نام کتاب: سب سے آسان ترجمۂ قرآن مجید
مترجم: حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی صاحب
صفحات: 616
مبصر: زبیر احمد ثانی قاسمی
قرآن کریم کا ابلاغی پہلو جس قدر ٹھوس اور مضبوط تر ہے وہ اس کے لافانی شاہکار ہونے کا بین ثبوت ہے اور ایسی عظیم الشان کتاب کے لیے ابلاغ و ترسیل کا قوتِ تاثیر سے لبریز نظام اپنے آپ میں پوری دنیا کے سامنے اس دعوے کی دلیل ہے کہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے اور زمانہ نزول میں چیلنج بھی کیا گیا کہ تردد ہے تو پیش کرو ایسا کلام! اور یہ چیلنج قیامت تک کے لیے ساری مخلوق کو ہے۔ اس کی سلاست کی بات کیجیے تو شاید دنیا کی یہی وہ واحد کتاب ہے جسے بغیر سمجھے پڑھ کر بھی قاری اتنا ہی لطف اندوز ہوتا ہے جتنا سمجھ کر پڑھنے سے ہوتا ہے ؛ بلکہ بسا اوقات سمجھنے والے سے زیادہ نہ سمجھ کر پڑھنے والا لذت حاصل کرتا ہے۔
قرآن کریم کے وصف میں قرآن میں ہی اس کے صاف اور واضح زبان میں ہونے کی صفت وارد ہوئی ہے:﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ﴾[ سورة الشعراء: 195] وَهَـٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ﴿١٠٣ النحل﴾ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴿٩٧ مريم﴾ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٥٨ الدخان﴾ وَهَـٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ﴿١٠٣ النحل﴾ ان سب آیتوں میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو آسان ترین اور واضح عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ اور اس کا بنیادی مقصد یہ بتایا کہ اس کے مخاطب آسانی سے سمجھ کر اس کے احکامات پر عمل کریں۔
لیکن مسئلہ تھا غیر عربی داں بلکہ صرف اردو زبان کی ہلکی پھلکی شدبد رکھنے والے شخص کے لیے کہ وہ اس عربی زبان کی کتاب سے کیسے مستفید ہو؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اردو کے تراجم موجود نہیں ہیں موجود ہیں بلکہ کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن اس میں زبان کی پیچیدگی اور ثقل سیدھے سادے طبقے کے لیے بکھیڑے سے کم نہیں تھی اس لیے خاص طور پر ایسے طبقے کے لیے قرآن مجید کی ترجمانی کے لیے ایسے ترجمے کی ضرورت تھی جو زمانہ سے ہم آہنگ اذہان و قلوب کی تسکین کا سامان فراہم کر دے۔
ایسے میں ہم سب کی طرف سے شکریہ اور پذیرائی کے مستحق ہیں معروف محقق و ادیب درجنوں کتابوں کے مصنف، جید عالم دین حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی صاحب استاذ فقہ و تفسیر دارالعلوم دیوبند کہ انہوں نے ہم سب کی دیرینہ خواہش کی تکمیل فرما دی اور اسے آسان قالب میں ڈھال کر قرآن مجید کو مزید آسان کر دیا ہے۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔
خصوصیات:
۱: اس ترجمے کی ضرورت:
اس ترجمے کے مترجم ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی اس کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے مقدمے میں لکھتے ہیں:
اکابر کے قابل اعتماد تراجم پر ایک دو صدی گزر چکی ہے، ان میں عربی اور فارسی کے الفاظ بہت ہیں، محاورات میں آج کا قاری اجنبیت محسوس کرتا ہے، اگرچہ اس زمانے کی یہ فصیح زبان ہے، جب فارسی کا چلن تھا، عربی مفردات سے عوام واقف تھے؛ اب زبان بدل چکی ہے، مفردات نئے آ گئے ہیں، ترکیبیں نیا روپ دھار چکی ہیں، اس لیے ایسا ترجمہ کیا جائے جو تفسیر کے منہجی خطوط پر استوار ہو ساتھ ہی عربی فارسی کے مشکل الفاظ نہ ہوں، ترکیبیں آج کی ہوں، ایسے الفاظ بھی نہ ہوں جن سے ایک علاقہ مانوس اور دوسرا غیر مانوس ہو۔
۲: انیس تراجم کا نچوڑ:
اسی طرح اپنے ترجمے کی تیاری میں مدد لیے گئے تراجم کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ ترجمہ انیس (۱۹) قابلِ اعتماد اردو تراجم کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ترجمۂ شیخ الہند، حقانی، تھانوی، دریابادی، شیخ محمد جالندھری، احمد لاہوری، احمد سعید دہلوی، سرفراز خان صفدر، اکرم اعوان، عبد القیوم مہاجر مدنی، عاشق الٰہی بلند شہری، صوفی عبد الحمید سواتی، محمد تقی عثمانی، خالد سیف اللہ رحمانی، استاذ محترم مفتی سعید احمد پالن پوری جیسے مفسرین شامل ہیں پھر ان میں سے پانچ تراجم کو ام التراجم کی حیثیت سے زیادہ برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۳: تفسیر و لغت سے مستفاد ترجمہ:
پھر تراجم پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ تفسیر کی تقریباً تمام معتبر متداول کتب سے بھی اس ترجمے کی تیاری اور تسہیل میں مدد لی گئی جن میں: تفسیرِ جلالین، کبیر، ابن کثیر، ابن عاشور، قرطبی، طبری، بغوی، مدارک، سعدی اور زمخشری شامل ہیں، پھر عربی لغات سے بھی مدد لی گئی چنانچہ: لغات القرآن، المعانی (انٹرنیٹ) مصباح اللغات، القاموس الوحید، القاموس الوسیط جیسی عربی لغات سے استفادہ کیا گیا پھر لسانی تطبیق کے لیے اردو لغات: فیروز اللغات، جامع اللغات، فرہنگ آصفیہ وغیرہ سے مراجعت کی گئی۔
۴: علماء حق کے تراجم کا آسان ترین انتخاب:
اس ترجمے کو اتنا آسان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جسے اردو اخبار پڑھنے والا بھی پڑھ لے، عربی اور فارسی مفردات سے بھی مکمل بچنے کی کوشش کی گئی ہے، متروک اور اجنبی الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں، کافی آسان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اب یہ ترجمہ علماء حق کا آسان ترین انتخاب ہو گیا۔
۵: قوسین میں وضاحتی اضافے:
جہاں مفہوم سمجھنے میں کسی لفظ یا جملے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں ایسا لفظ اور مختصر سا جملہ لایا گیا جو آیت کے سیاق و سباق اور مدعا کی وضاحت کر دیتا ہے اور پڑھنے والا ذہنی الجھنوں سے بچتے ہوئے مرادِ الٰہی سمجھ لیتا ہے۔ جیسے: کلا سیعلمون: کا ترجمہ کرتے ہیں: (ایسا) ہرگزنہیں! (ہونا چاہیے) بریکٹ میں دیکھیں کس طرح جملہ بندی ہو گئی کہ اصل معنی بالکل منحرف نہیں ہو رہا ہے اور قوسین کے اضافے نے تفسیر کر دی۔ اسی طرح: عم یتساءلون کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: کس چیز کے بارے میں (مکہ والے) ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں؟ قوسین نے بتا دیا کہ یہ واقعہ مکہ والوں کا ہے اور یہ سورت مکی ہے۔
۶: اہلِ علم سے بحث و تمحیص:
اس ترجمے کی تیاری میں اہم اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں متعدد کبار علماء و مفسرین سے بھی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں سب سے بڑا نام عظیم محدث حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللّٰہ سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند۔ پھر ماہر استاذ حدیث اور تفسیر میں ید طولی رکھنے والے حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری مدظلہ العالی محدث دارالعلوم دیوبند اسی طرح بلند پایہ عربی ادیب اور مفسر حضرت مولانا محمد عارف جمیل صاحب مدظلہ العالی استاذ عربی زبان و ادب دارالعلوم دیوبند جیسے اساطین علم شامل ہیں۔ اس سے ترجمے کی استنادی حیثیت میں مزید چار چاند لگ گئے۔
۷: حافظی قرآن کا التزام:
ترجمہ کو حافظی قرآن (جو نسخہ طلبہ حفظ کرتے وقت ساتھ رکھتے ہیں اور حفظ کرتے ہیں) کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے، تاکہ آیات تلاشنا آسان رہے، اس لیے کہ حافظ کو آیات قرآنی تلاش کرنے میں پریشانی ہوتی ہے، دوسرا مقصد یہ ہے کہ باشعور افراد جو قرآن مجید حفظ کرتے ہوئے مراد الٰہی کو سمجھنا چاہتے ہیں انھیں ترجمہ سے مدد ملے، گویا حفظ کے طلبہ کے لیے نادر تحفہ ہے، وہ اس کی مدد سے آہستہ آہستہ قرآن مجید سمجھنے لگیں گے۔
۸: مزید خصوصیات:
اس میں ممکن حد تک ہر لفظ کے متبادل مفردات لانے کا التزام کیا گیا ہے، حاشیہ پر مختصر تفسیر، لغات اور نحوی صرفی تحقیق لکھنے کا بھی ارادہ ہے۔
۹: رموز و اوقاف کا اہتمام، ترجمہ کے اندر آیت نمبر کا التزام، خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائٹل اور معیاری طباعت، /616 صفحات کا ضخیم مجموعہ محض 350/ روپے میں۔
اس ترجمے کو علمی حلقوں کی جانب سے خوب سراہا گیا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے، اس ترجمے کا محرک لوگوں کی طرف سے شوق و ذوق بلکہ اجبار کی حد تک اصرار بھی رہا ہے ؛ لہذٰا اب جب کہ ان کی تسکین کا سامان آ چکا ہے تو وہ اپنے ذوق کی تسکین کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ بھی اس کو اپنی قرآن فہمی میں بروئے کار لائیں ؛ کیوں کہ اس کے اندر وہ تمام چیزیں مل جائیں گی جو آپ کو کم سے کم وقت میں چاہئیں۔