زیر نظر کتاب فاضل مصنفؒ کی پانچ سالہ کدّ و کاوش، فکر و تدبر، بحث و تحقیق کا نتیجہ اور وسیع و عمیق مطالعہ کا نچوڑ ہے، اس کتاب کی تصنیف میں مصنف کا مخلصانہ جذبہ اور غیر معمولی حمیتِ دینی کا بڑا کردار ہے، خالص علمی رنگ میںموضوع کا بھرپور احاطہ کیا گیا ہے، مضبوط علمی اور استدلالی اسلوب اختیار کیا گیا ہے، کتاب کی عبارتیں متانت و سنجیدگی کا مظہر ہیں، خالص علمی موضوع ہونے کے باوجود طرز نگارش انتہائی پرکشش ہے، یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کتاب مذکور میں موضوع سے متعلق موسوعی مواد موجود ہے، یہ کتاب منہجیت و معروضیت اور تنقیدی جائزہ کی بہترین مثال ہے، مصنفؒ عربی انگریزی اور اردو پر یکساں دسترس رکھتے تھے اس لیے اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق تینوں زبانوں کے لٹریچر کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے اور فیصلہ کن بحث پیش کی گئی ہے، اس کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف عزیزؒ کا جذبہ قابل رشک تھا، ان کی غیرت دینی لائق دید تھی، یہ ان کی پہلی باقاعدہ تصنیف (افسوس کہ تقدیر میںیہی آخری بھی تھی) ہے، لیکن فنی و تکنیکی باریکیوں پر نظر رکھنے والے نیز تصنیفی دنیا کے ناموران بھی اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کی پختہ استعداد، سلیقۂ تصنیف، معیارِ تحقیق اور اسلوب کی متانت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے، مقدر یہی تھا کہ جواں سال مصنف کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد کتاب منظر عام پر آئے سو تمام تر تگ و دو کے باوجود یہی ہوا۔
مسلمان ہونے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان اور آپؐ کا اتباع شرط ہے، صدر اول سے امت مسلمہ کا یہ متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جو محمدؐ پر اور آپؐ پر اتارے گئے قرآن پر ایمان نہ لے آئے، قرآن مجید نے بار بار اس عقیدہ کی صراحت کی ہے تورات و انجیل کے متبعین کو اہل کتاب کہہ کر مخاطب کیا ہے، ان کے کفر کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس طرح بیان کیا ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی، لیکن استعمار و استشراق نے امت میں متعدد فتنوں کو جنم دیا، تشکیکی مزاج کو فروغ دیا، خود مسلمانوں میںمستشرق پیدا کردیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب کے کفر کا وہ موضوع زیر بحث بن گیا جس پر قرآن کے بیانات اتنے واضح اور صریح ہیں کہ انھیں پڑھنے کے بعد پھر کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن جب اسلامیات کا مطالعہ کرنے والوں کا تمام تر مرجع ہی مستشرقین کا لٹریچر قرار پایا تو اس طرح کے شکوک و شبہات میں الجھنا اور پھر ان کا وکیل بن جانا کوئی بعید از عقل بات نہیں، ہماری یونیورسٹیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہاں کے شعبہ اسلامیات میں مستشرقین کی زہر میں بچھی ہوئی تحریروں کو مرجعیت و استناد کا درجہ ملا ہوا ہے، مستشرقین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خود مسلمانوں میں اور ان کے تعلیمی اداروں میں اپنے جانشین پیدا کردیے، جنھوں نے ان کے افکار کو اوڑھ کر ان کی ترویج و اشاعت کو اپنا مقصد زندگی بنالیا، چنانچہ آپ جائزہ لے سکتے ہیں کہ جو کام کسی زمانے میں خود مستشرقین کیا کرتے تھے وہی کام عہد حاضر میں ہماری صفوں میں موجود ان کے فکری وارثین کر رہے ہیں، مصنف علام کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس سلسلہ میں مغربی سامراج کے تسلط اور مغربی تہذیب کی بالادستی کا بڑا کردار ہے، جب کسی قوم کو سیاسی، عسکری بالادستی حاصل ہوتی ہے تو لازمی طور پر بہت سی اقوام کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، جس کے نتیجہ میں فاتح اقوام کی تہذیب اور افکار و نظریات کو بھی بالادستی حاصل ہوجاتی ہے، چند برس قبل تک یہ بات باغیرت اہل علم ہی سمجھ سکتے تھے لیکن ادھر چند ماہ کے دوران مسلم ممالک کے اقدامات سے اس عقدہ کو سمجھنا قطعاً مشکل نہیں رہ گیا ہے، آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی اسلام دشمنی کو فروغ دینے اور اس کے لیے ہر طرح کا تعاون پیش کرنے کی ایک مثال فرانس کا حالیہ ملعون عمل اور اس پر سعودی عرب اور اس کے ہمنوا دیگر ممالک کا رد عمل ہے، ذہنی شکست خوردگی سے محفوظ رہنا، فاتح قوم سے مرعوب نہ ہونا، فکری بنیادوں پر سمجھوتہ نہ کرنا، ’’کلمۃ سواء‘‘ کی حقیقت و حدود کو سمجھنا اور پھر دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کردینا سب کے بس کی بات نہیں کہ ؎
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
برصغیر میں بھی مستشرقین کی وراثت منتقل ہوئی، ان کے ملغوبہ پر دانشوری اور تحقیق کی نئی نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں، زوالِ امت کے اسباب کا پتہ لگانے کی دُھن میں زوال ایمان کے بھی سامان فراہم کیے گئے، مسلّمہ عقائد اور قرآنی صراحتوں کو بھی کنارے لگا دیا گیا، آیات قرآنیہ کی ایسی ایسی تاویلیں کی گئیں کہ پندرہ صدیوں پر محیط تاریخ علم تفسیر میں اس کی نظیر نہیں ملتی، تفصیلات سے قطع نظر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ڈاکٹر راشد شاز ہیں جنھوں نے اپنی متعدد تصنیفات میں مستشرقین کے اعتراضات کو دوہرایا ہے، مسلم یونیورسٹی میں جب برج کورس کا آغاز ہوا اور شاز صاحب اس کے ڈائریکٹر بنائے گئے تو ان کو اپنے افکار کی ترسیل کا ایک نیا پلیٹ فارم مل گیا، جس طرح مسلم یونیورسٹی میں تقرری سے ان کی شخصیت کو ایک نئی جہت مل گئی، انھوں نے مدارس کے نو فارغین کو تختۂ مشق بنانا شروع کردیا، اس کے نتائج تیزی کے ساتھ سوشل میڈیا کی زینت بننے لگے، لوگ ان کی کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے کچھ بندگان خدانے اس نئے طوفان کا رخ موڑنے کی ٹھان لی، مولانا محمد غزالی ندوی کے اس سلسلہ میں کئی مضامین ’’ندائے اعتدال‘‘ کے صفحات کی زینت بنے، انھوں نے شاز صاحب کی کتب کا تنقیدی مطالعہ کیا، بالآخر انھوں نے زیر نظر موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا، جو انتہائی محقق و مدلل اور عہد جدید کے اسلوب و معیار کے عین مطابق اب سامنے آ سکی ہے، اس کتاب کی تصنیف کا خلفیہ اگرچہ یہی ہے اور بالخصوص اس میں جناب شاز کے آراء و افکار کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے لیکن سچ پوچھیے تو اب یہ کتاب اس موضوع کا انسائیکلو پیڈیا ہے، اس میں اس موضوع کے مالہ وما علیہ اور تمام متعلقات و اعتراضات کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے، نہایت متانت و منطقیت کے ساتھ موضوع کے ہر ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے اور اصل مدعا کو قرآن مجید سے ثابت کیا گیا ہے، پھر حدیث اور سلف کی تصریحات سے بھی دلائل نقل کیے گئے ہیں۔
کتاب کو نو فصلوں میں منقسم کیا گیا ہے پہلی فصل میں ’’موضوع کا تعارف اور اس کی اہمیت‘‘ ہے، دوسری فصل میں ’’اہل کتاب کے کفر کے اسباب‘‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے، تیسری فصل میں ’’موجودہ اہل کتاب کے کفر کے دلائل‘‘ پر دلائل کو جمع کیا گیا ہے، قرآن مجید سے ۳۸؍ اور حدیث نبوی سے ۱۰؍ دلیلیں نقل کی گئی ہیں، چوتھی فصل میں علمائے متقدمین و متاخرین کے اقوال و تصریحات کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں فصل میں ’’موجودہ اہل کتاب کو مومن کہنے والوں پر ایک نظر‘‘ ڈالی گئی ہے، ان کے وعدوں کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے، ان کے شبہات و نظریہ کا بھرپور علمی جائزہ لیا گیا ہے، چھٹی فصل میں ’’توریت و انجیل کی حجیت‘‘ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، نہایت عالمانہ انداز میں ان کی استنادی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے اور ان کے اندر موجود اغلاط و تضادات و تناقضات اور ان میںہوئی تحریفات کو واضح کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ ان تحریفات و تناقضات کے اعتراف کے بعد ان پر عمل کی کوئی گنجائش باقی نہیںرہتی، ساتویں فصل میں یہودی اور عیسائی مصنّفین کی ان کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو انھوں نے اہل کتاب کو قرآن سے مومن ثابت کرنے کے لیے کی ہیں، آٹھویں اور نویں فصل اس کتاب کا خلاصہ ہے، جس میں مصنف کی علمیت، بصیرت اور نقد و استدراک کی اعلیٰ ترین استعداد نکھر کر سامنے آتی ہے، آٹھویں فصل میں مصنف نے تفصیل سے ان حضرات کے دلائل کا جائزہ لیا ہے جو کھینچ تان کر اہل کتاب کو مومن ثابت کرتے ہیں، مصنف نے ان دلائل کے تنقیدی جائزے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ان کے نہایت عالمانہ اور تسلی بخش جوابات بھی تحریر کردیے ہیں، نویں فصل اہل کتاب کے کفر و ایمان سے متعلق مغالطوں اور ان کے ازالہ پر مشتمل ہے، کبھی غلط فہمی مغالطہ کا سبب بنتی ہے کبھی کج فہمی، کبھی علمی نا پختگی کے سبب انسان مغالطہ میں پڑ جاتا ہے اور کبھی دلائل کی قلت یا دلائل کا فقدان کھینچ تان کرنے اور مغالطہ انگیزی پر مجبور کرتا ہے، کبھی انسان کسی مشن کی تکمیل کے لیے اپنی کاریگری سے مغالطے تیار کرتا ہے، اہل کتاب کے کفر و ایمان کے سلسلہ میں ہر قسم کے مغالطے موجود ہیں، مصنف رحمہ اللہ نے تقریباً ۲۸ مغالطوں کو واضح کیا ہے، ضمناً اور بھی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگیا ہے، کتاب کی سطر سطر سے مصنف کی بصیرت، فکر کی پختگی، تحقیق پر اعتماد، موضوع پر کامل دسترس اور اپنے دلائل پر اطمینان و شرح صدر کا اظہار ہوتا ہے، پوری کتاب پڑھ جائیے کوئی ایک مقام بھی آپ کو ایسا نہ ملے گا جہاں عبارت گول مول ہو، پیچیدگی ہو، گنجلک ہو یا فلسفیانہ موشگافیوں کا سہارا لیا گیا ہو، یا عہد جدید کے بعض دانشوروں کی طرح بات گھما پھرا کر کہی گئی ہو، ظاہر ہے کہ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب اپنی فکر و تحقیق پر اپنا ہی ضمیر راضی نہ ہو، یا فکری بنیادیں کمزور ہوں، یا دلائل پورے طور پر منکشف نہ ہوں، یا کھینچ تان مقصود ہو، مصنف رحمہ اللہ اس لحاظ سے مکمل طور پر بری ہیں، یہی وجہ ہے کہ کتاب وضوح و بیان کی خوبی سے لبریز ہے، پختہ دلائل کا انبار ہے، متانت و شرافت، اعتدال و توازن، احترام و شائستگی اور اصول تحقیق کی بھرپور رعایت سے کتاب عالمانہ وقار کی حامل بن گئی ہے، کتاب کی معروضیت اور استدلالی طرز نگارش ہمارے اس مذہبی حلقہ کے لیے لائق نمونہ ہے جس کو صرف مجادلانہ رنگ، مناظرانہ اسلوب، تضحیک آمیز رویّہ، تنقیص و تفسیق، الزام تراشی اور تحریر کی شدت و حدت سے ہی تسکین حاصل ہوتی ہے حالانکہ اس کا فائدہ نہایت محدود ہوتا ہے، جبکہ ممدوح گرامیؒ کے اختیار کردہ اسلوب کا نفع عام و تام ہوتا ہے بلکہ اس اسلوب کے اثرات کا دائرہ نہایت وسیع ہوتا ہے۔
ناچیز راقم کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ کتاب شبلی و سلیمان کی ڈالی ہوئی طرح کا حسین امتداد ہے، بحث و تحقیق، علمیت و معروضیت اور شرافتِ قلم کے ساتھ دینی غیرت و حمیت کا بہترین نمونہ ہے، مجھے قوی امید ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر مرجع کی حیثیت حاصل کرے گی، گرچہ اس کی اشاعت صدیق مکرمؒ کی حیات مستعار میں نہ ہوسکی مگر یہی کتاب ان شاء اللہ انھیں تاریخ میں زندہ جاوید بنانے کا کام کرے گی، ہمارے دور کا یہ المیہ ہے کہ کتاب پر مصنف کا نام دیکھ کر ہی کتاب لی جاتی ہے اور مطالعہ کیا جاتا ہے، اس روش سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ کتاب خود اچھے اچھے اہل علم کے لیے لائق مطالعہ اور قابل استفادہ ہے، اہل علم کے حلقہ میں اس کی دھوم ہونی چاہیے اور عہد حاضر کی تشکیکی تحریک کا بھرپور تعاقب کرنے والی اس شاندار مدلل و مُسکت کتاب کا بھرپور استقبال ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کے نفع کو عام و تام فرمائے اور حضرت مصنفؒ کی قبر کو اپنے انوار سے منور فرمائے۔