مرتب: محمد عرفان جونپوری
حفیظ جونپوری (1865ء ۔24؍ نومبر1918ء) اپنے وقت کے عظیم شعرا میں سے تھے ،شعر وادب سے لگاؤ رکھنے والے اکثر لوگوں کو ان کا یہ شعر یاد ہوگا
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
زیر تعارف کتاب میں حفیظ جونپوری سے متعلق ان اہم اور نادرو نایاب چیزوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی جن کی ضرورت آئندہ حفیظ کی حیات وخدمات اور ان کی شاعری پر کام کرنے والوں کو پڑسکتی ہے۔ حفیظ کا آبائی وطن فیض آباد تھا ،وہ چھتری قوم سے تعلق رکھتے تھے ، چھ سات پشت پہلے ان کے آباء واجداد میں سے کسی کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی ۔ ان کے دادا نے جونپور میں سکونت اختیار کرلی ، یہیں ۱۸۶۵ء میں حفیظ پیدا ہوئے۔ فارسی درسیات کی تکمیل کے بعد والد نے ایک حافظ صاحب کے حوالہ کیا ،جن سے حفظ قرآن کی تکمیل کی اور محراب بھی سنائی ۔ والد کے انتقال کے بعد 1883ء میں بسلسلۂ تجارت پٹنہ کا سفر کیا ، جہاں اس وقت شعر وسخن کا چرچا خوب تھا ، تجارت تو بس برائے نام رہی ہاں مشق سخن خوب جاری رہی ۔ ابتداء میں وسیم خیرآبادی سے اصلاح لی، بعد میں ان کے کہنے سے امیر مینائی کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوئے ۔ بحیثیت شاعر خوب شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی ، زندگی میں دو مجموعۂ کلام ’’ غم گسار ‘‘ اور خمخانۂ دل ‘‘ شائع ہوئے ۔ اپنی شاعری کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں
ادا وناز ،کرشمہ ، متانت وشوخی
وہ بات کون سی ہے جو میرے سخن میں نہیں
ایک طرف رندی وسرمستی کی یہ کیفیت تھی ، تو دوسری جانب دل کا حال یہ تھا کہ اٹالہ مسجد میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا وعظ سنا تو یہ خیال دل میں جم گیا کہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیدیا جائے ، یہ احساس اتنا بڑھا کہ باقاعدہ اس کے لئے تھانہ بھون کا سفر کیا ، اور اس سفر کی داستان ’’ مآل ‘‘ کے نام سے لکھی ،جو اسی وقت ۱۳۳۱ھ میں مطبع قاسمی دیوبند سے شائع ہوئی تھی اور اب نایاب ہے ۔ مرتب کتاب عرفان صاحب نے اسے تلاش کرکے اس مجموعہ میں شامل کردیا ، جو صفحہ 105 سے 158 تک ہے ، یہ بڑی تاریخی دستاویز ہے ، اس سے بہت سے واقعات کا علم ہوتا ہے اور بہت سی شخصیات کے بارے میں حفیظ صاحب کی رائے کا علم ہوتا ہے ۔ ۶؍۷؍۸؍ اپریل ۱۹۱۲ء کو میرٹھ میں موتمر الانصار کا جلسہ ہوا ، جس میں حضرت حکیم الامت سمیت بہت سارے علماء دیوبند شریک ہوئے ، اس اجلاس میں بھی حفیظ صاحب نے شرکت کی ، اور دس بند کی ایک مسدس نظم بھی کہی ۔ اسی سفر میں وہ دیوبند بھی گئے جہاں ۹؍ اپریل ۱۹۱۲ء کودارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث کی بنیاد رکھی جانی تھی، انھوں نےجلسہ تاسیس دارالحدیث میں شرکت کی اور بارہ شعر کی ایک نظم کہی، دارالحدیث کی بنیاد میں اینٹ رکھنے والوں میں حفیظ صاحب بھی تھے،دارالعلوم کے بارے میں انھوں نے بڑے بلند خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ دیوبند سے وہ تھانہ بھون گئے اوروہاں کئی دن رہے،حضرت تھانویؒ سے بیعت ہونے کے بعد کئی غزلیں کہیں ، ایک کا مقطع یہ ہے؎
کرے ہے بیعت حفیظ ؔ اشرف علی سے
بایں غفلت یہ ہوشیاری تو دیکھو
اسی موقع پر کہی گئی ایک دوسری غزل کا مقطع ملاحظہ ہو ؎
بحمد اللہ حفیظؔ اب ہے مسلمانوں کی صورت میں
نہ دیکھا جس نے ہو دیکھے وہ حالت کا بدل جانا
رسالہ کے اخیر میں ان اَوراد واَذکار کو بھی تحریر کردیا ہے جو حضرت تھانوی نے ان کو تلقین کئے تھے ۔ یہ ان کی زندگی کا بالکل دوسرا رخ ہے جس سے عام طور پرلوگ ناواقف ہیں، خود مجھے پہلی بار اسی کتاب سے اس کا علم ہوا ۔
کتاب کے مرتب عرفان جونپوری ( ولادت : ۱۸؍جولائی ۱۹۵۰ء) ایک باذوق ، علم دوست اور ادب نواز شخصیت کے مالک ہیں ، کتابوں سے انھیں عشق ہے، اس کا اندازہ ان کی لائبریری سے بخوبی ہوتا ہے، وہ کوئی سرمایہ دار نہیں ہیں ، ا س کے باوجود ان کے یہاں کتابوں کا جو ذخیرہ ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، بالخصوص تاریخ جونپور ورجال جونپور کے تعلق سےجو نادر ونایاب کتابیں، مخطوطات ، مکتوبات اور تصویریں وغیرہ ہیں ، جونپور پر کام کرنے والے کبھی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ اس وقت وہ مشاہیر جونپور پر کام کررہے ہیں، خدا کرے جلد اور بخیر وخوبی ان کا یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچے ۔ جونپور کے ذرے ذرے سے ان کو غیر معمولی لگاؤ ہے ، اس کتاب کی ترتیب واشاعت بھی اسی لگاؤ اور تعلق کا نتیجہ ہے۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ، باب اول میں حفیظ کے کلام پر لکھے گئے پیش لفظ ، مقدمے اوردیباچے شامل ہیں ، اس کا آغاز خود حفیظ کی تحریر سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے پہلے دیوان پر بطور ’’ عرض مصنف‘‘ کے لکھی تھی ، اس میں انھوں نے اپنے سوانحی حالات ، وسیم اور امیر سے شرف تلمذ اور اپنی شاعری کے بارے میں بڑی اہم باتیں بیان کی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے دوسرے دیوان ’’ خمخانۂ دل ‘‘ پر قاضی خیر بھیڑوی دربھنگوی کا لکھا ہوا مقدمہ ہے ، یہ بھی حفیظ کی شاعری پر ایک بہترین تحریر ہے۔ دیگر تحریروں میں کامل جونپوری، نظام جونپوری ، طفیل انصاری، پروفیسر محمودد الٰہی ، محبوب الرحمٰن فاروقی اور شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریریں ہیں جو حفیظ کی شخصیت وشاعری کے باب میں بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔اس باب کی آخری تحریر حفیظ کا سفرنامہ ’’مآل ‘‘ ہےجس کا ذکر گزرچکا ہے۔
دوسرےباب میں ملک کے نو ممتاز اہل قلم کی تحریریں ہیں ، جن میں مولانا عبدالسلام ندوی مصنف شعر الہند ، مجنوں گورکھپوری ، پروفیسر فضل امام ، سیدا قبال احمد جونپوری ، طفیل انصاری ، ایس ایم عباس، ابوذر انصاری ، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی اور ڈاکٹر تابش مہدی جیسے لوگ ہیں ۔ عبرت مچھلی شہری اس باب کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ اس میں حفیظ کی شخصیت اور فن پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے ، جس سے ان کے معیار کلام کا تعین ہوتا ہے اور حفیظ شناسی کا ہر پہلو واضح اور روشن ہوجاتا ہے۔ ‘‘ ص:۳۳)
تیسرے باب میں ان رسائل وجرائد کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں حفیظ اور ان کے ہم عصر شعرا کا کلام شائع ہوتا تھا ، مرتب نے ان غزلوں اور اشعار کی فہرست مرتب کر دی ہے جو حفیظ کے مطبوعہ دیوان میں نہیں ہیں ، اس سے ان کی محنت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
چوتھے باب میں حفیظ کے چند خطوط ہیں جو انھوں نے مولانا قیام الدین بخت جونپوری، ریاض خیرآبادی اور وسیم خیرآبادی کو لکھے تھے ۔ پانچواں باب متفرقات کے عنوان سے ہے جس میں حفیظ سے متعلق متفرق تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ کتاب کا مقدمہ عرفان جونپوری کے قلم سے ہے، جس میں انھوں نے حفیظ کے بارے میں مشاہیر ادب کی آراء کو ذکر کیا ہے، مقدمہ کی زبان بڑی سلیس وشگفتہ ہے۔ عنقریب عرفان جونپوری کے مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہورہا ہے، اس سے ان کے اسلوب تحریر کا اندازہ ہوگا۔
کتاب خریدیں
Hafeez Jaunpuri Arbab e Adab Ki Nazar Mein, حفیظ جونپوری ارباب ادب کی نظر میں