دنیائے تصوف میں شیخ علاء الدین علی بن حسام متقی برہان پوری (۸۸۸۔ ۹۷۵ہجری) شہرہ آفاق ہیں جن کی عربی تالیفات و تصنیفات کم و بیش سو (۱۰۰) سے زیادہ ہیں۔ جس کی تصحیح اور اشاعت بھی ہوئی ہے۔ جستہ جستہ مطالعات کے علاوہ خاکسار کی برہان پورسے باقاعدہ شناسائی، رسالہ ’تحقیق‘ ( سندھ یونیورسٹی، جام شورو، پاکستان) کے شمارہ ۳، سن ۱۹۸۹ء سے ہوئی جس میں یہ مضمون شامل تھا: ’’فہرست مخطوطات ذخیرہ مطیع اللہ راشد برہان پوری مرحوم ۔ نظرثانی: محمدشفیع بروہی‘‘ ۔ اس کے بعد خاکسار کو مزید تلاش رہی۔ پھرمعلوم ہوا کہ راشد برہان پوری(۱۸۹۵ء۔ ۱۹۶۰ء) کی گران قدر تالیف’برہان پور کے سندھی اولیاء المعروف بہ تذکرہ اولیائے سندھ‘میں کئی اہم اور نادر فارسی رسائل، تحریریں اور اشعار شامل ہیں۔(پہلی اشاعت ۱۹۵۷ء۔ تیسری اشاعت مع تعلیقات : ۲۰۰۶ء)
گذشتہ سال خاکسار کو، اپنے مطالعات کے دوران نیٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک کتاب ’برہان پو ر کے اہم کتبات‘ (مرتب: اسرار انصاری، ۲۰۱۶ء) کے نام سے شائع ہوئی ہے۔حُسن ِ اتفاق سے جس لینک میں یہ خوشخبری درج کی گئی تھی اس میں ارسال کنندہ خبر محترم تنویر رضابرکاتی صاحب کا رابطہ نمبر بھی شامل تھا۔ شدتِ اشتیاق سے خاکسار نے مذکورہ نمبر پر ایک پیغام ارسال کیا اور ان سے کتاب کے مشمولات کی گزارش کی۔ کچھ دن کے بعدہی موصوف کی عنایت سے مکمل کتاب خاکسار کو حاصل ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے یہ اطلاع دی کہ ان کا ارادہ ہے کہ آئندہ بہ اہتمام خان خاناں پر، ایک بین الاقوامی سمینار کرایاجائے۔ ان کے اس پُرجوش ارادہ نے خاکسار کو یاد دلائی کہ تہران یونیورسٹی میں ایک پاکستانی اسکالر نے حضرت خواجہ ہاشم کشمی بدخشانی ثم برہان پوری (قریباً ۱۰۰۰۔ ۱۰۴۵ہجری) کے مشہور فارسی تذکرہ کی تصحیح کی ہے۔ ہماری ایچ ای سی کی ایک اختصاصی وئب سائٹ پر ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی پی ڈی ایف فری میں دست یاب ہیں۔محترم تنویر رضا برکاتی کی نیک نیتی سے پی ڈی ایف فوراً مل گئی اور عین وقت خاکسار نے ان کو ارسال کردی۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ، ’’تصحیح نَسَمات القُدس مِن حَدائق الاُنس‘‘ ۔اسکالر: منیر جہاں ملک، استاد نگراں: ڈاکٹر محسن ابوالقاسمی،سن :۱۹۹۶ء۔(یہ غیر مطبوعہ مقالہ ہے)
محترم تنویر رضا برکاتی کی مسلسل کرم فرمائیاں موصول ہوتی رہیں ۔ان کی ارسال شدہ عنایتیں جہاں ان کی علم دوستی کی پہچان ہے وہیں اپنی دھرتی سے محبت کا ثبوت بھی ہے۔ ہر وقت برہان پور کی تاریخ اور ادب سے متعلق قدیم و جدید کتابوں اور مضامین سے آگاہ کرنا اور ساتھ ساتھ آگاہ رہنا اور استفسار کرتے رہناان کے ذوق کا اہم حصہ ہے۔
انہی کی عنایتی کتابوں میں جاوید انصاری مرحوم (۱۹۱۵ء۔۱۹۹۳ء)کی تالیفات بھی شامل تھیں اور ان کے مطالعہ کرنے میں خاکسار کو بہت دکھ ہورہا تھا کہ ہماری لائبریریاں ان کتابوں سے محروم ہیں۔خاص طورپرجاویدانصاری مرحوم کی تاریخی کتابیںاور مرتبہ تذکرے: ’’ سلک گہر‘‘ (تاریخ ِ اشاعت: ۱۹۴۸ء)جس میں بَرار کے پرانے مولفین اور شاعروںکا تذکرہ ہے۔ ’آثارفاروقیہ‘ جس میں برہان پورکے فاروقی دور کی یادگار عمارتیں ہیں(تاریخ ِ اشاعت: ۱۹۷۹ء)، جامع مسجد برہان پورسے متعلق ’’مسجد گائیڈ‘‘ جس کے سات ایڈیشن شائع ہوئے (ماخوذ دیباچہ جاوید انصاری، آثار فاروقیہ،۱۹۷۹ء) اوربصدافسوس ہمارے ہاں اس کا ایک ایڈیشن بھی نہیں۔ ’’یادگار ِ سَلَف‘‘(تاریخ اشاعت: ۱۹۸۳ء) جس میں برہان پور کے قدیم عربی ، فارسی اور اردو کے مشہور مولفین کے حالات شامل ہیں۔
رواں سال اگست کے مہینے میں محترم تنویر رضا برکاتی صاحب نے کسی کتاب کی پی ڈی ایف مرحمت فرمائی۔ فائل کھولتے ہی خاکسار کو بڑی مسرت ہوئی ۔ جاوید انصاری مرحوم کی ایک اور اہم کتاب: ’’تاریخ زرنگاربرہان پور ؛ ۶۵۰؍ سالہ تاریخی و ادبی منظرنامہ‘‘ اس کتاب کو جاوید انصاری مرحوم کی گذشتہ تالیفات کی تکمیل ِ باکمال کہہ سکتے ہیں جس میں برہان پور (قدیم خاندیس) کے تاریخ ، جغرافی، ادب، علماء، مشائخ، معروف شخصیات، اہم اور مشہور مقامات شامل ہیں۔ ’’تاریخ زرنگار برہان پور‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاوید انصاری مرحوم اپنی پچھلی تالیفات کی ہر وقت نظرثانی میںمصروف اور تازہ تحقیقات اور مواد کے تلاش میں رہتے تھے۔
وقارِعلم ہے برہان پور میں جاویدؔ
ادب نواز ہے یہ دہلی و دکن کی طرح
جاوید انصاری مرحوم نے اپنی خودنوشت میں لکھا تھاکہ ’’بغیراعلیٰ تعلیم اور فارسی زبان سے واقفیت کے کوئی بھی اچھا شاعر نہیں بن سکتا‘‘ (نقش دوام ، ص ۲۰)۔ چناں چہ انھوں نے اپنی دیگر تحقیقا ت کی طرح ’’تاریخ زرنگاربرہان پور ‘‘ میں بھی بنیادی فارسی مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ ان کا یہ مسوّدہ ۱۹۸۴ء میں مکمل ہوا تھا جبکہ اس دور میں انہی فارسی مآخذ، مخطوطات کی شکل میں دستیا ب تھے جن کی اشاعت بھی نہیں ہوسکی تھی ۔مثلاً ’’خزانہ رحمت‘‘ (تالیف ِ شاہ بہاء الدین باجن)اورکچھ لائبریریوں کی فہرست مخطوطات بھی مرتب نہیں ہوئے تھے۔
’’تاریخ زرنگار برہان پور‘‘ میں، شیخ برہان الدین راز الٰہی (۱۰۰۰۔۱۰۸۳ہجری) کے ذیل میں انھوں نے لکھا ہے:’’ ان کی فارسی تالیف’ معروف المحبوب‘ ،حضرت مولانا سید اکرام اللہ صاحب کے کتب خانے میں ہے اور راقم نے اس کا مطالعہ کیا ہے‘‘ نیز محل گڑاڑا کے آبشار کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اطلاع دی ہے: ’’اس کا کتبہ بھی تھا جو، ندّی کے سیلاب میں ضائع ہوگیا تھا۔ اس کی نقل مولانا سید احکام اللہ صاحب کے کتب خانے کی قلمی بیاض سے مل گئی‘‘۔
’تاریخ زرنگاربرہان پور‘‘ میں شامل فارسی کتبے، حوض، بندوق، مزار، کنواں، سرائے، مسجد وغیرہ کی تفصیلات پڑھنے میں بے حد لطف آرہا ہے۔ جن میں تاریخی وقائع پوشیدہ ہیں۔’جہانگیری سرائے ۲‘کے کتبے ’’تاریخ زرنگار برہان پور‘‘ کے تحریرکے وقت نابود ہوگیا تھا جبکہ جاوید انصاری مرحوم نے کئی سال پہلے فارسی کتبہ کو نقل کیا تھااور اس طرح انھوں نے نئی نسلوں کے لیے یہ یادگار محفوظ رکھ لیا تھا۔ جاوید انصاری مرحوم اپنے سارے دیباچوں کے آخر میں ’’خادمِ علم و ادب‘‘ تحریرفرمایا کرتے تھے۔ آج ہمیں ان پرانے کتبوں اور نایاب مواد کو پڑھتے ہوئے فارسی کی یہ ضرب المثل یاد آتی ہے۔
ہر کہ خدمت کرد، او مخدوم شد
ترجمہ: جس نے (بے لوث ) خدمت کی ،وہی قابل تعظیم بنا۔
آج کل برصغیر کی فارسی یا فارسی سے متعلق کتابوں میں کمپوزنگ کی بڑی غلطیاں ملتی ہیں جن کی وجہ سے کتاب کا معیار خدشہ دار ہوتا ہے۔ ’’تاریخ زرنگار برہان پور‘‘ کے بوسیدہ مسوّدہ کی اشاعت میں فارسی عبارتیں اور اشعار بڑے اہتمام سے کمپوز کئے گئے ہیں۔واقعی جی بہت خوش ہوتا ہے۔’’حضرت شاہ لشکر محمد عارف باللہ ‘‘کے ذیل میں طویل فارسی سند، حافظ سید کرم اللہ بخاری کاطویل فارسی ’’تولیت نامہ‘‘ درست کمپوز کیا گیا ہے۔ کمپوزر اور پروف ریڈر صاحبان لائق تحسین ہیں۔
رب العزت جاوید انصاری مرحوم کے درجات کو بلندتر فرمائے۔ ’’تاریخ زرنگار برہانپور‘‘ کی اشاعت میں ان تمام صاحبان کی قدردانی واجب ہے جو اس اشاعتی سفر میں شریک رہے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو دین و دنیا کی بے پناہ برکتیں عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین
زمانہ گوش برآوازِ نغمہ ہے جاویدؔ
اگرچہ بربط ِ ہستی کا تار ٹوٹ گیا
ڈاکٹر لیلیٰ عبدی خُجستہ, تہران، ایران