مصنف: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
انسان کے اخلاق کا سب سے بڑا مظہر اس کی زبان اور اس کے بول ہوتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ اکے بارے میں صحابہ کہتے ہیں :
ماکان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاحشاً ولا متفحشا ولا صخابا فی الأسواق ۔ ( ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی خلق النبی ا: ۲۰۱۶)
رسول اللہ ا عادتاً نہ سخت گو تھے ، نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے ، نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے ۔
اور پیغمبر کی شان تو بہت بالا ہے ، کسی مؤمن کو بھی بدگو اور بد زبان نہیں ہونا چاہئے ؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا :
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی ۔ (ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی اللغۃ ، حدیث نمبر : ۱۹۷۷)
مومن نہ طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت بھیجنے والا ، نہ سخت گو ، نہ فحش کلام ۔
خود مرزا صاحب کے قلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ نکلوادے : ’’ گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے ‘‘ ۔ (ست بچن : ۲۰)
مرزا صاحب نے بد زبانی کی مذمت کرتے ہوئے اپنی کتاب (در ثمین اُردو : ۱۷) جو اشعار کہے ہیں، وہ بھی قابل ملاحظہ ہیں:
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے
جس دل میں یہ نجاست ، بیت الخلاء یہی ہے
گو ہیں بہت درندے انساں کی پوستین میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے !
غور کریں تو مرزا صاحب کے اشعار خود ان کی بد کلامی کی بہترین مثال ہیں اور اہل ذوق کو تو خود ان الفاظ سے بدبو کا احساس ہوتا ہے ، اب خود مرزا صاحب کی خوش کلامی کی چند مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :
* آریوں کا پرمشیر ( پرمیشور یعنی خالق ) ناف سے دس انگلی نیچے ہے ، سمجھنے والے سمجھ لیں ۔ ( چشمہ معرفت : ۱۱۶)
* جو شخص ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ بہنیں ، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے ۔ ( انور السلام : ۳۰)
* ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے ، مگر زنا کار کنجریوں کی اولاد ۔ ( آئینہ کمالات : ۵۴۷)
* اے بدذات فرقۂ مولویان ! کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑوگے ۔ ( انجام آتھم حاشیہ : ۲۱)
* مولانا سعد اللہ لدھیانوی کا اشعار میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈھیر ساری گالیاں دی ہیں یہاں تک کہ ان کو ’’ نطفۃ السفہاء ‘‘ (احمقوں کا نطفہ) اور ’’ ابن بغا ‘‘ ( زانیہ کی اولاد ) تک کہا ہے ۔ ( انجام آتھم : ۲۸۱)
ایک موقع پر اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
* دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہے ۔ ( نجم الہدیٰ : ۱۵)
ایک جگہ مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں :
* جہاں سے نکلے تھے ، وہیں داخل ہوجاتے ۔ ( حیات احمد :۱؍ ۳ ، ص : ۲۵)
علماء و مشائخ کے بارے میں کہتے ہیں :
* سجادہ نشیں اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ یہ سب شیاطین الانس ہیں ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۴ تا ۲۳)
* ایک موقع پر علما سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اے مردار خور مولویو اور گندی روحو ! تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لئے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا ، اے اندھیرے کے کیڑو ! تم سچائی کی تیز شعاعوں کو کیوں کر چھپا سکتے ہو ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۲۱ )
اپنے زمانے کے اکابر علماء مولانا شاہ نذیر حسین محدث دہلوی ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری وغیرہ کو بھیڑیا ، کتا ، ملعون ، شیطان ، اندھا شیطان ، شقی وغیرہ کے الفاظ کہے ہیں ، ( دیکھئے : انجام آتھم : ۲۵۱۔۲۵۲) مشہور صاحب نسبت بزرگ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ہجو میں ایک پوری نظم کہی ہے اور ان کو خبیث ، بچھو ، ملعون وغیرہ لکھا ہے ، ( اعجاز احمدی : ۷۵ ) مولانا ثناء اللہ امرتسری کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’ اے عورتوں کی عار ثناء اللہ ‘‘ ( اعجاز احمدی : ۹۲)عار سے مراد ہے قابل شرم جگہ۔
* آریوں پر رد کرتے ہوئے ایک طویل نظم کہی ہے ، اس کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے :
دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاک دامن ابھی بیچاری ہے
لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے
* مرزا صاحب کثرت سے اپنے مخالفین کو ’’ ذریۃ البغایا‘‘ یعنی ’ زانیہ کی اولاد ‘ سے خطاب کرتے ہیں اور ان کو لعنت کرنے کا بھی بڑا ذوق ہے ، مولانا ثناء اللہ صاحب پر لعنت کرتے ہوئے کہتے ہیں : مولوی صاحب پر لعنت لعنت دس بار لعنت ، ( اعجاز احمدی : ۴۵)اور اپنے رسالہ نور الحق میں صفحہ : ۱۱۸سے۱۲۲ تک عیسائیوں کے لئے مسلسل ایک ہزار بار لعنت لعنت لکھی ہے ۔ ( روحانی خزائن : ۸؍۱۵۸)
قادیانی حضرات خود غور کریں کہ یہ زبان نبی تو کجا کسی مسلمان ؛ بلکہ کسی اچھے انسان کی بھی ہوسکتی ہے ، کیا اس کے بعد بھی مرزا صاحب کے دعوئ نبوت کے جھوٹے ہونے پر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ؟
نبی کے لئے جو وصف سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، وہ ہے اس کا سچا ہونا ؛ تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ واقعی اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے اور وہ اس کو بے کم و کاست اپنی اُمت تک پہنچا دیتا ہے ، عجیب بات ہے کہ مرزا صاحب کے کلام میں بہت سی ایسی خلاف واقعہ باتیں ملتی ہیں ، جن سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے ، مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے ، ( حقیقۃ الوحی : ۲۰۶) ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ( چشمۂ معرفت : ۲۲۲)
مرزا صاحب سے جو جھوٹی باتیں منقول ہیں ، ان میں بعض تو ان کے زمانے سے متعلق تھیں اور اس زمانے میں قادیانی حضرات اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ؛ لیکن بعض غلط بیانیاں وہ ہیں ، جن کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ، اس کے چند نمونے درج کئے جاتے ہیں :
* مرزا صاحب کہتے ہیں :
دیکھو ، خدا تعالیٰ قرآن مجید میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے ، اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا ۔ (روحانی خزائن : ۱۸؍۴۰۹)
حالاں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ بات نہیں آئی کہ میں مفتری کو جلد پکڑلیتا ہوں اور مہلت نہیں دیتا ہوں ؛ بلکہ خود قرآن مجید میں ہے کہ دنیا میں ان کو مہلت دی جاتی ہے :
إن الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون متاع فی الدنیا ۔ ( سورۂ یونس :۶۸۔۶۹)
* آنحضرت ا سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی ۔ ( روحانی خزائن : ۳؍۲۲۷)
مرزا صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ، حدیث میں کہیں ایسا کوئی مضمون نہیں آیا ہے ۔
* بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس ( مسیح موعود خلیفہ ) کے لئے آواز آئے گی : ’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘ (روحانی خزائن : ۶؍۷۳۳) حالاں کہ بخاری شریف میں کہیں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔
* آنحضرت انے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہوتو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ، ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے ۔ ( اشتہار اخبار الحکم : ۲۴ ؍ اگست ۷ء)
حالاں کہ کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ وباء پھوٹنے والے شہر کو نہ چھوڑنے والے اللہ سے لڑائی کرنے والے قرار پائیں گے :
احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا ۔ ( ضمیمہ نصرۃ الحق : ۱۸۸، طبع اول )
یہ بات بھی بالکل خلاف واقعہ ہے ، احادیث صحیحہ تو کیا کسی ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے ۔
یہ تو چند مثالیں ہیں ، جن میں غلط بیانی کو آج بھی پرکھا جاسکتا ہے ، ورنہ مرزا صاحب کی دروغ گوئی کی ایک لمبی فہرست ہے اور لکھنے والوں نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ، اس سلسلہ میں مولانا نور محمد ٹانڈوی کی کتاب ’’ کذبات مرزا ‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، کیا کسی نبی سے اس طرح جھوٹ بولنے کی اُمید کی جاسکتی ہے ، جو شخص اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے ، یقیناًوہ جھوٹا دعویٰ بھی کرسکتا ہے ۔
فارسی زبان کا مشہور محاورہ ہے ’’ دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ یعنی جھوٹ بولنے والے کو اپنی بات یاد نہیں رہتی ؛ اسی لئے اس کی گفتگو میں تضاد ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تضاد اور ٹکراؤ ہو ، یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کے لحاظ سے رفتہ رفتہ احکام دیئے جائیں ، جیسے قرآن مجید میں پہلے کہا گیا کہ شراب کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے : ’’ إثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا‘‘ ( البقرۃ : ۲۱۹)پھر دوسرے مرحلے پر یہ بات کہی گئی کہ شراب پی کر نماز نہ پڑھی جائے : ’’ لَا تَقْرَبُوا الصَّلاَۃَ وَأنْتُمْ سُکَاریٰ‘‘ ( النساء : ۴۳)اور تیسرے مرحلے میں شراب مکمل طورپر حرام قرار دے دی گئی ، ( المائدۃ : ۹۰) لیکن اس کا تعلق عملی احکام سے ہے ، واقعات اور خبروں میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک خبر دی جائے اور پھر اس سے متضاد خبر دی جائے ، اسی طرح عقائد و ایمانیات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؛ کیوں کہ یہ باتیں بھی غیبی واقعات کی خبر ہی پر مبنی ہوتی ہیں ، اگر ایسی باتوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جائے تو یہ اس شخص کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے ، خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے بھی متعدد مواقع پر اس کی صراحت منقول ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’’ اور جھوٹے کے کلام میں تناقص ضرور ہوتا ہے ‘‘ ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۱۱۱)
ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
مگر صاف ظاہر ہے کہ سچے اور عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہر گز تناقض نہیں ہوتا ، ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طورپر ہاں میں ہاں ملادیتا ہو ، اس کا کلام متناقض ہوجاتا ہے ۔ ( ست بچن : ۳۰)
اب اس معیار پر مرزا صاحب کے دعاوی کو پرکھنا چاہئے ۔
* مرزا صاحب ایک طرف اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں :
یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں ۔ ( تحفہ گولڑویہ : ۱۶۶۔۱۹۱)
مہدی معہود سے مراد ہے : وہ مہدی جس کا حدیث میں وعدہ کیا گیا ہے ، حدیث میں جس مہدی کا ذکر کیا گیا ہے ، اس میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ وہ حضرت فاطمہ کی نسل سے ہوں گے ، دوسری طرف مرزا صاحب کہتے ہیں :
میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمہ ومن عترتی وغیرہ ہے ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۵؍۱۸۵)
ظاہر ہے کہ یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، ایک طرف مرزا صاحب اپنے آپ کو وہ مہدی قرار دیتے ہیں ، جس کی حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے ، دوسری طرف اس کا انکار کرتے ہیں ۔
* ایک طرف مرزا صاحب مسیح موعود ہونے کا انکار کرتے ہیں ، جن کا حدیث میں ’ مسیح بن مریم ‘ کے نام سے ذکر فرمایاگیا ہے ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
اس عاجز ( مرزا ) نے جو مثیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں ۔۔۔ میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۷۷، نیز دیکھئے : تبلیغ رسالت : ۲؍۲۱ ، نشانِ آسمانی : ۳۴)
دوسری طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ میں وہی مسیح موعود ہوں ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
اب جو امر کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۱۷، نیز دیکھئے : اتمام الحجۃ : ۳)
* ایک طرف دعویٰ نبوت کا انکار کرتے ہیں ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر ۔ ( اشتہار مؤرخہ : ۲؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء)
دوسری طرف ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں :
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ۔ ( اخبار بدر : ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء)
* کبھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح جو قیامت کے قریب تشریف لائیں گے ، وہ نبی نہیں ہوں گے :
وہ ابن مریم جو آنے والا ہے ، کوئی نبی نہیں ہوگا ؛ بلکہ فقط اُمتی لوگوں میں ایک شخص ہوگا ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱۲۰، نیز دیکھئے : اتمام الحجۃ :۱۷)
کبھی کہتے ہیں :
جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے ، اس کا ان میں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا کہ وہ نبی بھی ہوگا ۔ ( حقیقۃ الوحی : ۲۹)
* مرزا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھالیا گیا ہے اور پھر کسی زمانے میں وہ زمین پر اُتریں گے اور لوگ ان کو آسمان سے اُترتے ہوئے دیکھیں گے ، ( توضیح المرام : ۳) یہ اقتباس چوں کہ طویل ہے اس لئے اس کو چھوڑتے ہوئے میں اس کا ایک مختصر فقرہ نقل کیا جاتا ہے ، کہتے ہیں :
حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا پر اُتریں گے ۔ ( براہین احمدیہ ، حاشیہ : ۵۰۵)
دوسری طرف مرزا صاحب کا بیان ہے :
غرض یہ بات کہ مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور اسی جسم کے ساتھ اُترے گا ، نہایت لغو اور بے اصل بات ہے ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۱۲۵)
مرزا صاحب کے کلام میں تضاد اور تناقض کی کثرت ہے ، مولانا نور محمد صاحب ٹانڈوی نے ’’ تناقضات مرزا ‘‘ کے عنوان سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے اور ہر بات حوالہ کے ساتھ لکھی ہے ، اس میں سے بطور نمونہ ان پانچ تضادات کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ تمام باتیں قادیانی حضرات کے بنیادی عقائد کا حصہ ہیں ۔۔۔ قادیانی حضرات غور کریں کہ جس شخص کی بنیادی دعوت اور اساسی افکار میں اس قدر تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ہو ، وہ نبی تو بہت آگے کی بات ہے ، کیا سچا انسان بھی کہلانے کے لائق ہے ؟