روئے زمین پر بہت سعادت مند ہیں وہ لوگ جن کے حصے میں اللہ تعالی کے دین کی تبلیغ اور اس کی اشاعت حصے میں آئی ہے. دین کی فہم، علماً اور عملاً اس کی اشاعت اللہ تعالی کی طرف سے انتخاب کی علامت ہے. حدیث پاک میں وارد ہے “من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين” یعنی اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے.
زیرِ تبصرہ کتاب موسوم بہ “خطباتِ حجاز” حضرت مولانا جنید احمد سیوانی قاسمی صاحب دامت برکاتہم سابق استاذ دار العلوم دیوبند کے ذریعے سرزمینِ حجاز کے مشہور شہر جدہ کی ایک اہم مسجد میں دیئے گئے خطبات اور تقاریرِ جمعہ کا مجموعہ ہے. یہ خطبات اصلا عربی زبان میں دیئے گئے تھے جن کا ترجمہ حضرت مولانا نے خود اردو میں کیا تاکہ نفع کا دائرہ اردو داں حلقوں تک وسیع ہوجائے. سعودی عرب میں حضرت مولانا کے خطبات کا یہ سلسلہ تقریباً چوتھائی صدی کے طویل عرصے پر محیط ہے. خطبات کی پہلی جلد شائع ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہے اور اب بہت جلد اس کی دوسری اور تیسری جلدیں بھی منصہِ شہود پر آگئیں، فلله الحمد والشكر. پہلی جلد کی طرح دوسری وتیسری جلدیں بھی اصلاحی دینی وعلمی خزانوں سے بھر پور ہیں.
حضرت مولانا چوتھائی صدی قبل دار العلوم دیوبند میں عربی درجات کے بہت مقبول استاذ رہ چکے ہیں. ان کی طالب علمی بھی میرے لئے قابلِ رشک تھی اور دار العلوم میں وہ طالب علمی اور مدرسی دونوں کے زمانوں میں اساتذہ کے منظورِ نظر رہے ہیں جس کی وجہ ان کی صلاحیت وصالحیت رہی ہے. دعوت وتبلیغ میں شروع سے موصوف محترم کو گہری دلچسپی رہی ہے. علم وعمل، سنجیدگی ومتانت، فکرمندی اور دین کے لئے ان کی تڑپ اور دینی خیر خواہی جیسے اہم عناصر ان کی شخصیت میں بہت نمایاں ہیں. حضرت مولانا کو عربی زبان وادب سے بھی خصوصی دلچسپی رہی ہے اور الحمد للہ اس پر ان کو غیر معمولی دسترس حاصل ہے. مولانا کی عربی اور اردو گفتگو بہت شستہ، معیاری، واضح اور نکھری ہوئی ہوتی ہے. عالمِ عرب میں طویل عرصے سے جاری ان کی امامت وخطابت نے اس کو مزید دوآتشہ کردیا ہے.
ظاہر سی بات ہے کہ ایسی شخصیت کے ان عناصر کا اثر ان کے خطبات پر پڑنا اور ان میں reflect اور منعکس ہونا لازمی شیئ ہے. خطبات میں موجودہ وقت کے مسلم معاشرے کی اصلاح کی کوشش بہت مؤثر اور دلنشیں اسلوب میں کی گئی ہے. یہ مجموعہِ آہنگِ حجاز موجودہ وقت سے بہت ہم آہنگ اور relevant ہے. ان خطبات میں تقریباً تمام اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں درج ذیل موضوعات بھی شامل ہیں:
اخلاصِ نیت، حقوقِ مسلم، استغناء، ایمان ویقین کے اثرات، حسنِ اخلاق، اتحادِ امت، خوشگوار زندگی، راہِ اعتدال، مشکل حالات میں اسلامی تعلیمات، رمضان کے روزے، قصہِ معراج اور تحفہِ نماز، فریضہِ حج، اولیاء اللہ، سکونِ دل کا راز، ذکر اللہ، برکت اور بے برکتی، خدمتِ انسانیت اور استغفار, اسلام پر چند اعتراضات کے جوابات.
مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ کتاب کا مؤلف اگر خود جنید ہو، استاذ دار العلوم دیوبند کا رہا ہو، خطبات سرزمین پاک کی مسجدِ رضوان کے ہوں، شائع مکتبۃ الحرم سے ہو اور جس کی تائید اور شہادت میں قلم چلانے والے حضرات میں مشہورِ عالَم مرشدِ روحانی حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی اور مہتمم دار العلوم دیوبند حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی صاحبان دامت برکاتہما شامل ہوں تو پھر ایسی کتاب کے محاسن کے بارے میں مجھ جیسے بے بضاعت شخص کا کچھ لکھنا اور تبصرہ کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا ہے. تاہم میں یہ عرض کیئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا ہوں کہ اصلاحی ودینی خطبات کی دنیا میں یہ انتہائی قیمتی اضافہ ہے. میرا یہ احساس ہے کہ یہ کتاب ہر گھر کی زینت بننی چاہیے اور بالخصوص مساجد کے ائمہ وخطباء کے لئے تو یہ کتاب آنکھوں کا سرمہ ہے.