واقعۂ کربلا کی بعض وضعی روایات کے زیرِ اثر سیدنا حسینؓ کی المناک شہادت کی ذمہ داری امیر یزید بن معاویہؒ پر ڈال کر ان کو مطعون کرنا برِ صغیر پاک و ہند کی فضا کا عام رواج بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ کردارِ یزید اور فسقِ یزید کے مباحث پر بعض اہل علم کی تالیفات تک منظرِ عام پر آچکی ہیں جن میں غیر ثابت روایات کے تحت ایک جلیل القدر صحابی کے بیٹے اور دوسرے جلیل القدر صحابی کے دامادامیر یزید بن معاویہؒ کی نہ صرف کردار کشی کی گئی ہے بلکہ ان پر فسق کی تہمت کے انبار بھی لگائے گئے ہیں۔
اس موضوع پر ہم عرصۂ دراز تک لکھتے رہے ہیں اور اب ایسا سمجھئے کہ اس موضوع سے کچھ اکتا سے گئے ہیں، سو سوچا کہ اس متعلق خود سے کچھ عرض کرنے کے بجائے اس موضوع کی مناسبت سے متعلق کچھ کتابوں سے قاری کو روشناس کرواکر ان کو مطالعہ کے لئے دے دی جائیں۔ سو اسی سلسلے میں آج جس کتاب کا انتخاب کیا گیا ہے وہ علامہ عظیم الدین صدیقی مرحوم کی بالغ النظر تالیف “حیات سیدنا یزید بن معاویہؒ” ہے۔
یہ کتاب عرصۂ دراز سے ناپید تھی۔ گرچہ کتاب کافی علمی ہے جس پر مجتہد العصر مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری کا تعارف، سابق ناظم اعلیٰ جمعیت خطبائے اہلسنت آزاد کشمیر قاری محمد صدیق کاشمیری کی تقریظ جبکہ اہلحدیث عالم حکیم فیض عالم صدیقی شہید ، سابق خطیب مرکزی جامع مسجد اسلام آباد مولانا محمد عبداللہ والد مولانا عبدالعزیز و عبدالرشید شہید نگراں لال مسجداسلام آباد، قاضی محمد حسن الدین شیر کوٹی مرحوم جو کہ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری کے ہم سبق تھے وغیرہ کے تائیدی تبصرے موجود ہیں لیکن موضوع کی حساسیت اور مؤلف کے چندتسامحات کی پاداش میں منفی پروپیگنڈے نے کتاب کو ایک مدت تک علمی دنیا سے اوجھل رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مؤلف مذکور کے تسامحات کچھ اس قدر شنیع اور لائقِ طعن نہ تھے جس قدر ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔
ابو الحسین عظیم الدین صدیقی مرحوم کی تقریباً ہر کتاب پڑھنے کا اس احقر کو موقع میسر آیا ہے جن میں سے “حیاتِ سیدنا یزیدؓ “اور “درس توحید حصہ اول و دوم” واقعی خاصہ کی کتب ہیں اور کم از کم عقائد کی سطح پر مؤلف مذکور کو توحید پرست و متبع سنت ثابت کرتی ہیں۔ مؤلف مذکور چونکہ حنفی المذہب تھے تو یقیناً فروعات اور قواعدِ اصولیہ میں دوسرے فقہی مسالک سے ان کا اختلاف ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تاہم ان پر ناصبیت کی تہمت لگانا قطعاً غیر مناسب اور مبنی بر تعصب ہے۔ خود ہمیں تاریخی حقائق کو لے کر کئی جگہوں پر مؤلف سے اختلاف رہا ہے لیکن ان سب اختلاف کے باوجود ان کو کسی طور پر سیدنا علیؓ اور حضرات حسنینؓ کی شان میں سوء ادبی کرنے کا مرتکب گرداننا نری جہالت اور علمی بددیانتی ہوگی۔
مؤلف مذکور نے اپنی کتاب میں اکثر و بیشتر حضرات حسنینؓ کے لئے “رضی اللہ عنہ” کے بجائے “رحمہ اللہ علیہ” کا لاحقہ استعمال کیا ہے جس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ مؤلف مذکور حضرات حسینؓ کو وفات النبی ﷺ کے وقت ان کی صغر سنی کے سبب صحابہ کے بجائے تابعین میں شمار کرتے تھے۔ گرچہ ہمیں مؤلف مذکور کے اس نتیجے سے سخت اختلاف ہے کیونکہ اہل سنت نے اپنی قدیم و جدید تمام کتب میں حضرات حسنینؓ کو صحابہ ہی مانا ہے اور حضرات حسنینؓ سے زیادہ کم عمر اصحاب کے لئے بھی صحبتِ نبویﷺ کو تسلیم کیا ہے جیسے ابو الطفیل عامر بن واثلہ لیثیؓ اور طارق بن شہابؓ وغیرہ۔
تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کئی ایسے اصحاب کی صحابیت کے بارے میں اہل سنت میں اختلاف رہا جو کہ وفات النبی ﷺ کے وقت عمر میں حضرات حسنینؓ سے بڑے تھے جیسے سیدنا مروان بن الحکمؓ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ سیدنا مروانؓ اور ان کے طور کے دوسرے اصحابِ رسولﷺ کی صحابیت میں اختلاف ان کی صغر سنی کے سبب نہیں بلکہ ان کی رویتِ نبی ﷺ کی وجہ سے در آیا جہاں محدثین کو ایسے شواہد ملنے میں اختلاف رہا کہ آیا سیدنا مروانؓ نے نبی ﷺ کواپنی صغر سنی میں دیکھا تھا یا نہیں۔ پھر رویتِ نبی ﷺ کے لئے بلوغ یا سن تمیز کی شرط لاگو ہوتی ہے یا نہیں تو اس متعلق بھی محدثین و فقہاء میں اختلاف موجود رہا ہے۔
پھر یہ بات بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سیدنا حسن ؓ کو نبی ﷺ نے دعائے قنوت یاد کروائی جیسا کہ صحیح روایت سے ثابت ہے اور اسی روایت پر اہلحدیث عوام و علماء کا عمل ہے۔ سیدنا حسن ؓ کی پیدائش سے متعلق کچھ اشارات تاریخ و احادیث میں ملتے ہیں۔ سب پہلے تو یہ کہ سیدنا علی ؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا نکاح جنگ بدر کے بعد اور جنگ احد سے پہلے ہوا تھا کیونکہ صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ سیدنا حمزہؓ نے شراب کے نشے میں سیدنا علی ؓ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور کوہان چیر دیا تھا جو کہ سیدنا علی ؓ نے اپنے ولیمہ کی دعوت کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ چونکہ سیدنا حمزہ ؓ کی شہادت جنگ احد میں ہوگئی تھی سو لامحالہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا فاطمہ ؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے جنگ احد سے پہلے اور بدر کے بعد ہوا تھا۔ بعض تاریخی شواہد سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ سیدہ ام کلثومؓ سیدنا علی ؓ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ ان کے بعد ایک لڑکے محسن جو کہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور پھر سیدنا حسن ؓ پیدا ہوئے۔
تقریباً تمام ہی مورخین نے روایت کیا ہے کہ سیدنا حسن ؓ کی دایہ گیری کی خدمات سیدنا جعفر طیارؓ کی بیوی اسماء بنت عمیسؓ نے ادا کی تھیں جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں تصریح ہے سیدنا حسینؓ کی دایہ گیری کی خدمات سیدنا عباسؓ کی زوجہ ام الفضل ؓ نے ادا کی تھیں۔ جعفر طیارؓ اور اسماء ؓ جنگ خیبر کے وقت مدینہ تشریف لائے تھے جو کہ ۷ ہجری کا واقعہ ہے سو اس حساب سے سیدنا حسن ؓ کی ولادت اگر بہت جلد بھی مانی جائے تو وہ ۷ ہجری کی بنتی ہے۔ یعنی نبی ﷺ کی وفات کے وقت سیدنا حسنؓ کی عمر ۴ سے ۵ سال بنتی ہے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ۶ سے ۷ سال بنتی ہے بالکل وہی عمر جس پر لفظ صبی کا اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری نے سیدنا حسن ؓ سے متعلق ایک روایت میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔
اسی طرح سیدہ ام الفضل ؓ فتح مکہ کے بعد مدینہ تشریف لائیں سو اگر مدینہ میں ان کی آمد ۸ ہجری میں بھی مانی جائے اور حنین وغیرہ سے فراغت کے بعد نبی ﷺ کی مدینہ واپسی بھی ۸ ہجری کے اواخر یا ۹ ہجری کے شروع کی مانی جائے تو سیدنا حسین ؓ کی ولادت ۹ ہجری کی بنتی ہے یعنی نبی ﷺ کے انتقال کے وقت ۲ سے ۳ سال کی عمر۔
سیدنا حسن ؓ کی صحابیت میں توہمارا نہیں خیال کہ اختلاف ہونا چاہیئے کیونکہ نبی ﷺ کے انتقال کے وقت انکی عمر ۴ سے ۵ سال بنتی ہے جبکہ بچے کی یادداشت کام کرنے لگ چکی ہوتی ہے اور اسکا ثبوت سیدنا حسن ؓ سے مروی احادیث بھی ہیں سو سیدنا حسن ؓ تو صغار صحابہؓ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں اور ایسے کئی صحابہ کے نام ملتے ہیں تاریخ میں جو کہ کم سنی میں سیدنا حسن ؓ کے ہم پلہ تھے اور صغار صحابہؓ شمار کئے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ رویت و روایت دونوں اعتبار سے سیدنا حسن ؓ صحابیت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
البتہ جہاں تک سیدنا حسین ؓ سے مروی احادیث کا تعلق ہے تو اکثر محدثین نے انکو مرسل صحابہ میں سے مانا ہے کہ سیدنا حسین ؓ نے وہ روایت دوسرے صحابہ سے سن کر بیان کی ہیں جیسا کہ سیدہ عائشہ ؓ سے ہجرت کے واقعات بیان کرنا وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔اصول الحدیث کے تحت تو شائد سیدنا حسین ؓ تابعی سمجھنے کا موقف پیش کیا جاسکتا ہو کیونکہ وہ نبیﷺ کی وفات کے وقت کمسن اور ناسمجھ تھے اور نہ ان کی نبی ﷺ سے برا ہ راست کوئی روایت ثابت ہے۔ لیکن جمہور کے مطابق سیدنا حسینؓ کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے جنہوں نے نبی ﷺ کی گود میں پرورش پائی اور نبی ﷺ کی زندگی میں اتنے بڑے تھے کہ بھاگتے دوڑتے تھے جیسا کہ امام ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ میں حدیث نمبر ۳۶۶۶ لیکر آئے ہیں:
یعلی (بن مرہ)عامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا:حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہمادوڑے دوڑے نبی ﷺ کے پاس آئے ۔آپ نے انہیں سینے سے لگایا لیا اور فرمایا: اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔۔ سندہ صحیح
ان تمام تصریحات کے تحت سیدنا حسین بن علیؓ کی صحابیت ثابت ہوتی ہے سو جو لوگ سیدنا حسین ؓ کو صحابی نہیں تابعی باور کرواتے ہیں، ان کا موقف کچھ راجح معلوم نہیں ہوتا۔ اور جب سیدنا حسینؓ صحابی ثابت ہوجاتے ہیں تو سیدنا حسنؓ تو بدرجہ اولیٰ صحابی مانے جائیں گے اور یہی صائب مسلک اور درست رائے ہے۔ تاہم ہم یہاں اس بات کی بھی وضاحت کردیں کہ ابو الحسین عظیم الدین صدیقی مرحوم نے حضرات حسنینؓ کے لیے “رحمہ اللہ ” کا لاحقہ لگانے کے باوجود کسی ایک جگہ بھی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی جناب میں کوئی سوء ادبی یا نقد نہیں کیا۔ اور یہی وجہ رہی کہ ابو الحسین عظیم الدین صدیقی مرحوم کی کتب پر جید حنفی و اہلحدیث علماء کی تقریظات اور تائیدی تبصرے موجود رہے۔ جیسا کہ کتابِ ہٰذا کے مندرجات سے قارئین کو اندازہ ہوجائیگا۔
اس کتاب میں مؤلف مذکور نے نہایت جزرسی سے تاریخی کتب کی ورق گردانی کرکے امیر یزید بن معاویہؒ کے حالاتِ زندگی یکجا کئے ہیں۔ آپ نے پوری کوشش کی ہے کہ امیر یزیدؒ سے متعلق واقعات کو تسلسل اور سیرت کے طور پر مرتب کیا جائے اورساتھ ہی امیر یزید سے متعلق جو غلط فہمیاں دروغ گو رواۃ کے سبب کتبِ تاریخ میں شامل ہوگئی ہیں، ان کا ازالہ بھی کیا جائے۔
کتاب اپنے مندرجات کے لحاظ سے نہایت وقیع معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی عام فہم اور سلیس زبان میں جو عام قاری کے لئے مطالعہ میں آسانی کا سبب قرار پاتی ہے۔
محمد فھد حارث