مصر کے مشہور عالم دین داعی ومبلغ اور درجنوں کتابوں کے مصنف شیخ محمد غزالی رح کی بہت ہی مشہور و مقبول کتاب: جدد حیاتک :جس کے بہت سارے ایڈیشن نکل چکے ہیں اس کتاب کا یہ اردو ترجمہ ہے کتاب کا اردو ترجمہ ابو مسعود اظہر ندوی صاحب نے کیا ہے مترجم موصوف اس کتاب سے قبل شیخ محمد غزالی کی کئ کتابوں کا اردو ترجمہ کرچکے ہیں جو درج ذیل ہیں
‘ شاہراہ اعتدال
-اسلام یہ ہے
اسلامی تصوف
اہل ذوق نے انہیں ستائش کی نظر وں سے دیکھا اور بہت مفید قرار دیا
کتاب اپنی زندگی پھر سے سنواریے
دوسو چالیس صفحات پرمشتمل ہے
نفسیاتی و مزمن امراض آلام و مصائب اور صدمے سانحے وغیرہ پیش آنے پر انسان ان مراحل میں کس طرح صورتحال کا سامنااور اس کا مواجہہ اور اس مقابلہ کرے اور کس طرح اس سے نبردآزما ہو ان چیزوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی کی نیٔ ابتدا کرے
اس سلسلے میں قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیںاور دیگر انسانی تجربات سے اس مفید کتاب کے ذریعہ آپ کو واقفیت حاصل ہوگی اور حقیقت یہ کہ یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے اور اس مطالعہ ہر فرد کو کرنا چاہیے خاص طور پر رنج و محن کے ایام میں اور مشکلات میں مبتلا شخص کو مطالعہ کرنے لیے ہدیہ میں پیش کر یں اور خود بھی مطالعہ کریں-
علامہ محمد غزالی رح اپنی کتاب کے مقدمہ کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ
جو لوگ اسلام سے ناواقف اور اسے سمجھنے سے قاصر ہیں انہیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہیے اس کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین فطرت ہے کیونکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق اس کی تعلیمات فطرت سلیمہ اور صحت مندانہ نظر یات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں اس کے اصول و ضوابط کو درج کمال تک پہنچانے اور اسے سکون واطمینان سے بہرہ اندوز کرنے لیے ہی ہیں
ایک طویل عرصے سے میری یہ خواہش رہی ہے بیشتر نفسیاتی سماجی اور سیاسی میدانوں میں آزاد خیال مفکر ین کی جستجو کے نتائج اور اسلامی تعلیمات کے درمیان مشابہت ومطابقت کو تلاش کرسکوں اور آسمانی وحی اور تجربوں کے نتائج کے درمیان مطابقت کے صحیح پہلوؤں کو سامنے لا سکوں
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد آج بھی اسلام سے اس لیے دور ہے کیونکہ وہ اس کی تعلیمات سے قطعی نا واقف ہے اور ان لوگوں تک یہ تعلیمات پہونچ ہی نہیں پا رہی ہیں جبکہ اسلام فطرت کی نمائندگی کرتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وا ضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے- یہ دین حضرت موسیٰ وحضرت عیسیٰ کی تصدیق کرتا ہے حالانکہ ان کی تعلیمات کو یہود یوں اور عیسائیوں نے پامال کر ڈالا ہے -یہ ہر اس شخص کی تایید کرتا ہے’ جو خرافات اور اوہام کو چھوڑ کر واضح ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف گامزن ہونے کا فیصلہ کرے
علامہ محمد غزالی رحمہ اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
اس کتاب میں موازنہ ہے ان اسلامی تعلیمات کا جو ہم تک پہنچونچی ہیں اور ان بہترین نتائج کے درمیان جن تک مغربی تہذیب انسانی اخلاق اور معاملات کے میدان میں پہونچی ہے’قارئین خود محسوس کریں گے کہ دونوں کے درمیان کتنی حیرت انگیز مطابقت پای جا تی ہے
میں نے ڈیل کارنیگی کی کتاب پریشان رہنا چھوڑیے پڑھی تو مجھے فوراً یہ خیال آ یا کہ اس کتاب کا اسلامی اصولوں سے موازنہ کیا جائے -اس لے نہیں کہ اس ذہین مصنف نے ہمارے دین سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں بلکہ آس لیے کہ اس نے اصحاب تربیت اور مفکرین کے اقوال اور خاص و عام حالات پر غوروفکر کے ذریعہ جو نتائج نکا لے ہیں وہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے کیٔ طرح سے مطابقت رکھتے ہیں
مصنف اسلام سے واقف نہیں ورنہ اپنے پیش کردہ حقائق کے لیے اسلامی تعلیمات سے بہت دلائل نقل کرسکتا تھا
کتاب میں فطرت سلیمہ کے تجربات اور آزمائشوں کے بعد جو نصیحتیں پیش کی گئی ہیں ان میں حکیمانہ تعلیمات کی صاف صاف جھلک نظر آ تی ہے جو صدیوں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہوچکی ہیں –
آس طرح آسمانی ہدایت اور تجربہ کے نتائج کے درمیان نمایاں مطابقت ہو جاتی ہے اس کتاب میں میں نے یہ طریق کار اختیار کیا کہ پہلے اسلامی تعلیمات پیش کردوں پھر ڈیل کارنیگی کے تجربات وشوا ہد پر مبنی اقوال پیش کروں تاکہ یکسانیت واضح ہوجائے –
میں دیگر زبانوں سے واقف نہیں ہوں اس وہی میرے پیش نظر ہے جو کچھ مترجمین کے ذریعہ سامنے آسکا -نہیں معلوم کہ دیگر زبانوں میں فطرت سلیمہ کے کتنے آثار وشواہد بکھرے ہوں گے اللہ کے دین اور کسی انسان یا گروہ کی کوششوں کے درمیان موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے یہ کوششیں ان اصولوں کی تایید کرتی ہیں جن کی طرف اسلام نے رہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ زندگی کے حقائق ان کی تائید کرتے ہیں-
کسی رنگ کے تعصب کے لیے میرے دماغ میں کوئی جگہ نہیں تاہم یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب امریکی ما حول میں لکھی تھی میں نے یہ کتاب اسلامی ماحول میں لکھی ہے’ بہر حال میں نے اس کتاب میں ایسے موازنے پیش کۓ ہیں جن کا رنگ ونسل سے تعلق نہیں-
شیخ محمد غزالی رح کتاب کے پہلے باب جس کا عنوان ہے اپنی زندگی پھر سے سنواریے میں ابتدائی سطور میں لکھتے ہیں کہ
انسان بسا اوقات یہ چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کا نئے طور سے آ غاز کرے لیکن اپنی حالت میں بہتری لانے کے لئے قدرت کے کرشمہ کا انتظار کرتا رہ جاتا ہے یا کبھی ایسا سوچتا ہے کہ نۓ سال سے یا کسی خاص موقع سے اپنی زندگی میں تبدیلی کا آغاز کردے گا یہ سوچ وہم و گمان سے آگے نہیں بڑھ پاتی زندگی میں انقلاب ہر چیز سے پہلے خود اپنے اندر سے پیدا ہو تی ہے –
جو شخص حالات سے متاثر ہو ۓ بغیر عزم و استقلال اور دور اندیشی کے ساتھ اگے پڑھتا رہتا ہے وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے پھولوں کے بیج پہلے مٹی کے دبیز پردوں میں ڈالے جاتے ہیں پھر وہ ان دبیز پردوں کو چیرتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں اور اپنے خوشنما رنگ اور خوش گوار خوشبو سے دنیا کو محظوظ ومعطر کرتے ہیں -انسان اپنے آپ پر قابو رکھے اور اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کے مشکل حالات کو عبور کرتا رہے تو دیگر لوگوں کی مدد کے بغیر بھی بہت کچھہ کرسکتا ہے
باب سترہ :کٹھے لیموں سے میٹھا شربتِ بناۓ: میں تحریر کرتے ہیں کہ
صبر —- جیسا کہ ہمارے علماء کہتے ہیں جس چیز کو آپ نا پسند کریں اس پر دل
کو قابو رکھنے کا نام ہے ہم ناپسندیدہ مشکلات کاسامنا مسلسل ثابت قدمی اور اعتدال و توازن سے کام لینے والی عقل کے ساتھ کرنا مراد لیں تو یہ صبر کی اچھی تشریح ہے،
اسلام پہلے یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے احساسات کو منظم کریں کون جانتا ہے کہ بہت سی مضرت رساں چیزیں نفع بخش بن جاتی ہیں اور از مائشیں انعام ثابت ہوتی ہیں
کون جانتا ہے کہ جن مشکلات کا آپ کو سامنا ہے کسی بھلائی کا دروازہ بن جائیں اچھے طرز عمل سے کام لے کر مستقبل تک پہنچونچ جایئں
وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شر لکم واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (البقرہ 216.)
ہو سکتا ہے کہ ایک چیز ناگوار ہو وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے
عظیم لوگوں کی غیر معمولی صلاحیتیں مشقتوں اور مشکلات کے درمیان ہی نشوونما پاتی رہی ہیں ڈیل کارنیگی لکھتا ہے
میں نے بعض ذہین ترین لوگوں کے کارناموں کا جتنی گہرائی سے مطالعہ کیا اتنا ہی مجھے یقین ہوتا چلا گیا ان کے کارناموں کے پیچھے کمی کا احساس محرک بنا ہے اس احساس نے انہیں یہ کارنامے انجام دینے پر ابھارا -جی ہاں عین ممکن ہے ملٹن اندھا نہ ہو تا تو اتنے خوبصورت شعر نہ کہ سکتا بیٹہوون اگر بہرا نہ ہو تا تو اتنی بلند موسیقی نہ پیش کرسکتا
اختر عالم اصلاحی