نام کتاب: تفسیر سے تحریف تک, جدید عقلیت پسند طرز تفسیر کا مطالعہ
تیرہویں صدی ہجری کے اواخر اور چودہویں صدی ہجری کے اوائل سے عالمِ اسلام میں ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ اسلام اور مغربی تہذیب وتمدن کے درمیان اتفاق واتحاد کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ ایسا ہی ایک نعرہ فکرِ اسلامی کی تجدید کا بھی تھا۔ حکومتی مناصب پر بیٹھے لوگوں کو یہ نعرے بہت پسند آئے۔ مسلم سماج میں وہ طبقہ جو مغربی تمدن وثقافت پر دل وجان سے فدا ہوچکا تھا یا جو اسلام سے یا مغربی تمدن سے یا دونوں سے نابلد تھا، اس طبقے نے اس فکر ودعوت کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اس قسم کی آواز اٹھانے والے بعض مفکروں اور قلم کاروں نے قرآنی آیات پر دھاوا بولا اور نصوصِ قرآنیہ کو توڑ مروڑ کر اپنی خواہشات اور مغربی مفادات کے مطابق ڈھالنے لگے۔ان کی مساعیِ کاسدہ کے نتیجے میں جو آراء وافکار سامنے آئے وہ انتہائی حد تک اسلامی طرزِ فکروعمل سے بے گانہ تھے۔ ان لوگوں کی وجہ سے تفسیرِ قرآن کے باب میں انحرافات داخل ہوگئے۔ خود کو زمرۂ مفسرین میں شمار کرنے والوں کا انبوہ کھڑا ہوگیا جس نے ہر عجیب وغریب فکر، ناپختہ رائے اور جاہلی حکم کو بڑھ کر اچکنا شروع کردیا۔
بعض حضرات نے صحیح وغیر صحیح روایات کو اپنی نگارشات میں بھر دیا اور تحقیق وتفتیش کی زحمت گوارا نہیں کی۔ افکار ونظریات کی بھرمار ہوگئی۔ بعض لوگوں نے ذمے داری سے بچنے کے لیے اتنا کیا کہ ہر رائے کو اس کے قائلین کے ناموں کے ساتھ بیان کیا، مگر تحقیق وتدقیق کے بعد راجح ومرجوح کا فیصلہ نہیں سنایا۔ اس کھوکھلی معروضیت کا نقصان یہ ہوا کہ عام قارئین نے دانستہ یا نادانستہ یہ افکار ونظریات قبول کر لیے کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ افکار ونظریات قرآنی تفسیر کے نام پر پورے اثبات واعتراف کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔اس سے بھی کتبِ تفسیر میں کافی بگاڑ پیدا ہوا۔
تفسیر کے میدان میں بعض ایسے نفس پرستوں نے بھی قدم رکھا جو نام ونمود کے متمنی اور شہرت وعزت کے طلب گار تھے۔ انھوں نے شاذ آراء وافکار کی کھیپ کی کھیپ قرآنی تفسیر وتعبیرکے نام پر پیش کرنا شروع کر دی۔ قدیم گمراہ فرقوں کے ملحدانہ نظریات وافکار اورآراء واقوال کو اپنے الفاظ میں اور اپنی کاوشِ فکر کا نتیجہ باور کراتے ہوئے کتابوں میں اَٹا اَٹ بھر دیا۔
نظامِ خلافت کے خاتمے، اسلامی ریاست کے فقدان اور مغربی سامراجی طاقتوں کی یلغار اور بو الہوسی وجوع الارضی کی وجہ سے مختلف ملکوں اور علاقوں میں نوع بہ نوع کی نیم دینی اور نیم سیاسی تحریکیں اور جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ان میں سے ہر جماعت اور تحریک نے اپنے وجود کو وجہِ جواز بخشنے اور اپنے نظریات کو شرعی جامہ پہنانے اور اپنے آپ کو وقت کی ضرورت منوانے کے لیے تفسیرِ قرآن کا سہارا لیا۔ مکمل قرآن کی یا منتخب آیات کی تفسیر کرکے انھوں نے اپنی دانست میں فکری ونظریاتی انقلاب لانے کی کوشش کی۔ان تحریکوں، جماعتوں اور تنظیموں کی حقیقت سے آگہی کے لیے ضروری ہے کہ ان تفاسیر کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔ اسی طریقے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ ادارے اور انجمنیں کس حد تک اسلام کی پابند اور وفادار ہیں اور کس حد تک انھوں نے تفسیر کے نام پر دین کی معنوی تحریف کرنا چاہی ہے۔
جدید وسائلِ نقل وحمل کی بہ دولت آمد ورفت کی سہولتیں پیدا ہوگئیں۔ ملتِ اسلامیہ کے افراد کا ربط ضبط اور تعلق وتعامل مادی لحاظ سے ترقی یافتہ مغربی ممالک سے بڑھا تو جو قلوب واذہان ایمانی سربلندی اور دینی غیرت سے خالی تھے انھوں نے ناتوانی اور کمتری کا شدید احساس کیا۔ اس ذہنیت کے حاملین نے اپنی دریوزہ گری کا اعتراف کرتے ہوئے مسلم ممالک واوطان کے اندر بیداری اور ترقی لانے کا اپنا ہدف طے کیا اور اس غرض سے مغربی طرزِ معاشرت ومعیشت کو جوں کا توں امپورٹ کرنا چاہا۔ ایسے لوگوں نے اپنی ذہنی غلامی اور فکری چاکری کو شریعت کا جامہ پہنانے کی نیت سے قرآنی تفسیر کے نام پر مغربی دنیا کے ہر فیشن اور کلچر کو جائز کرنا شروع کیا۔
مغربی دنیا کی سائنسی ترقیات سے جن کی آنکھیں خیرہ، بلکہ اندھی ہوچکی تھیں انھوں نے تغیر پذیر سائنسی نظریات ومفروضات کو بھی حقائق ومسلّمات کا درجہ دے کر من وعن قبول کیا اور ان کی تائید وتوثیق کے لیے قرآنی الفاظ ومدلولات سے کھلواڑ کرنے لگے۔ ان کے نزدیک جدید دور کی جملہ اختراعات وایجادات کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے اورضرورت بس اس امر کی ہے کہ مجاز واستعارے کے ہتھیار سے کام لے کر کلامِ الٰہی کی سطحی اور لچرتاویلیں کی جائیں اور اس میں کوئی شرم اور خفت محسوس نہ کی جائے۔ایسے لوگوں نے قرآنی آیات کی ایسی ناروا تاویلات کیں جنھیں دیکھ کر بجا طور سے لگتا ہے کہ قرآن عالمِ بالا سے نازل ہونے والاصحیفۂ ہدایت نہیں، بلکہ دنیوی علوم وفنون کی تفصیلات وفروعات کا مجموعہ اور مادی ایجادات اور جدید اکتشافات کے اشارات وتلمیحات سے بھرا ایک گنجلک گوشوارہ ہے۔اس بدنیتی اور جذبۂ غلط کے ساتھ جو کتابیں لکھی گئیں اور جنھیں یہ لوگ سائنٹفک تفسیر کا نام دیتے ہیں، ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
جدید دور میں طبع خانوں کی کثرت اور طباعت کی ارزانی اور آسانی کی وجہ سے تفاسیر کی بہت بڑی تعداد چھپ رہی ہے۔ان میں وہ قدیم تفاسیر بھی آتی ہیں جو کمیاب یا نایاب تھیں اور وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جنھیں گمراہ فرقوں نے کسی وقت لکھا تھا اور مرورِ زمانہ کے ساتھ وہ ہر غیر مفید شے کی مانند دنیا کے اسٹیج سے غائب ہوگئی تھیں۔
نئے دور میں ہر سیاسی ونظریاتی واجتماعی گروہ اپنے خاص نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کر رہا ہے اور اپنی آراء وافکار کی تائید وترویج کے لیے قرآن کو تختۂ مشق بنا رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ قدیم وجدید تفسیری ذخائر ومراجع کا باہم موازنہ ومقارنہ کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کتنا کچھ نیا ہے اور کتنا کچھ وہ ہے جو نئے قالب واسلوب میں ڈھال کر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ حقیقتاً وہ فرسودہ اور ازکارِ رفتہ ہے۔
تفسیری آراء کے سلسلے میں آج حق کا اظہار واعلان سب سے زیادہ ضروری ہے۔عام قارئین کو بتانا ہوگا کہ یہ جدید افکار ونظریات دراصل ماضی میں رونما ہو چکے گمراہ فرقوں اور افراد کا چربہ اور استفراغ ہیں جنھیں نئے زمانے میں نام ونمود کے رسیا اور دنیاوی مفادات کے بھوکے کچھ ضمیر فروش لوگ اپنی ذاتی فکر اور نجی تحقیق کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔
تیرہویں صدی ہجری کے خاتمے کے بعد سے لوگوں نے قرآنی تفسیر کے تناظر میں مختلف راستے اور نئے طریقے اختیار کیے۔ایسے خطوط پر سوچا گیا اور طبع آزمائی کی گئی ہے جو پہلے کسی کے سان وگمان میں بھی نہیں آتے تھے۔کوئی اپنے طریقۂ تفسیر کو عصری حسیت کا علم بردار کہتا ہے، کوئی ادبی وبلاغی طرزِ تفسیر کانام دے رہا ہے اور کسی کو سائنٹفک تفسیر کی چاٹ لگی ہوئی ہے اور کچھ لوگوں نے موضوعاتی تفسیر کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔
ایک گروہ وہ بھی ہے جو قرآن کو اس کے نزول کی ترتیب کے حساب سے پڑھنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے۔اس گروہ کے نزدیک آج ضرورت اس بات کی ہے کہ چند بنیادی قرآنی اصولوں کو سامنے رکھ کر امت مسلمہ کی فکری تشکیلِ نو کا بیڑہ اٹھایا جائے۔ ان کے مزعومہ قرآنی اصولوں کا زمانۂ نزول مکہ کا ابتدائی دور تھا۔ لہٰذا مکہ کے آخری دور اور مکمل مدنی دور میں نازل شدہ معین اورمخصوص قرآنی احکامات اور ان کی محمدی تشریح وتعمیل، نیز بعد کے ادوار میں ان سے مستنبط فقہی وکلامی تفصیل کو ان آفاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے گا۔ ان اصولوں پر مشتمل قرآنی آیات کو اصل (Primery Verses) اور دیگر آیات کو ضمنی (Subsidiary Verses) قرار دیا جاتا ہے۔ مشہور ومعروف سیکولر مفکر ’’محمودمحمد طہ‘‘ ( 1909-85 ) کے نظریۂ نسخِ معکوس (Reverse Abrogation) میں اس میتھڈلوجی کا کم وبیش سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ (Towards an Islamic Reformation: Civil Libarties, Human Rights and International Laws :Ahmad Abdullah An Naim)
محمود طہ کے نظریۂ نسخِ معکوس کا لفظی مفہوم قرآن کو الٹا پڑھنا ہے۔ اس نظریے کے مطابق قرآن نے وحی کے ابتدائی دور میں کچھ بنیادی اصول پیش کیے تھے، آگے چل کر ان کا عملی اظہار معاشرے کے قیام کی صورت میں سامنے آیا اور پھر اسی عملی اظہار کو سنتِ رسولﷺ مان کر تاریخ کے تمام ادوار میں ان اصولوں کی تشریح و ترجمانی کی جاتی رہی۔ موجودہ دورِ ترقی میں اس بات کا شدید تقاضا ہے کہ ان ابتدائی قرآنی اصولوں کے تمام تر تاریخی اظہارات وتطبیقات کو -بہ شمولِ عہد ِ نبوی و دور ِ خلفائے راشدینؓ- بالائے طاق رکھ کران کی از سرِ نو تعبیر وتشریح کی جائے۔
محمود طہ کے الفاظ میں ’’ ہم الفاظ ومتون سے گزر کر حکمت و مقصد سے بحث کرتے ہیں۔ اگر ساتویں صدی عیسوی میں کسی ضمنی آیت کی روشنی میں کچھ اصولی اوربنیادی آیات کو منسوخ قرار دیا گیا تھا تو اس دور کے لوگوں کا یہ عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے، کیوں کہ بیسویں صدی کے عصرِ نو میں ضمنی آیات کی حیثیت اصولی آیات کے بالمقابل نالائقِ اعتبارہوگئی ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیاہے کہ اصولی آیات کو ضمنی آیات پر ہر پہلو سے فوقیت اورترجیح دی جائے،کیوں کہ یہی وہ راستہ اور طریقہ جس کے ذریعے سے قرآن کی اصولی آیات کو موجودہ دور میں قابل عمل بنایا جاسکتاہے اور ایک نئے تشریعی دستور العمل کا خاکہ تیار ہوسکتاہے۔شرعی ارتقاء یا دینی ترقی سے ہماری منزلِ مراد یہی ہے‘‘۔[We consider the rationale beyond the text. If a subsidiary verse which used to overrule a primary verse in the seventh century, has served its purpose completly and become irrelevant for the new era, the twenieth century, then the time has come for it to be abrogated and for the primary verse to be enacted again. in this way, the primary verse has its turn as the operative text in the twentieth century and becomes the basis of the new legislation. this is what the evolution of shariah means for us.]
بہرحال یہ بھانت بھانت کے طرق واسالیب ہیں جن کے مطابق تفسیریں لکھی جارہی ہیں۔ آئے دن فہمِ قرآن، تفسیرِ قرآن اور رجوع الی القرآن جیسے خوشنما نعروں کے ساتھ امت کے نوجوانوں کے لیے انحرافات اور ضلالتوں کا متنجن پروسا جارہا ہے۔ بنابریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تفسیری ذخیرے کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور عام قارئین کو بتایا جائے کہ اس کا کتنا حصہ متفق علیہ تفسیری نہج کے مطابق ہے اور اس لیے لائقِ استفادہ ہے، اور کتنا حصہ ہے جو اسلافِ صالحین کے فہمِ دین سے بےگانہ اور منہجِ اہلِ سنت والجماعت کے مخالف ومعارض ہے۔
ایسے ہی جدید مفسرین میں ایک قابلِ لحاظ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس میدان کے شہسوار اور اس فن کے ماہر اور مسند پر بیٹھنے کے اہل بالکل نہ تھے۔ لہٰذا ان کی تفسیری نگارشات ومضامین میں بگاڑ کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ایسا ہر شخص خود کو عقلِ کُل سمجھتا ہے اور مجتہدِ مطلق ہونے کے رومانوی تصور میں جیتا ہے اور ہر دینی معاملے میں اجتہاد وتجدید کی دعوت دے رہا ہے، وہی بے مہار اور بگڑیل دعوت جو کسی قاعدے اور ضابطے کی پابند اور کسی ایک دائرے میں محدود نہ ہو۔ ہم سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قرآنی آیات سے ایسے معانی ومفاہیم نکالے جارہے ہیں جو ان سے ہرگز نہیں نکلتے اور جنھیں اگر درست مان لیا جائے تو قرآن کے نزول کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ دینی حقائق ومسلّمات جنھیں پوری امت چودہ سو سال سے جانتی اور مانتی آئی ہے، ایک ایک کرکے اُن سبھی کا انکار کیا جارہا ہے۔ ایسے نام نہاد مفسرین کی کاوشوں کے نتیجے میں اسلام کا صاف شفاف چہرہ بدنما ہوگیا ہے اورشریعت کے اولین مأخذ یعنی قرآنِ کریم کی حقانیت وصداقت پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ ان تفاسیر کا جائزہ لے کر عام مسلمانوں کو ان کے دجل وفریب اور زیغ وضلال سے باخبر کیا جائے۔
راقم السطور پر اللہ رب العالمین کا احسان وانعام ہے کہ اس نے قلمی زندگی کی ابتداء سے ہی اپنی کتابِ مبین سے جوڑ دیا۔ قدیم وجدید تفسیری سرمائے کی تنقید وتمحیص کے حوالے سے خاکسار راقم الحروف کی تین کتابیں[۱] ’’تفسیروں میں اسرائیلیات، تفسیرِ طبری کے خصوصی مطالعے کے ساتھ‘‘،[۲] ’’تفسیرِ قرآن کے غلط طریقے‘‘ اور[۳] ’’تفسیروں میں انحراف کی شکلیں‘‘(دو حصے) طبع ہو چکی ہیں۔اسی سلسلے کی اگلی کڑی یہ کتاب ہے۔
اس کتاب میں بعض ایسے مفسرین کی تفاسیر کا جائزہ لیا گیا ہے جنھیں نادانی میں یا غلطی سے جدید اسلامی بیداری کا نقیب اور ملتِ اسلامیہ کا مصلح وبہی خواہ تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ محمد عبدہ اور محمد رشید رضا کی تفسیر ’’المنار‘‘، طنطاوی جوہری کی تفسیر’’جواہر القرآن‘‘،محمد عزت دروزہ کی تفسیر مسمیٰ بہ ’’التفسیر الحدیث‘‘، عبدالکریم محمود الخطیب کی تفسیر ’’التفسیر القرآنی للقرآن‘‘،علی نصوح الطاہر کی تفسیر ’’القرآن الکریم کما أفہمہ‘‘ ، محمد احمد خلف اللہ کی کتاب “الفن القصصی فی القرآن الکریم”، زکریا کمال کی جزوی تفسیر “الجدید فی بعض آیات القرآن”، مصطفی محمود کی تفسیر”التفسیر العصری للقرآن الکریم”وغیرہ کا گہرائی سے اگر جائزہ لیا جائے تو آدمی انحراف کی کمیت وکیفیت دیکھ کرحیران وششدر رہ جاتا ہے۔
عقیدے کے حوالے سے بات کی جائے تو ان لوگوں نے ہر جگہ محسوسات ومادیات پر اپنے ایمان کا اظہار واعلان کیا ہے اور غیبی حقائق واخبار کی رکیک تاویلات کر دی ہیں۔چنانچہ فرشتے ان کے نزدیک فطرت کی طاقتیں یا قوانینِ قدرت کے مظاہر کا نام ہے،یا انسان کے اندر ابھرنے والے نیک جذبات وخیالات کو ملائکہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کے مطابق شیاطین سے مراد نفسِ بشری کے اندر ابھرنے والے برے جذبات اور ارادے ہیں۔جنت اور دوزخ کے بارے میں ان میں سے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں مخصوص جگہیں نہیں ہیں، بلکہ اسی دنیا میں انسان پر طاری ہونے والی دو نفسیاتی اور وجدانی حالتیں ہیں۔بعث بعد الموت کا مطلب مرنے کے بعد جی اٹھنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے قوموں کا سامراجی طاقتوں سے آزادی حاصل کر لینا، بیدار ہونا اور ترقی کرنا۔حضرت آدمؑ کو جس شجرۂ خلد کا پھل چکھنے سے روکا گیا تھا وہ حقیقتاً کوئی درخت نہ تھا،بلکہ اس سے مراد جنسی ملاپ ہے۔
اس گروہ کے مفسروں نے انبیاء کے ظاہری اور محسوس معجزات کا تاویل نما انکار کر دیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ قانونِ قدرت کے نام پر نیچر کی اندھی طاقتوں کو پوجتے ہیں اور ایمان بالغیب یا خرقِ عادت اور مخالفتِ قانونِ قدرت کو کبھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔عصائے موسیٰ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد دلیل وبرہان ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اذنِ خداوندی سے میت کو زندہ کردینے کا مطلب اسے ایمان کی دعوت دے کر کفر سے نکالنا ہے۔
ان میں سے بعض ملحدوں نے صاف صاف ثنویت (Duality)یعنی دو خدائوں کے تصور پر مبنی مجوسی پارسی عقیدے کی ثناخوانی اور مدح سرائی کی۔ ان جاہلوں کے بہ قول اس عقیدے نے دنیا میں خیر وشر کے وجود کا عقدہ کھول دیا ہے۔ بغیر کسی شرم وحیا اور ہچکچاہٹ کے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں غیر حقیقی قصے اور افسانوی باتیں پائی جاتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ -ان کے نزدیک- یہ ہے کہ قرآنِ مجید عربوں کے تخیلات وتصورات اور ان کے قومی توہمات واساطیر کے مطابق نازل ہوا ہے۔ اس میں یہ لحاظ نہیں کیا گیا کہ کونسی بات واقعتا سچ ہے اور مطابقِ واقعہ ہے۔
ان میں سے بعض لوگوں نے یہاں تک کہہ دیاکہ مسلمانوں کے انحطاط وزوال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ عقیدۂ توحید سے چمٹے ہوئے ہیں اور فقہ کا نام دے کر شریعت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔انھوں نے عام مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ اگر تم متحد ہونا چاہتے ہو تو قدیم عقائد وشرائع کا بوجھ اپنے سروں سے اتار پھینکو اور صرف مادی وسائنسی علوم وفنون کو مقدس ومحترم سمجھ کر گلے لگالو کیونکہ اس کے بغیر ملت کے اتحاد واتفاق کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
انہی میں سے کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر مسلمان رمضان المبارک میں میں ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلادے تو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، چاہے اسے کوئی بیماری یا عذرِ شرعی نہ ہو۔ کچھ لوگوں نے لاٹری کھیلنے اور سٹّہ لگانے کی وکالت وحمایت کی ہے۔کچھ کا کہنا ہے کہ مردہ جانور اور خنزیر کی حرمت گندگی کی وجہ سے تھی۔ اگر مردار اور خنزیر کے گوشت کو اچھی طرح صاف کر لیا جائے اور عمدگی سے پکایا جائے تو مضرت ختم ہوجاتی ہے اور نتیجتاً حرمت کا حکم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔کچھ نے کہا ہے کہ مسلمان لڑکی غیر مسلم کتابی مرد سے شادی کر سکتی ہے۔ بعد ازاں ان لوگوں نے اہلِ کتاب کا دائرہ اس قدر وسیع کر دیا کہ ہندو، پارسی، جینی، بدھسٹ وغیرہ سب اس میں آجاتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر مسلمان لڑکی ہر غیر مسلم لڑکے سے شادی کر سکتی ہے۔
شادی شدہ مرد وعورت زنا کریں تو ان کی سزا شریعت نے رجم طے کی ہے۔ مگر کچھ ایمان فروشوں کو اس سزا میں وحشت وبربریت دکھائی دیتی ہے، چنانچہ انھوں نے سزائے رجم کا انکار کیا اور زنا کی سزا سو کوڑے تجویز کی، اور یہ سزا بھی صرف ان ملزموں کو دیے جانے کی وکالت کی جو عادی مجرم ہوں، ورنہ ایک یا دو بار زنا کر لینے والے مرد وعورت کو صرف سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا جائے گا۔ چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا شریعت نے جاری کی ہے، مگر ان لوگوں نے اس سزا کو حدِ شرعی ماننے کے بجائے ایک تعزیری سزا یعنی محض ایک تادیبی کارروائی قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چوری کی سزا حاکمِ وقت کے اختیار میں ہے، اگر وہ چاہے تو بس دو چار ڈنڈے مار کر چھوڑ سکتا ہے اور چاہے تو کچھ اور سزا دے سکتا ہے۔تاہم اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا یہ ہوگی کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ مگر یہ سزا ہر چور کو نہیں ملے گی۔ ضروری ہے کہ عادی چوروں کو ہی اس کا مصداق اور مستحق سمجھا جائے۔ ورنہ ایک دو بار چوری کرنے والے شخص کو حاکمِ وقت اگرچاہے بھی تو قطعِ ید کی سزا نہیں دے سکتا ہے۔
بہرحال یہ سب ان لوگوں کے انحرافات ہیں جنھیں یہ لوگ اپنی خوش فہمی میں عصری آگہی، زمانہ شناسی،حالات کی رعایت اور جدید اجتہاد وبصیرت کا نام دیتے ہیں۔ان گمراہیوں کو دیکھ کر سچے اہلِ ایمان کے بدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عام مسلمانوں کو ان شیطان صفت لوگوں کے شر سے ہوشیار اورخبردار کیا جائے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آج تفسیر کا میدان ہر اس شخص کی جولان گاہ بنا ہوا ہے جو دین کے نام پر مغربی مادی افکار ونظریات کو مسلمانوں میں عام کرنا چاہتا ہے اور دین وشریعت میں ایسی چیزیں بڑھانے کا آرزو مند ہے جن کی سند اور دلیل اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے نہیں ملتی۔ یہ سب وہ بدلیاں اور گھٹائیں ہیں جنھوں نے اسلام کے رخِ زیبا پر تاریک پردے ڈال دیے ہیں۔ اگر ان تمام انحرافات کو یکجا کیا جائے توایک بالکل نیا مذہب اور دھرم کھڑا ہو سکتا ہے جو اپنی کسی بھی ادا اور پہلو سے دینِ اسلام سے مشابہت ومماثلت نہیں رکھتا ہوگا۔
جدید دور کے ان مفسروں کے بارے میں الگ الگ باتیں کہی گئی ہیں اور معاملہ تعارض وتناقض کی حد تک پہنچ گیا ہے۔بعض لوگ انھیں میدانِ تفسیر کے شہسوار اور مجدّدینِ ملت باور کرتے ہیں اور بعض لوگ انھیں درپردہ دشمنانِ دین اور مفسدین فی الارض سمجھتے ہیں۔اس کنفیوژن کو دیکھتے ہوئے عام مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس سلسلے میں حقیقت واضح کردی جائے۔
قرآنی تفسیر کا علم معزز ترین علم ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا موضوع اور مضمون تمام تر وحیِ الٰہی اور قرآن مجید ہے اور قیامت تک اس علم کی ضرورت واہمیت باقی رہے گی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دنیا وآخرت میں ہماری کامیابی کی کلید ہے۔آج اس میدان میں بہت کچھ رطب ویابس در آیا ہے، اس لیے ایک مطلوبہ کام یہ ہے کہ اس سلسلے میں حق وباطل کا فرق واضح کر دیا جائے۔ آویزش کو اصل سے اور پانی کو دودھ سے الگ کیا جائے۔
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس دائرے میں قرآنی معانی ومفہومات، قرآن کی نبوی تبیین وتشریح اور اس کے حروف والفاظ اور ترتیب کی حفاظت بھی ازخود شامل ہے۔اس لیے تفسیر کے نام پر ہونے والے اس مذاق کے بارے میں یہ گمان تو ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے کتابِ الٰہی پر کوئی آنچ آئے گی۔ اس کے باوجود ہر دور کے اہلِ علم نے اپنی دینی وایمانی ذمے داری سمجھتے ہوئے اس موضوع پرقلم اٹھایا ہے۔ اسی حوالے سے ایک سادہ سی کوشش یہ کتاب ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔