نام کتاب: رجال السند والہند الی القرن السابع
مصنف: مولانا قاضی اطہر مبارکپوری
مولاناقاضی اطہر مبارکپوری کو جس چیز نے علم وتحقیق کی دنیا میں شہرت وعروج اور بقائے دوام عطاکیا وہ ان کا خاص موضوع ’’عرب وہند وسندھ کے تعلقات‘‘ ہے ، اس موضوع پر سب سے پہلے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے قلم اٹھایا، ان کی کتاب ’’عرب وہند کے تعلقات ‘‘ اپنی خوبیوں اور معنویت کے اعتبار سے اس موضوع پر سب سے پہلی اور جامع کتاب ہے، لیکن وہ بہت مختصر ہے اس سے عام روابط وتعلقات کا علم ہوتا ہے۔ قاضی صاحب نے اسے مستقل موضوع بنا کر اسے مختلف ادوار میں تقسیم کرکے نہایت تفصیل وتحقیق سے اس پر بحث کی ، اسے عہد رسالت ، خلافت راشدہ، بنوامیہ اور بنو عباس، الگ الگ ادوار میں تقسیم کرکے اس موضوع کا حق ادا کردیا ، اوراس تاریخی خلاء کو پُر کردیا جوابتدائی کئی صدیوں پر محیط تھا، اسی کے ساتھ تلاش وتحقیق کا وہ معیار قائم کیا کہ ان کی یہ کتابیں تاریخ وسیرت کی درجۂ اول کی کتابیں تسلیم کی گئیں ۔
اس موضوع پر قاضی صاحب نے آٹھ نہایت محققانہ کتابیں تیار کردیں،جس میں پہلی کتاب رجال السند والہند ہے ، بقیہ کتابیں یہ ہیں: (۲)عرب وہند عہد رسالت میں (۳)ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں (۴) العقد الثمین فی فتوح الھند ومن ورد فیھا من الصحابۃ والتابعین (۵)اسلامی ہند کی عظمت رفتہ (۶) خلافت راشدہ اور ہندوستان (۷)خلافتِ امویہ اور ہندوستان (۸)خلافت عباسیہ اور ہندوستان ۔
رجال السند والہندعربی زبان میں ہے ۔اس میں ان اعلام واشخاص کا تذکرہ ہے جن کا تعلق پہلی صدی ہجری سے ساتویں صدی ہجری تک ہے۔ اس کی تالیف کی ابتداء جمادی الاخریٰ ۱۳۶۸ھ میں ہوئی ، اور اس کا پہلا ایڈیشن ذی الحجہ ۱۳۷۷ھ ( ۱۹۵۸ء ) میں شائع ہوا، آغاز سے اشاعت تک تقریباً دس سال لگے۔ قاضی صاحب اس کے مقدمہ میں مقصد تالیف کے متعلق لکھتے ہیں
’’مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ؒ پر خدا کی رحمت ہو کہ سب سے پہلے انھوں نے اس خلاء کو محسوس کیا اور اسے پُر کرنے کی کوشش کی اور ہندوستان کے علماء ومشائخ کے تراجم جس طرح ہوسکے متقدمین کے طرز پر جمع کردئیے، چنانچہ عربی میں ’’سُبْحَۃُ الْمَرْجَان فی آثار الہندوستان‘‘اور فارسی میں ’’مآثرالکرام ‘‘ تالیف کی ، فارسی ہی میں رحمٰن علی ناروی نے ’’تذکرۂ علماء ہند ‘‘ لکھی اور آخر میں سید عبد الحی حسنیؒ (م:۱۳۴۱ھ )نے اپنی کتاب ’’نزھۃ الخواطر ‘‘ تصنیف فرمائی جو (غیر منقسم) ہندوستان کی اہم شخصیتوں کے تراجم میں سب سے بڑی اور مستند کتاب ہے اور اس جیسی کتاب اب تک وجود میں نہیں آئی تھی ، مگر چونکہ اعیان سندھ وہند کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے اس لئے میں نے صرف ساتویں صدی تک کے سندھ وہند کے رجال کے حالات مزید وسعت کے ساتھ جمع کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ ساتویں صدی تک کے سندھ وہند کے رجال پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے ، ’’نزھۃ الخواطر ‘‘ کی پہلی جلد جو پہلی صدی سے ساتویں صدی تک کے رجال پر مشتمل ہے، انتہائی مختصر ہے۔ اس میں اکثر تراجم ان لوگوں کے ہیں جو غیر ممالک سے آکر ہندوستان میں آبسے تھے، ہاں ساتویں صدی کے بعد کے تراجم کی تعداد واقعۃً بہت ہے ، اس لئے میں نے خاص ساتویں صدی تک کے رجال پر محنت مرکوز کردی اور سالہاسال تراجم اور تاریخ وطبقات کی کتابوں کی ورق گردانی کا نچوڑ ’’رجال السند والہند ‘‘ کی شکل میں پیش ہے ، ان رجال میں علماء ،فقہاء ، محدثین ، راویان حدیث ، مشائخ صوفیہ ، قاضی ، حکام ، سربرآوردہ لوگ، شعراء ، ادباء ،نحو ولغت کے ماہرین،اطباء ،فلاسفہ ،متکلمین ، تاجر پیشہ اور اہل اسلام کے مختلف فرقے اور نظریوں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہیں‘‘۔ (ص: ۱۲،۱۳۔طبع دوم دارالانصار قاہرہ ، بحوالہ ماہنامہ ضیاء الاسلام ،ص:۳۴۴)
مقدمہ میں قاضی صاحب نے سندھ وہند کے بعض مشہور وتاریخی مقامات اور شہروں کا تعارف کرایا ہے ، جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ پھر حروف تہجی کے اعتبار سے شخصیات کا ذکر کیا ہے ، انھوں نے شخصیات کے ضمن میں اس بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہی جائے بلکہ اس سلسلہ میں جو کچھ مستند مورخین اور تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے اسی کو ایک خاص ترتیب سے جمع کردیا جائے ، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ صرف جمع وترتیب ہی تک محدود ہے بلکہ حسب ضرورت اپنے مطالعہ ومعلومات کی روشنی میں قاضی صاحب کے جا بجا تبصرے وتجزئے بھی ہیں جو ان کی تاریخی معلومات اور مورخانہ ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔ اخیر میں باب الآباء اور باب الابناء کے عنوان سے ان حضرات کا تذکرہ ہے جو اپنے باپ اور بیٹوں کی طرف نسبت سے مشہور ہیں۔ کتاب کا اختتام باب المجاھیل پر ہوتا ہے، یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے نام کی صراحت،اوروہ سندھ وہند کے کس علاقہ سے تعلق رکھتے تھے، کچھ معلوم نہ ہوسکا۔مولانا عبد اﷲ صاحب معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں
ص: ۱۱ سے ص: ۴۶ تک مصنف کا مبسوط مقدمہ ہے ، جس میں موضوع کی سنگلاخی ، مواد کی ندرت وکمیابی کا ذکر کرتے ہوئے ان کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو خاص سندھ وہند پر پیش رَو مصنفین نے لکھی ہیں ، اس ضمن میں ان کتابوں کی حیثیت وافادیت کے ساتھ نقص وخلل کے پہلوؤں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ، ’’رجال السند والہند ‘‘ کی وجہ تالیف کے ساتھ ساتھ مؤلف نے اپنے منہج اور انداز تحقیق کو تفصیل سے پیش کیا ہے ، اس کے بعد سندھ وہند کا عالم اسلام میں علمی ، ادبی اور ثقافی اعتبار سے کیا مقام ومرتبہ ہے ، اس پر روشنی ڈالی گئی ہے ، پھر ان دونوں ملکوں کے وہ مشہور شہر جن کا ذکر کتاب میں اکثر وبیشتر آیا ہے ان سب کا تعارف یکجا طور پر کرادیا گیا ہے اور ان کے ناموں کی ترتیب حروف ہجاء پر رکھی گئی ہے تاکہ دوران مطالعہ کسی شہر کی جغرافیائی و تمدنی حالت معلوم کرنے کی ضرورت پڑے تو پلٹ کر بآسانی معلوم کی جاسکے ، تراجم وسوانح کا حصہ جو کتاب کا اصل عنصر ہے ص: ۴۷ سے شروع ہوکر ۳۱۹ پر ختم ہوجاتا ہے ، اس میں ۳۱۶ ؍ مردوں ، عورتوں کے تذکرے ہیں ، اس کے بعد فہرست رجال ص: ۳۲۵ تک اور آخر میں مصادر ومآخذ کی طویل فہرست ص: ۳۲۸ تک درج ہے۔ ( ماہنامہ ضیاء الاسلام ،ص:۳۴۵)
یہ تعارف اور معلومات کتاب کے پہلے ایڈیشن کے بارے میں ہے۔ جب کتاب چھپ کر اہل علم کے ہاتھوں میں پہنچی تو ملک کے معروف رسائل معارف ، برہان اور صدق وغیرہ نے اس پر بہترین تبصرے لکھے ، حضرات اہل علم نے نجی مکاتبت میں اس علمی خدمت پر داد تحسین پیش کی ۔ اسے خوب سے خوب تر بنانے میں قاضی صاحب نے اپنے امکان بھرکوئی کمی نہیں چھوڑی تھی،لیکن کوئی انسانی کاوش کبھی بھی نقص سے خالی نہیں رہ سکتی،اور یہ تو قاضی صاحب کا پہلا کام تھا ۔اہل علم نے اس پر علمی تنقیدات کیں ، استدراکات لکھے ، مشورے دیئے ،خصوصاً مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی مدرس تاریخ مدرسہ عالیہ کلکتہ نے ماہنامہ برہان دہلی میں تین قسطوں میں ۴۰؍ صفحات پر مشتمل بڑا تحقیقی مضمون لکھا ،جس میں انھوں نے خوبیوں کی تحسین کی اور بہت سے مقامات پر مصنف سے اختلاف کرتے ہوئے خالص علمی تنقیدیں کیں ، بہت مشورے بھی دیئے ، قاضی صاحب نے اس مضمون کا استقبال کیا اور ان کی بہت سی باتوں کو قبول کرلیا اور بہت سی باتوں کو رد کیا اور اس کا جواب دیا۔ لیکن اس کے بعد وہ مسلسل اس موضوع پر مطالعہ کرتے رہے ،عام مصنفین کا حال یہ ہوتا ہے کہ کسی موضوع کی تکمیل کے بعد ان کی طبیعت اس سے ہٹ جاتی ہے ، لیکن قاضی صاحب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی موضوع پر کام کرنے کے بعد اس سے اکتاتے نہیں تھے بلکہ وہ برابراس پر اپنا مطالعہ جاری رکھتے تھے ، چنانچہ اس موضوع پر بھی ان کا مطالعہ مسلسل جاری رہا ، انھوں نے ۱۹۷۸ء میں عرب ممالک اور مصر کا سفر کیا ، اس کی روداد میں اس کتاب کے طبع ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں
’’اس سلسلہ میں یہ بات اہل علم کیلئے دلچسپی کا باعث ہے کہ میری کتاب ’’رجال السندوالہند ‘‘ بیس سال پہلے شائع ہوئی تھی اور اب بالکل نایاب ہوچکی ہے ، اور عرب ممالک میں خاص طور سے اس کی تلاش رہتی ہے ، نیز درمیان میں راقم نے بہت سے نئے تراجم کا اضافہ بھی کیا ہے اور کتاب کو نئے سرے سے مرتب کر کے اس کی ’’القسم الثانی ‘‘ بھی تیار کرلی ہے ، اس طرح یہ کتاب مزید اہمیت کی حامل ہوگئی ہے ، اس سفر میں اس کا مسودہ ساتھ رکھ لیا تھا تاکہ کسی عرب ملک میں اس کی اشاعت کا انتظام ہوجائے ، چنانچہ قاہرہ کے ایک ادارہ سے اس کی طباعت واشاعت کی بات چیت مکمل ہوچکی ہے اور إنشاء اﷲ یہ کتاب مزید تحقیق وتنقیح اور اضافہ کے ساتھ قاہرہ سے جلد ہی شائع ہوجائے گی ‘‘ (ترجمان الاسلام قاضی اطہر نمبر ص:۱۶۱)
پھر یہ کتاب طبع اول کے ۲۰؍ سال بعد جب۱۹۷۸ء میں دارالانصار قاہرہ سے شائع ہوئی تواس کے مقدمہ میں قاضی صاحب نے لکھا کہ میں نے اس میں اس قدر تہذیب وتنقیح اور حذف واضافہ کیا ہے کہ گویا یہ ایک نئی کتاب بن گئی ہے ، اور میں نے اس کو(طبع اول ) کتاب کی قسم اول قرار دیا ہے ، اور اس دوران میں نے مستقل ایک کتاب مرتب کردی جس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو باہر سے سندھ آئے اور یہیں رہ گئے، اس کو میں نے کتاب کی قسم ثانی قرار دیا ۔ اس قسم ثانی کے متعلق مولانا عبد اﷲ معروفی لکھتے ہیں
جیسا کہ معلوم ہوا کہ دوسری طباعت میں ایک گرانقدر اضافہ ’’القسم الثانی ‘‘ کا ہے ، جو ایک مستقل تصنیف ہے ، قسم اول میں صرف ان رجال کو شامل کیا گیا تھا جو سندھ وہند کے کسی حصہ میں پیدا ہوئے اور ان کی زندگی یہیں گذری چاہے کسی وجہ سے ان کی وفات باہر کسی ملک میں ہوئی ، یا ان رجال کو جن کی اصلیت سند وہند سے ثابت ہو گو ان کی پیدائش وبودو باش کسی اور ملک کی ہو ، تیسری قسم ان رجال کی ہے جن کی اصلیت وپیدائش تو کسی اور ملک کی ہے لیکن سیاسی ، اقتصادی یا تبلیغی اغراض سے آکر سند وہند کے کسی علاقہ میں آبسے ، یا اپنی مہم پوری کرکے واپس چلے گئے ، ان لوگوں کو بالقصد پہلی جلد میں شامل نہیں کیا گیاتھا ، ہاں غلطی سے کو ئی دَر آیا ہوتو طبع دوم میں اسے قسم اول سے نکال کر قسم ثانی میں شامل کرلیا گیا ہے۔
( ماہنامہ ضیاء الاسلام شیخوپور ،ص:۳۵۹)