سوفی کی دنیا فلسفے کی کتب میں ایک اہم مقام رکھنے والا ناول ہے. یہ دنیا کے چند بیسٹ سیلر ناولز میں سے ایک ہے اس کے مصنف جوسٹن گارڈنر فلسفے کے استاد ہیں اور ناول کا مقصد نوعمر طلبہ کو آسان انداز میں فلسفے کی تاریخ اور فلسفہ کیا ہے’ سمجھانا ہے
“سوفی کی دنیا” ناول سوفی امینڈسن نامی ایک ایسی لڑکی کی کہانی سے شروع ہوتی ہے جس کی کچھ ہی دن بعد پندرہویں سالگرہ ہے۔ وہ اپنے گھر میں اپنی ماں اور چند پالتو جانوروں کے ساتھ رہتی ہے جس میں سب سے اہم اس کی بلی شیریکان ہے۔ اس کے گھر میں ایک باغ ہے جسے اس نے باغ عدن کا نام دیا ہوا ہے۔ ایک دن اسکول سے واپسی پہ اسے ایک خط ملتا ہے جس پہ کوئی نام اور پتا نہیں تھا۔ خط میں صرف ایک سوال
“تم کون ہو” اور یہاں سے ایک بہت منفرد کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک اندیکھا فلسفے کا استاد اسے خطوط کے ذریعے فلسفہ سکھانا شروع کرتا ہے مگر بیچ میں اسے سالگرہ مبارک کے خطوط ملتے تھے جو کسی والد نے اپنی بیٹی کو بھیجنے تھے مگر اس پہ پتا ہمیشہ بتوسط صوفی امینڈسن لکھا ہوتا تھا۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے اس میں بہت چکرا دینے والے واقعات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ میں نے الجھ کے بیچ میں چھوڑ ہی دیا کہ فلسفے کی کتاب ہے اس میں یہ تذکرہ کہ سوفی کو جنگلوں میں لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ نظر آئی کتنا عجیب اور بے وقوفانہ ہے۔ اور پھر کئی مشہور افسانوی کرداروں سے سوفی کی ملاقات ہوتی ہے۔ کتاب کے نصف کے بعد ایک اور لڑکی کا کردار متعارف ہوتا ہے۔ تو پتا چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ لوگ خود پڑھیے گا کہ کیا پتا چلتا ہے-
یہ ناول خشک انداز میں فلسفہ بیان کرنے سے بہت مختلف ہے۔ کہانی کے ہر موڑ سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفیانہ سوچ کیا ہوتی ہے۔ اور آخر میں حقیقت اور فکشن ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں۔
ناول میں کئی بہت دلچسپ موڑ تھے جیسے ایک جگہ مصنف لکھتا ہے
“سوفی فلسفی اور عام لوگوں میں ایک فرق یہ ہے کہ فلسفی کبھی حیران ہونا نہیں چھوڑتا۔ ایک بچہ جو کہ تین یا چار سال کا ہے اس کی مثال لو اس کے لیے ہر چیز نئی ہے وہ ہر بات دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور تالیاں بجاتا ہے جب کہ اس کی ماں اور باپ کے لیے یہ کیونکہ وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر سیکھ چکے ہیں۔ اب سوچو ایک دن ماں کچن میں ناشتہ بنا رہی ہے ٹامس ٹیبل پہ بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے کہ باپ آکر اڑنے لگتا ہے ٹامس خوش ہوکر تالیاں بجاتا ہے واہ ڈیڈی اڑ رہے ہیں۔ اس کے لیے یہ بھی کئی نئے کرتبوں میں سے ایک کرتب ہے جیسا وہ روز دیکھتا ہے۔ مگر اب سوچو جب ماں مڑے گی تو اس کا کیا ردعمل ہوگا۔ ہوسکتا ہے شوہر کو اڑتا دیکھ کر اس کے ہاتھ سے جام کی شیشی گر کے ٹوٹ جائے۔”
یہ اور ایسی کئی پرلطف مثالوں سے پوری ناول لبریز ہے۔ یہ ناول صرف آپ کو ذہنی تسکین نہیں دیتی بلکہ آپ کے عمومی نظریات کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ مجھے بنیادی طور پہ ناول بہت زیادہ پسند آیا اور جو چیزیں ناول کے درمیان میں الجھا رہی تھیں ان کی وضاحت ناول کی بنت میں ہی آگے بہت عمدہ طریقے سے ہوگئی۔
میری تجویز ہوگی کہ جو بھی یہ ناول پڑھے وہ یا تو انگریزی ورژن پڑھے یا اردو میں شاہد حمید صاحب کا کیا ہوا ترجمہ پڑھے دوسرے ترجمے اتنے غیر معیاری ہیں کہ ناول کی ساری اثر انگیزی برباد ہوگئی۔ مترجم نے اپنی مرضی سے سینسر کی قینچیاں چلائی جس سے ناول کو سمجھنا ناممکن ہوگیا
ابصار فاطمہ