Web Analytics Made Easy -
StatCounter

تفسیر لاہوری مولانا احمد علی لاہوری

تفسیر لاہوری

تفسیر لاہوری مولانا احمد علی لاہوری

حضرت والد ماجدمولانا سمیع الحق شہید کی مرتب کردہ دس جلدوں پر مبنی ”تفسیر لاہوری

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی شہرہ آفاق پہلی مکمل ”تفسیر لاہوری”کی اشاعت و طباعت حضرت والد شہید کی زندگی کی سب سے بڑی دیرینہ آرزو اور تمنائے بیتاب تھی جس کی ضبط و تالیف اور ترتیب میں آپ ہمہ وقت مستغرق رہتے۔یہ دراصل آپ کے ١٩٥٨ء کے زمانہ طالب علمی کے درسی وتفسیری نوٹس تھے جو آپ نے تقریباً ساٹھ برس تک اپنے پاس محفوظ رکھے تھے، عرصہ دراز سے حضرت والد صاحب شہید اور راقم سمیت کئی علمی شخصیات کی یہ تمنا تھی کہ تفسیر لاہوری (افادات امام لاہوری )کی اشاعت ہونی چاہیے تاکہ علمی و عوامی حلقے بھی اس عظیم علمی و تفسیری ذخیرے سے مستفیض اور مستفید ہوسکیں لہٰذا آٹھ سال قبل آپ نے اس کی تدوین و ترتیب کا کام بڑے اہتمام سے شروع کیا اوریوں اس عظیم کاوش کو باقاعدہ مرتب و مدون کرنے کا دیرینہ داعیہ روبعمل ہوگیاتھا اور آپ نے سیاسی، سماجی اور دارالعلوم کے اہتمام کی بے پناہ مصروفیات، درس وتدریس، ضعف و بیماری اور پیرانہ سالی واسفار کے باوجود دن رات قرآن کریم کی تفسیری خدمت کا سلسلہ جاری رکھا اور تندہی سے اس پر کام کرتے اور کرواتے رہے، اس دوران آپ کو دل کا عارضہ بھی لاحق ہوا اور آپریشن کا خطرناک مرحلہ بھی پیش آیا لیکن اس کے باوجود آپ تفسیر کا کام ہسپتال میں بھی جاری رکھے ہوئے تھے اور آپریشن کے بعد ہسپتال میں ہوش و حواس بحال ہوتے ہی نئی زندگی کا عملی آغاز تفسیر کے کام سے کیا اور تفسیر کے مسودات منگوا کر فرمایا کہ ”اِس کی تکمیل کی خاطر اپنے پروردگار سے زندگی کی دعائیں، فرصت کے لمحات، صحت اور اس دیرینہ علمی ودینی کام کی تکمیل کی ”نذر” مَیں نے آپریشن سے قبل مانی ہے۔” اسی طرح ایک موقع پر آپ نے حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہ سے اِس تفسیر کے متعلق یوں فرمایا کہ ”اب تو صرف تمنا ”تفسیر لاہوری” کی تکمیل ہی ہے کہ جاتے جاتے قرآن کی خدمت کا کچھ حق بھی ادا ہوجائے ،شیخ الہند نے ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں ایک شعر لکھا ہے اب میرا بھی یہی شعر وظیفہ ہے

روزِ قیامت ہر کسے در دست گیرد نامہ اے
من نیز حاضر می شوم ”تفسیر قرآں” دربغل

Tafseer e Lahori

مگر ہائے افسوس! کہ حضرت والد صاحب شہید کی یہ دیرینہ تمنا ان کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی اورمشیت الٰہی کو کچھ اور ہی منظور تھا ،دونومبر ٢٠١٨ء کو سفاک ”نامعلوم”قاتلوں نے انہیں شہید کردیا اور زیست نے مزید وفاداری نہیں نبھائی، آپ سے تقریباً سواتین پاروں کا کام باقی رہ گیا تھا (گوکہ حضرت والد صاحب شہید نے اپنے قلم سے ١٩٥٨ء میں یہ تمام اَمالی تفسیرمحفوظ کرلی تھی اور ان پر حواشی کا کام بھی اپنی حیات ہی میں مکمل کرچکے تھے، صرف کمپیوٹر کی کمپوزنگ (کتابت ) ، عنوانات کا انتخاب اور تصحیح وغیرہ رہ گئی تھی جو بعد میں الحمدللہ ہماری ٹیم نے مکمل کیا ) تفسیر کا اکثر کام اپنے ہاتھ سے مکمل فرما چکے تھے لیکن کاتب ِ تقدیر کے لکھے اور جرس ِ اجل کے بلاوے کے باعث تشنہء تکمیل اور ادھورے چھوڑکر خلدِ بریں کی جانب روانہ ہوگئے اورپروردگار عالم کے پاس مسودات ”تفسیر لاہوری” کا ادھورا ذخیرہ ، شوق شہادت کی آرزو میں اپنے ہمراہ لے گئے حالانکہ علمی حلقے اور ہم سب اس کے مشتاق اور چشم براہ تھے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمہی سو گئے داستان کہتے کہتے

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے مجھ جیسے کمزور ،ناتواں اور کوتاہ ہمت طالب علم کو اتنی ہمت اور حوصلہ عطا فرمایا اور حضرت والد صاحب شہید ناموس رسالت ۖ و شہید جہاد افغانستان حضرت مولانا سمیع الحق کی شہرہ آفاق ”تفسیرلاہوری” کی تکمیل و ترتیب کو سورة الناس تک پہنچانے کی خدمت وتوفیق بخشی گوکہ حضرت والد شہید کی شہادت کے حادثہ و جدائی نے کمر و حوصلہ دونوں کو توڑ دیا تھا، قویٰ و اعضاء مفلوج ہوگئے تھے اور عقل و خرد پر غم کے پردے پڑ گئے تھے لیکن پھر بھی اُنہی دنوں میں ”موتمر المصنفین والحق” کی ٹیم کو اکٹھا کیا اور اِنہیں تاکید کی کہ حضرت شہید کی اس آخری خواہش کو ہر حالت میں بغیر رُکے اب پایہ تکمیل تک جلد سے جلد پہنچانا ہے ، چاہے حالات جس نہج پر بھی چلے جائیںلیکن تفسیر کی تکمیل و ترتیب ہر حال میں جاری وساری رہنی چاہیے، الحمدللہ اس بہادر محنتی فضلاء کی ٹیم نے دن رات ایک کرکے تفسیر کا عظیم کام مکمل کرلیااور سال٢٠١٩ء رمضان المبارک میں (جو قرآن کا مہینہ ہے) اس کی مناسبت اوراختتام و برکت کیلئے صرف سورہ الناس کی تفسیر کا کام ٢٧ویں شب کو مقبرہ حقانیہ میں حضرت والد صاحب کے مزار پردارالعلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مغفور اللہ صاحب مدظلہ ودیگر مشائخ ،مدرسین اور خاندان کے افراد کے ہمراہ مکمل کرلیا،ان راتوں کا انتخاب اس لئے بھی کیا گیا تھاکہ ان میں لیلة القدر کا احتمال زیادہ ہوتا ہے اور حرمین شریفین میں ختم قرآن بھی انہی راتوں میں ہوتا ہے اور اس کے بعد نظرثانی ،کچھ مفید اضافے اورنئے عنوانات کے انتخاب اورخصوصاً اشاعت جیسے مشکل مراحل کی ذمہ داری مجھ جیسے ناکارہ ، کوتاہ ہمت طالب علم کے کمزور کاندھوں پر ڈالی گئی ،راقم کی بھرپور کوشش رہی کہ حضرت والد صاحب شہید کی زندگی کی سب سے بڑی اور آخری تمنا اوران کے بہت بڑے علمی کام کو اکھٹا کرکے اشاعت کی کٹھن منزل کو کامیابی سے سرکرلوںتو یہ میرے لئے زندگی کا سب سے بڑا مقصد وسرما یہ آخرت ہوگا اور روایتی ”صاحبزادگی و نااہلی کے طعنوں” سے بھی اپنا دامن بچ جائے گا۔

تفسیر کی اشاعت میں تاخیر درتاخیر کئی وجوہات سے ہوتی گئی،ان میں ایک بڑی وجہ گیارہویں پارے سے تیسویں پارے تک کی تفسیری نہج کی تبدیلی تھی دراصل پہلے دس پاروں کی نہج ، ترتیب اور تفسیر اجمالی نوعیت کی تھی بعد میں حضرت والد صاحب نے نظرثانی فرمائی تھی اور آپ نے بیس پاروں کو قدرے تفصیل اور مختلف نہج و ترتیب سے مرتب کرنا شروع کردیا، اس موقع پرآپ نے فرمایا تھا کہ ”جب یہ بیس پارے مکمل ہوجائیں تو پھر پہلے کے دس پاروں کی ترتیب نہج وغیرہ بھی ازسرنو اسی طرز پر ترتیب دوں گا ”لہٰذا سورہ نجم ستائیسویں پارے سے نئے عنوانات ، مجلسی و درسی افادات و توضیحات لکھنا اور تمام تفسیر کو ایک ہی نہج میں لانا ایک بہت بڑا معرکہ بن گیا تھا جس کو ہم جیسے کمزور و ناتجربہ کار لوگوں کے لئے سر کرنا ایک بڑا تجربہ اور دشوار گزار مرحلہ تھالیکن برادرم مولانا فہد حقانی (جن کو اللہ تعالیٰ نے جوانی میں بہت اعلیٰ علمی وتحقیقی صلاحیتیوں سے مالا مال فرمایا ہے،وہ اس حوالے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہزاروں فضلائے حقانیہ میں سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عظیم کام میں شامل ہونے کے لئے حضرت والد صاحب جیسی بڑی علمی شخصیت کے ساتھ کام کرنے کے لئے منتخب فرمایا) نے بھی بڑی استقامت وقابلیت کے ساتھ کام جاری رکھا اور میرے ساتھ اس کام کو سرکرنے کیلئے آخر تک پرعزم رہے،میں یہاں پر حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہ ، مولانا اسرار مدنی ،مولانا مفتی ذاکر حسن، مولانا محمد اسلام حقانی،مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی، مولانا اسد اللہ حقانی ،مولانامفتی محمدشکیل صاحبان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس عظیم کام میں ہمارا بہت ساتھ دیا،پھر خصوصاً میں اپنے ماہنامہ ”الحق” کے بہت ہی مخلص اور قدیم کمپوزر برادرم جناب بابرحنیف صاحب کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے دن رات ایک کرکے اس کی سیٹنگ ، کمپوزنگ ،تصحیح وغیرہ میں اپنا خون جگر شامل کرکے اس گلدستہ کو سینچا و ترتیب دیا ہے،اسی کے ساتھ مولانا نعمان حقانی کا بھی شکریہ ۔

حضرت والد صاحب کی شہادت کے بعد ان چار سالوں میں مَیں جب بھی حضرت والد کے مزار پر حاضری دیتا تو دل میں اس بات کا قلق ہوتا کہ تفسیر کی اشاعت میں مختلف وجوہات کی بنا پر مسلسل تاخیر ہوتی چلی جارہی ہے جس کیلئے معذرت خواہ ہوںاور وہیں مزار کے احاطہ میں بیٹھ کر ذہن میں ایک نیا ہدف مقرر کرلیتا کہ اس عرصہ اور فلاں تاریخ تک تفسیر کا کام مکمل ہوجائے گالیکن قدرت نے ہر چیز کے لئے ایک وقت متعین کررکھا ہے اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا راقم کی یہ بیتاب تمنا تھی کہ قرآن کی یہ عظیم الشان تفسیر جلد شائع کروا کر اپنے عظیم والد شہید کے مزار پر حاضری کے موقع پر پیش کروں کہ جو علمی قرض آپ میرے ذمہ چھوڑ گئے تھے الحمدللہ وہ قرض ہم سب نے چکا دیا ہے

تفسیر لاہوری

مِرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جو رُکے تو کوہ گراں تھے ”تم ” جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ ”یار” ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

اور آپ کی ادھوری تمنائے خام کو بارآوری یعنی اشاعت کے لباس سے آراستہ ومزین کرادیا ہے۔ ع گر قبول افتد زہے عزّو شرف

ان شاء اللہ مجھے امید ہے کہ حضرت والد ماجد اور میرے استاد محترم شہید اپنی ادھوری آرزؤ کی تکمیل واشاعت پر اس ناکارہ فرزند و شاگرد کی اس خدمت سے عالم برزخ میں خوشی اور سکون محسوس کریں گے۔حضرت لاہوری کے دروس تفسیر اور ترجمہ قرآن پر اُس وقت کے نامور علماء مولانا سید انور شاہ کشمیری، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی ، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی،مولانا غلام اللہ خان وغیرہ نے اپنے قیمتی تاثرات لکھے تھے جو اس تفسیرلاہوری میں بطور تبرک شامل ہیں، اس کے علاوہ ”تفسیرلاہوری” پربھی دور حاضر کے جید اکابر جیسے شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی عثمانی، مولانا انوار الحق حقانی، مولانا شاہد سہارنپوری ، ڈاکٹر سید سلمان ندوی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر،مولانا فضل الرحیم اشرفی، مولانا محمد حنیف جالندھری،مولانا مفتی غلام الرحمن ،مولانا عبدالقیوم حقانی صاحبان نے اپنے وقیع تاثرات وتقریظات لکھ کر اس تفسیر کو خراج تحسین پیش کیا۔راقم نے یہ چند کلمات (پیش لفظ) بطور سعادت قلمبند کئے ہیں اگرچہ ”تفسیر لاہوری” پر اوران اکابر کے تفصیلی و قیمتی تاثرات کی موجودگی میں مجھ جیسے کمزور اور ناتواں طالب علم کیلئے کماحقہ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ اس عظیم تفسیر کو خاص اپنی رضا اور ہم سب کی مغفرت کا ذریعہ بنائے اورحضرت والد صاحب شہید کیلئے اِسے تاقیامت صدقہ جاریہ بنائے (امين)

مولانا راشد الحق سمیع

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *