری کے مدرسۂ بصرہ کے مؤسسین میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل مصطفے اعظمی صاحب کی کوشش سے مغازی عروہ بن زبیر بھی منصہ شہود پر آچکی ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے ۔متاخرین کی کتابوں(خصوصا تاریخ طبری )سے اقتباسات جمع کر کے متقدمین کی کتب دریافت کرنے کا عمل مصر میں جاری ہے، امید ہے اس محنت شاقہ سے متقدمین سیرت نگاروں کی کتب کا کسی نا کسی حد تک حصول ممکن ہو جائے گا ۔البتہ سلیمان بن طرخان کی کتاب باقاعدہ مخطوطے کی شکل میں دریافت ہوئ اور مکمل صورت میں شائع ہوئی ہے ۔
نگار سجاد ظہیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *