مہراج گنج قصبہ ضلع گورکھپور کی ایک قدیم آبادی ہے ، یہ آزادی کے بعد سے اس کی ایک تحصیل کے طور پر معروف تھا ،٢/اکتوبر ١٩٨٩ء کویہ خود مستقل ایک ضلع بن گیا ۔علمی طور پر قدرے پسماندہ ہونے کے باوجود اس علاقہ اور خطہ میں بھی اہل علم وصاحبان فضل وکمال کی ایک بڑی تعداد گزری ہے، لیکن مورخین اور تذکرہ نویسوں کے عدم توجہ کی وجہ سے ان کے حالات وکارنامے ابھی تک پردۂ خفا میں تھے ، اب تک اس خطہ کی کوئی مستقل تاریخ یا یہاں کے علماء کا کوئی تذکرہ نہیں لکھا گیا ، تاریخ گورکھپور میں متفرق طور پر یہاں کا ذکر ملتا ہے۔یہاں کے اہل علم عرصہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کررہے تھے کہ ضلع مہراج گنج کی مبسوط تاریخ اور یہاں کے علماء کے تفصیلی حالات لکھے جائیں، لیکن کام مشکل تھا ، اس کے لئے قدیم اردو وفارسی اورہندی وانگلش کتابوں کی ورق گردانی اور تلاش وتحقیق کی ضرورت تھی، جس کے لئے سخت محنت اور جانفشانی درکار تھی، شاید اسی لئے اب تک کسی نے اس کی ہمت نہیں کی، لیکن منجانب اﷲ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، جب اﷲ کو یہ منظور ہوا کہ اس ضلع کی تاریخ اور یہاں کے علماء کا تذکرہ لکھا جائے تو اس نے یہاں کے ایک جواں سال وجواں ہمت فاضل اور صاحب قلم عالم مولانا ابن حسن قاسمی کے دل میں اس کا داعیہ پیدا کیا ۔
مولانا ابن حسن ایک ذہین، محنتی اور علمی ذوق رکھنے والے نوجوان ہیں،شیخوپور میں انھوں سے مجھ سے پڑھا ہے،اسی وقت سے قرطاس وقلم سے ان کا گہرا تعلق ہے۔شیخوپور سے وہ دیوبند گئے، وہیں سے فضیلت کی تکمیل کی، اس وقت مدرسہ بیت العلوم سرائمیر میں ہیں ۔کتاب کے بیک کور پر ان کا مختصر تعارف موجود ہے۔
کچھ عرصہ قبل انھوں نے کمر ہمت کسی اوراپنے ضلع کی تاریخ اور یہاں کے علماء کا تذکرہ لکھنا شروع کیا،اور تقریباً سال بھر میں اسے مکمل بھی کرلیا، اس سے ان کی جفاکشی اور محنت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اس کی تکمیل کے لئے انھوں نے نہ جانے کتنے در کی خاک چھانی ہوگی اور کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہوگی، اس لئے کہ کسی چیز کے نقش اول کے لئے غیرمعمولی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
کتاب تقریباً ساڑھے تین سوصفحات پر مشتمل ہے ، فہرست وتقریظات کے بعدپچاس صفحات پر ضلع مہراج گنج کی تاریخ بیان کی گئی جس میں قبل مسیح سے لے کر اب تک کے احوال اجمال کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ،جنھیں پڑھ کرڈھائی ہزار سال کی اجمالی تاریخ نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔اس کے بعد ١٤١ علماء کرام کا تذکرہ ہے ، ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی وفات پر ایک صدی یا اس سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے ، ظاہر ہے کہ ان کے حالات کی تلاش میں کافی دقتیں پیش آئی ہوں گی۔ اس کتاب میں صرف ان علماء کا تذکرہ ہے جو وفات پاچکے ہیں ، میرا خیال ہے کہ ان علماء کو بھی اس میں شامل کرلینا چاہئے تھا، جو ابھی بقید حیات ہیں ، اس سے آئندہ کام کرنے والے کے لئے بڑی سہولت ہوگی۔ موجود فضلاء کا کم ازکم نام ، ولدیت، سن ولادت اور سن فراغت توآئندہ اشاعت میں درج کرہی دیناچاہئے ۔
مولانا ابن الحسن نے ایک عمدہ کام یہ کیا کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران ان کو گورکھپور کی تاریخ پر لکھا گیا ایک فارسی رسالہ ” تاریخ معظم آباد معروف بہ گورکھپور ” ملا ۔ یہ آج سے تقریباً سوادو سو سال پہلے کی تصنیف ہے اور گورکھپور سے متعلق بڑی اہم معلومات اس میں ہیں، موصوف نے اردو میں اس کا ترجمہ کرکے تصحیح وحواشی کے ساتھ اسے کتاب کے اخیر میں شامل کردیا ہے، یہ رسالہ پچیس صفات پر مشتمل ہے۔ مولاناابن حسن قاسمی اس علمی خدمت پرتمام اہل علم کی جانب سے شکرئیے کے مستحق ہیں ،رب کریم ان کو مزید خدمات علمیہ کی توفیق بخشے۔
ضیاء الحق خیرآبادی