جدید ہندوستان میں اُردو سیرت نگاری ” ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی رح کا ایک مقالہ ہے۔ اس میں سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر اردو میں بالخصوص ہندوستان میں ہونے والے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ سیرت نگاری ایک آفاقی و عالمی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اردو زبان کی یہ خوش قسمتی و سعادت ہے کہ اس موضوع پر اس زبان میں بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہند کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آئی تھی یہ کام اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ناصرف اُردو زبان میں کتب سیر لکھی گئیں بلکہ کئی اہم کتب کا اس زبان میں ترجمہ بھی ہوا جس سے اس کے ذخیرے میں مزید اضافہ ہوا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آفاقیت کی یہ ایک زندہ مثال ہے کہ اب بھی اردو سمیت دیگر زبانوں میں بھی اس پر لکھا جا رہا ہے اور مختلف جہات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
اُردو سیرت نگاری میں ڈاکٹر صاحب نے مختلف قسم کی کتب کا ذکر کیا ہے۔ اُردو تراجم کا ذکر ہو گیا۔ ایک اور قسم کتب سیر کا تنقیدی مطالعہ ہے اس کی ایک مثال ڈاکٹر صاحب نے ظفر احمد صدیقی صاحب کی کتاب کی دی ہے جنہوں نے مولانا شبلی نعمانی کی سیرت نگاری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔
تیسری قسم مصادر سیرت پر مقالات ہیں۔ اس میں تاریخ یعقوبی پر ڈاکٹر صاحب نے خود لکھا ہے، اس کے ساتھ نثار احمد فاروقی صاحب نے طبقات ابن سعد پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم میں علامہ عبد الحکیم شرف قادری کے دو مقالات جو انہوں نے قاضی عیاض مالکی رح کی الشفاء اور علامہ یوسف نبہانی رح کی کتاب پر لکھے ان کا بھی ذکر کیا ہے۔
ایک اور قسم جامع و کامل کتب سیرت کی ہے۔ اس کٹیگری میں کافی کتب آ جاتی ہیں مولانا شبلی نعمانی اور قاضی سلمان منصور پوری کی کتابیں اس میں صف اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ عبد الرؤف داناپوری کی اصح السیر، مرزا حیرت دہلوی کی سیرت محمدیہ جس کو ڈاکٹر صاحب نے سرسیدی عطیے کا ایک روپ کہا ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نور البصر فی سیرۃ خیر البشر، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب، شیخ مبارک پوری کی الرحیق المختوم، مولانا وحیدالدین خاں کی پیغمبر انقلاب، مولانا لقمان سلفی کی الصادق الامین، مولانا ولی رازی کی ہادی عالم جو ایک منفرد کتاب ہے اور اردو سیرت کی پہلی غیر منقوط تالیف ہے۔ اس ہی قسم میں ایک شیعہ عالم مولانا علی نقی نقوی کی معراج انسانیت نامی کتاب کا بھی ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے جو لکھنؤ سے شائع ہوئی۔
سیرتی ادب میں ایک قسم سیرت برائے اطفال بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس پر بھی اردو میں کام کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس حوالے سے بھی کتب کا ذکر کیا ہے جن میں قاضی سلیمان منصور پوری کی مہر نبوت، مولانا سید سلیمان ندوی کی رحمت عالم سمیت اور بھی کتب کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتب سیر کی ایک اور قسم نصابی کتب سیرت بھی ہیں ان کا بھی ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے۔
ایک اور قسم آسان و مختصر رسائل کی صورت میں سیرت کا بیان ہے۔ ایک اور قسم اُردو میں اسلامی تاریخ پر لکھی کتب میں سیرت طیبہ کے زمانے پر لکھا مواد بھی ہے اس میں خود ڈاکٹر صاحب کی اپنی کتاب تاریخ تہذیب اسلامی کا حصہ اول بھی شامل ہے اس کے ساتھ شاہ معین الدین ندوی کی تاریخ اسلام، اسلم جیراج پوری کی تاریخ الامت سمیت اور کتابوں کا ذکر موجود ہے۔ ایک اور قسم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال جواب کی صورت میں مطالعہ ہے۔ اس پر بھی ڈاکٹر صاحب نے روشنی ڈالی ہے۔ پھر سیرت طیبہ کا قرآن مجید کی روشنی میں مطالعہ کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب رسول رحمت، مولانا ارشد القادری کی کتاب محمد رسول اللہ قرآن میں سمیت کئی اور کتب کی نشاندھی کی گئی ہے۔
اُردو کتب سیر میں ایسی کتب بھی پائی جاتی ہیں جس میں سیرت کی کسی خاص جہت کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسوہ، دعوت، معمولات، ہجرت، معجزات، اخلاق، ختم نبوت، عصر حاضر میں معنویت، ناموس رسالت، مکتوبات نبوی، غزوات و سرایا، سماجی مطالعات، تہذیب و تمدن، نظام حکومت وغیرہ شامل ہیں ان میں ہر موضوع پر الگ الگ سے کتب موجود ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسے ہی صحابہ کرام، امہات المومنین اور صحابیات رضی اللہ عنہم پر لکھی کتب میں سیرت طیبہ کے حوالے سے بڑا وقیع مواد موجود ہے اس لیے ایسی تالیفات بھی سیرت نگاری کا حصہ ہیں۔ ایسے ہی ڈاکٹر صاحب نے ان کتب کو بھی شمار کیا ہے جو خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارکان پر لکھی گئی۔ اس میں خود ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالات جو انہوں نے حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا، حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی ماؤں کے حوالے سے لکھے ہیں کا ذکر کیا ہے۔
تراجم میں عربی سے اردو کتب کے ساتھ فارسی سے اردو اور انگریزی سے اردو تراجم کا بھی ذکر ہے۔
سیرتی ادب میں ایک سلسلہ مقالات و خطبات کا بھی ہے جس میں سیرت طیبہ کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اس گوشے پر بھی اردو میں کام کیا گیا ہے۔ خود ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبات جو انہوں نے پاکستان میں دئیے اور مقالات جو مختلف وقتوں میں لکھے جو تین جلدوں میں پاکستان سے شائع ہو چکے ہیں کا ذکر کیا ہے۔ مختلف سیمنار اور مذاکروں میں سیرت طیبہ کے حوالے سے گفتگو اردو میں قلمبند ہوئی ہے جس میں مختلف لوگوں نے سیرت طیبہ پر اپنی گذارشات پیش کی ہیں اس پر بھی کچھ کتب کی ڈاکٹر صاحب نے راہنمائی کی ہے۔
اردو کتب میں ایک قسم مستشرقین کی اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی کتب بھی ہیں جن میں سرسید احمد خان کی “خطبات احمدیہ” اہم ہے۔ ان کا اسلوب مناظرانہ ہے مگر اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مستشرقین کے اعتراضات کا ایک جائزہ مولانا شمیم اختر قاسمی صاحب نے بھی لیا ہے۔ اس حوالے سے اور بھی کتب کا ذکر موجود ہے
سیرت نگاری پر غیر مسلم قلمکاروں کی کاوشوں کو بھی اردو میں قلمبند کیا گیا ہے جس میں سوامی لکشمن پرساد کی “عرب کا چاند” یا پھر کے ایل گابا کی پیغمبر صحرا قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے مختلف رسائل کا بھی ذکر کیا ہے جس میں سیرت کے حوالے سے مضامین لکھے گئے ہیں اور کئی رسائل نے خاص سیرت نمبر بھی شائع کیے ہیں جن میں نقوش لاہور کا شائع نمبر قابل ذکر ہے اس کے علاوہ بھی مختلف رسائل جو اعظم گڑھ، علی گڑھ، بنارس اور مختلف جامعات جیسے کہ ندوہ، دیوبند، حیدر آباد وغیرہ سے شائع ہوئے ہیں وہ شامل ہیں۔ ایسے اردو زبان میں منظوم کتب سیرت بھی موجود ہیں
ڈاکٹر صاحب نے ایک جگہ مصادر و مآخذ پر کام کے حوالے سے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کے کام کی تعریف کی ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس حوالے سے ابھی بہت زیادہ کام ہونا باقی ہے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ جدید ہندوستان میں سیرت نگاری کا کام کئی جہات کے حوالے سے قابلِ فخر ہے۔ اس حوالے سے حیدرآباد دکن و مدراس کا علاقہ سب سے زرخیز ہے۔ اس کے تحقیقی کام کو اردو سیرت نگاری میں ڈاکٹر صاحب نے مجتہدانہ مقام کا حامل قرار دیا ہے۔
اُردو میں ذخیرہ سیرت کو جاننے کے لیے ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون بہت ضروری ہے اور یہ بات کافی اطمینان کا باعث ہے کہ اس اہم شعبہ پر اُردو میں مسلسل کام ہو رہا ہے اور بالخصوص پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں اس حوالے سے تو بہت بڑا کام ہوا ہے۔
کتاب کے آخر میں حافظ محمد عارف گھانچی نے دو سو چودہ کتب کی ایک فہرست بھی مرتب کی ہے جو ہندوستان سے شائع ہوئی ہیں۔ یہ فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ اس حوالے سے مسلسل کام ہو رہا ہے اور سیرتی ادب میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مقالے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر کچھ جگہ تشنگی محسوس کی۔ مثلاً تراجم کے حوالے سے ایک اہم کتاب مدارج النبوت کا ذکر نہیں ہے۔ اس طرح سے ضیاء النبی، سیرت سید الوری اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت اور بھی ایسی کتب ہیں جن پر ڈاکٹر صاحب نے کوئی تبصرہ کیا نہ ہی ان کا ذکر کیا ہے۔ نعتیہ ادب میں ڈاکٹر صاحب نے سید صبیح رحمانی اور سراج احمد قادری کا ذکر کیا ہے اور تعریف بھی کی ہے مگر حدائق بخشش پر کوئی کلام موجود نہیں۔ حالانکہ نعتیہ ادب میں اس کا ایک مقام ہے پھر اس کی شرح بھی کی گئی ہے جو کہ از خود سیرتی ادب میں ایک اور اضافہ ہیں۔
یہ کچھ کمی و تشنگی تھی جو اس مقالے میں محسوس ہوئی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ایک مقالے کے اندر اتنی چیزوں کا احاطہ ممکن نہ ہو۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کا سیرت کے حوالے سے کام ہمیشہ قابل قدر رہے گا یہ موضوع ہی اس قدر بڑا ہے کہ کسی فرد واحد کے لیے اس کی ہر جہت کا مطالعہ اور اس پر تحریر لکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ مجموعی طور پر یہ مضمون بہت معلومات اور کتب کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو کہ سیرت کے طالب علم کی راہنمائی کرتا ہے۔
راجہ قاسم محمود