Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Turkey Ki Islami Tehreek – ترکی کی اسلامی تحریک: ایک تجزیاتی مطالعہ

Ardugan

Turkey Ki Islami Tehreek – ترکی کی اسلامی تحریک: ایک تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹرعنایت اللہ وانی ندوی 

ترکی مختلف اعتبارات سے متمدن دنیا میں امتیازی شان رکھتا ہے، جغرافیائی اعتبار سے یہ ایشیاء اور یورپ کے مرکز اور دونوں کے درمیان پُل کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا جنوب مغربی حصہ ایشیاء میں اور جنوب مشرقی حصہ یورپ میں داخل ہے، یہ چھ سو سال تک اسلامی سلطنت کا پایہ تخت اور خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا ہے،چھہ صدیوں سے زائد عرصہ تک اسلام کے محافظ رہنے والے اس ملک کو عالمی سازش کے تحت یک لخت اسلام سے بے گانہ کردیا گیا، ۲۹؍اکتوبر ۱۹۲۳ء کو جدید ترکی کے بانی قوم پرست اسلام مخالف مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے سیکولر حکومت کا اعلان کردیا، یوں صدیوں عالم اسلام کی قیادت کرنے والی ریاست اپنی مسلم شناخت سے یک لخت محروم ہوگئی، اسلامی قوانین کو سیکولر قوانین میں تبدیل کردیا گیا، سرکاری اداروں میں اللہ اور رسول کا ذکر سیکولر آئین کے ساتھ بغاوت شمار کیا جانے لگا، جذبۂ قومیت کو ابھارا گیا، اسکولوں کے تعلیمی نصاب سے عربی رسم الخط کو مٹا کر لا طینی رسم الخط رائج کیا، مدارس پر پابندی لگادی، قرآن کا پڑھنا اور تعلیم دینا جرم قرار دیا،مسجدوں میں تالے لگا کر عربی میں اذان تک ممنوع قرار دی اور یورپ سے ہم آہنگ ہونے کیلئے فحاشیت، عریانیت اور رقص وسرور کے ادارے اور شراب خانے قائم کئے،عورتوں کیلئے پردہ ممنوع قراردیا، مذہب سے نفرت کو عین سیکولرازم قراردیا، اسلامی کیلنڈر کا بھی خاتمہ کیا، اسلام کے عائلی قوانین کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ سوئیس قوانین کو آئین کا حصہ بنایا گیا، تعدد ازدواج بھی ممنوع قرار دیا، فتح قسطنطنیہ اور اسلامی آثار کی سب سے اہم نشانی ’’ایا صوفیہ‘‘ کو مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کردیا، اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر نشانی کو مٹا کر ترکی کو مشرق سے کاٹ کر مغرب کا حصہ بنادیا، اسلام کا حلیہ بگاڑ کر ترک مسلمانوں کو صدیوں پر محیط ان کے عظیم دینی،علمی، تاریخی،ادبی وثقافتی ہر قسم کے فکر اسلامی کے عکاس ورثہ سے محروم کردیا، بقول علامہ اقبالؒ :
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

لیکن قانون الٰہی کے تحت ہر عروج کے بعد زوال یقینی ہے، ۱۹۶۹ء میں جب ترکی نے عالم اسلام کے ازلی دشمن اور اس کے قلب میں واقع نام نہاد صہیونی ریاست ’اسرائیل‘ کو تسلیم کرلیا تو ترکی عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا انہوں نے ۱۹۵۰ء کے الیکشن میں ترکی کے اعتدال پسند رہنما عدنان مندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کرلیا، انہوں نے آتے ہی نہ صرف مساجد اور مدارس کے دروازے کھول دئے بلکہ عوام کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے ۱۹۵۹ء میں اسلام کو ایک بار پھر ترکی کا سرکاری مذہب قرار دیا،ترکی میں حسن البناء شہیدؒ کے فکری وارث، انقلابی فکر کے حامل اسلام پسند ترک مرد مجاہد پروفیسر نجم الدین اربکانؒ (پیدائش: ۲۹؍اکتوبر ۱۹۲۶ء وفات: ۲۷؍فروری ۲۰۱۱)نے ان اصلاحات کا بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۹؍ جنوری ۱۹۷۰ء کو ’ملی دفاع پارٹی‘ کی بنیاد رکھی، لیکن پارٹی کے اسلام پسند نظریات کی وجہ سے عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دیا، پابندی کے باوجود اربکان کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں ایک دوسری سیاسی پارٹی ’ملی سلامت پارٹی ‘کے نام سے بنائی اور ۱۹۷۳ء کے الیکشن میں ۱۷۴؍ ارکان کے ساتھ مخلوط حکومت میں نائب وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

اپنے دورِ اقتدار میں نجم الدین اربکان نے اسلامی بیداری مہم کے حوالے سے کافی کام کیا، مساجد اور مدارس میں اسلامی تعلیمات کے تعلق سے قانون سازی کی، خصوصا فوجی اداروں میں اسلامی تعلیم کو لازمی قرار دینا ان کا اہم ترین کارنامہ تھا، لیکن فوج کو یہ بات پسند نہیں آئی اس لئے اقتدار پر قبضہ کر کے’’ملی سلامت پارٹی‘‘ سمیت تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی جو ۱۶؍جولائی ۱۹۸۳ء تک برقرار رہی،تین سال بعد عوام نے پھر سے اربکان کی پارٹی کو اسلامی جذبہ کے ساتھ کامیاب کیااور ۱۹۹۶ء تک وہ ۱۵۳؍ارکان اسمبلی کے ساتھ ترکی کے وزیر اعظم بن گئے،مگر فوج نے ایک بار پھر اربکان کو ایک اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں اقتدار سے معزول کردیا، البتہ فوج کے مسلسل جبر کے ردعمل میں اسلام پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔
اسی دوران اربکان کے ایک دست راست اور موجودہ صدررجب طیب اردگان استنبول کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے،وہ محنت، ایمانداری، خلوص اورصلاح و صلاحیت کی وجہ سے عوام میں معروف ومقبول ہوچکے تھے اور عوام ان کی ذات میں اپنا مستقبل دیکھ رہی تھی، لیکن انہیں بھی ۱۹۹۷ء میں ایک اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں جیل جانا پڑا،سخت عوامی احتجاج کی بنیاد پر حکومت کو مجبورا انہیں رہا کرنا پڑا۔

باطل پرست طاقتوں کی جانب سے ہر ممکن کوشش اور ہر طرح کی منصوبہ بندی کے باوصف ترکی میں اتاترک کی مغربی تہذیب کے احیاء کا منصوبہ اللہ کے فضل سے ناکام ہوچکا ہے، اور اربکان نے جس اسلامی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی اردگان کی قیادت میں ترک عوام اس تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانے میں گامزن ہے،مختلف الیکشنوں میں عوام نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو بھر پور مینڈیٹ دے کر بھاری اکثریت سے اس کے اردگان کو اسمبلی میں پہنچادیا اور پہلی بارترکی کی تاریخ میں ملک کے وزیر اعظم اور صدر دونوں ایک اسلام پسند جماعت سے منتخب ہوئے۔

مخالف طاقتوں نے ہر محاذ پر اسلامی طاقت کو کچلنے اور دبانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسلام پسند نجم الدین اربکان کو پانچ مرتبہ مختلف ناموں سے نئی پارٹیاں بنانی پڑیں، یہ اربکان ہی کا حوصلہ وہمت تھی کہ بار بار کی پابندی اور قید وبندکے باوجود صبر کے پہاڑ بنے رہے،آشیانہ بار بار جلتا رہا مگر وہ ہر بار تنکا تنکا جمع کر کے نیاآشیانہ بناتے رہے،نجم الدین اربکان نے جو راستہ کھول دیا تھا لاکھ کوششوں کے باوجود نہ کوئی فوج اور نہ کوئی دوسری اندرونی وبیرونی طاقت اس کو بند کرسکی۔

ترکی کے موجودہ وزیر اعظم رجب طیب اردگان ،نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ اور دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں، اسلامی غیرت وحمیت سے معمور ہیں، خود بھی دینی وفکری اعتبار سے کافی مضبوط ہیں اور پورے ملک میں تعلیمی،تربیتی ، سیاسی اور فکری تمام میدانوں میں اسلامی بنیادوں پر کافی کام کر رہے ہیں ، ترک عوام کی اکثریت اسلامی اعتبار سے نہایت بیدار اور اسلام کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے، دینداری اور تدین میں بھی اور ڈسپلن میں بھی یہ قوم اپنی مثال آپ ہے، گزشتہ سال فوجی بغاوت کو کچلنے میں عوام نے جس جوانمردی اور بے خوفی کا ثبوت دیا ہے دنیا کی پوری تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ترکی میں اسلام پسندوں کو کس قدر عوامی حمایت حاصل ہے اور دینی بیداری پیدا کرنے میں وہاں کے اسلام پسندوں نے کس قدر کام کیا ہے۔

اپنے دور اقتدار میں اردگان نے جو سخت فیصلے لئے ہیں ان کے ان جرأت مندانہ اقدامات سے اسلام مخالف طاقتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے خصوصا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ مزاحمت کے کردار نے انہیں ممتاز اسلامی قائد کی حیثیت سے معروف کردیا ہے، جب سے ترکی نے اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہیں خاص طور پر یورپی یونین میں شمولیت کی بھیک مانگنے کے بجائے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، یاخلیجی بحران میں قطر کی حمایت کررہا ہے، فلسطین،مصر،شام،عراق،لیبیا، تیونس اور دیگر مسلم ممالک کے اسلام پسندوں کی مکمل پشت پناہی اور ان کو پناہ دینے کے اقدامات کئے ہیں،ایک مسلمان مرد مجاہد کی طرح اردگان نے فریڈم فلوٹیلا کے معاملہ پر اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا مطیع الرحمن (شہید) کو پھانسی دینے پر اپنے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا،مغربی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دینی غیرت وحمیت کا ثبوت دیا، برما کے درماندہ مظلوموں کا تعاون اور اس طرح کے بہت سے کام جن سے اسلامی اور انسانی جذبہ کی عکاسی ہوتی ہے، اس سے عالم اسلام میں ترکی اور اردگان کی اہمیت ومقبولیت بڑھتی ہی جارہی ہے، ماضی میں عالم اسلام کا مرکز رہنے والا یہ ملک پھر سے اسلامی قوت بن کر ابھر رہا ہے،اردگان اور ان کے اعوان وانصار کی مسلسل کامیابیاں اس کی غماز ہیں کہ ترک عوام اسلامی اقدار کا ازسر نو احیاء چاہتے ہیں،اور وہ دن دور نہیں کہ جب پھر سے خلافت عثمانیہ کی یاد تازہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *