میرے پاس طاقت ہوتی تو اس کتاب کو نہ لکھتااس معاشرے کے درودیوار ہلا ڈالتا جس میں عورت کسی ہے۔میرے پاس تلوار ہوتی تو سیاسی کھوپڑیوں کی فصل کاٹتا کہ پک چکی ہے۔میرے پاس صرف قلم ہے جس سے میں نےاس عورت کے زخم پیش کیے ہیں جس کاروپ عیاشی انسانون کے قہقہوں کی دستبرو ہے۔کاش مجھے اختیار ہوتا کہ بڑے بڑے عماموں کے پیج کھولتاان کی دستار فضیلت کےپھریرے بنا کی بالا خانوں پر لہراتاعالمگیری مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر فقیہ شہر کو للکارتا، کوی شخص اس کتاب کے مطالعہ سے گمراہ ہوتا ہے تو میں سمجھوں گا کہ اس نے میری کتاب کا مقصد کھو دیا ہے کوی راہ پر آتا ہے تو مجھے خوشی ہو گی کہ اس کے نفس کی نیکی جاگ اٹھی ہے ) آغا شورش کاشمیری
اس بازار میں، تصنیف نہیں، عبرت کدہ ہے۔ اس میں بہت کچھ ہے۔ ہنسی ہے، خوشی ہے، ٹھٹھول ہے، رامش و رنگ کی محافل ہیں، تزئین و آرائش و زیبائش سے لدے پھندے عشرت کدے ہیں، خوش ادا و پری چہرہ حسینائیں ہیں، دولت ہے، شہرت ہے، چنگ و رباب ہے مگر حسرت و یاس کے ساتھ۔ ان سب کے منظر تلے ٹوٹے پھوٹے، خستہ خستہ، بکھرے ہوئے ارمان ہیں۔ مٹتی ہوئی پہچان ہے۔ نچڑتے ہوئے اجسام ہیں۔ سسکتی ہوئی زندگی ہے۔ شکستہ گھنگرو ہیں۔ زندگی کی انتہائی مکروہ، درد ناک، زہرہ گداز صورت ہے۔ مگر اس حمام میں تو سبھی ننگے تھے اور ہیں۔ شگفتہ اجسام کی پرورش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔
افلاس و ادبار انسانی جسم پر کیسے چرکے لگاتا ہے، نکبت و یاس ضمیر کو غلط نہ کرنے پر کیسے کچوکے دیتی ہے وہ سب اس کتاب، جو کتاب کم عبرت کدہ زیادہ ہے، میں ہنستی کھیلتی نظر آتی ہے۔ مذاہب نے کیسے اس درندگی کو سہارا دیا، خون جگر پلا کر کیسے پروان چڑھایا، بادشاہوں نے کیسے کیسے اور کتنی کتنی باندیاں، داشتائیں اپنے حرم میں مقید کیں اور ان کے معاشقے اس زنبیل میں پھدکتے نظر آتے ہیں۔ یہ حیوانیت، یہ قحبہ گری اتنی ہی قدیم ہے جتنا انسان۔
ممتاز اس بازار کا، جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں، کا کافی دلچسپ و دل ربا کردار نظر آتی ہے۔ ممتاز کے جھروکے میں خالص فن کی نمو تھی، جہاں نوک جھوک، طعن و تشنیع، لڑھکتے الفاظ اور شگفتہ مذاق خالصتاً ادب میں ملفوف ہوتا، مختصراً جہاں شعلے نہیں پھول پھینکے جاتے تھے، اپنے وقت کی معروف و مشہور مغنیہ و نائک تھی۔ موسیقی کی چلتی پھرتی تاریخ تھی۔ اسی عبرت کدے کی اک تصویر تھی۔ اس بازار میں سب کچھ تھا مگر سکون، باطنی سکون، نایاب و کم یاب تھا۔
صرف اضطراب ہی اضطراب تھا اور حالت، اضطراری۔ خوشی تھی مگر سطحی، اوپری اوپری سی۔ شہرت، عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ بوڑھی ہو جاتی ہے۔ ڈوب جاتی ہے۔ شہرت کو دوام نہیں۔ یہ پٹختی ہے۔ اس نے سب کی طرح ممتاز کو بھی پٹخا۔ ان بازاروں میں ایمان ابتداء سے کمزور رہا مگر عقیدت شروع ہی سے مضبوط رہی۔ یہ سکے کے دم پہ گردش کرتا بازار ہے۔ بڑے بڑے امراء، زمیندار اس بازار میں، جنس کے ہاتھوں لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ شورش کاشمیری صاحب نے جس بھی موضوع پہ قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا۔
اب تو اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم برہمن زدہ معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ذات پات، افلاس، غربت اور بہت سے مسائل کی خلیج ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی چلی جا رہی ہے، دریا کے ان دو کناروں کی طرح جو ایک دوسرے کے بالکل متوازی چل رہے ہیں مگر نہ تو مل رہے ہیں اور نہ ہی بچھڑنے کے خواہاں ہیں۔ غربت ایک ناگہانی آفت ہے۔ جو اپنی آغوش میں مختلف طرح کے معاشی مصائب اور بیماریوں کو سمیٹے ہوئے آتی ہے۔
یہ ہر زاویۂ زندگی کو کج کرتی ہوئی، گاڑھے نقوش ثبت کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ فکر رسا کو، عقل، سمجھ، شعور اور افکار کو توڑتی ہے، مروڑتی ہے، پراگندہ کرتی ہے اور ژولیدگی سے آلودہ کرتی ہے۔ ان کسیلے حقائق کے بعد تو محسوس ہوتا ہے کہ ملک پاکستان کے لوگ ویش ہیں اور چند مخصوص طبقات برہمن اور کھشتری ہیں، جو ان ویشوں کی کمائی پر پل رہے ہیں۔ ان بے آسرا ویشوں کو صرف نچوڑا ہی تو جا رہا ہے اور حقوق سلب۔ پیروں میں غربت کی بیڑیاں پڑتی چلی جا رہی ہیں۔ تنگ دستی و نکبت روز افزوں ہے۔ کوئی بھی پالن ہار نہیں۔ عوام حاکم وقت سے روٹھ رہے ہیں۔ جبکہ طاقت کا منبع و ماخذ صرف عوام ہیں۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ اب غربا کے لاشے سواری والے رکشوں میں، مرحومین کے لواحقین کے ہاتھوں اور جھولیوں میں سفر کر رہے ہیں، الامان و الحفیظ۔
تبصرھ سید عدیل اعجاز
اس سے آگے کا تبصرھ سید عدیل اعجاز صاحب کا ہے
اس بازار میں، تصنیف نہیں، عبرت کدہ ہے۔ اس میں بہت کچھ ہے۔ ہنسی ہے، خوشی ہے، ٹھٹھول ہے، رامش و رنگ کی محافل ہیں، تزئین و آرائش و زیبائش سے لدے پھندے عشرت کدے ہیں، خوش ادا و پری چہرہ حسینائیں ہیں، دولت ہے، شہرت ہے، چنگ و رباب ہے مگر حسرت و یاس کے ساتھ۔ ان سب کے منظر تلے ٹوٹے پھوٹے، خستہ خستہ، بکھرے ہوئے ارمان ہیں۔ مٹتی ہوئی پہچان ہے۔ نچڑتے ہوئے اجسام ہیں۔ سسکتی ہوئی زندگی ہے۔ شکستہ گھنگرو ہیں۔ زندگی کی انتہائی مکروہ، درد ناک، زہرہ گداز صورت ہے۔ مگر اس حمام میں تو سبھی ننگے تھے اور ہیں۔ شگفتہ اجسام کی پرورش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔
افلاس و ادبار انسانی جسم پر کیسے چرکے لگاتا ہے، نکبت و یاس ضمیر کو غلط نہ کرنے پر کیسے کچوکے دیتی ہے وہ سب اس کتاب، جو کتاب کم عبرت کدہ زیادہ ہے، میں ہنستی کھیلتی نظر آتی ہے۔ مذاہب نے کیسے اس درندگی کو سہارا دیا، خون جگر پلا کر کیسے پروان چڑھایا، بادشاہوں نے کیسے کیسے اور کتنی کتنی باندیاں، داشتائیں اپنے حرم میں مقید کیں اور ان کے معاشقے اس زنبیل میں پھدکتے نظر آتے ہیں۔ یہ حیوانیت، یہ قحبہ گری اتنی ہی قدیم ہے جتنا انسان۔
ممتاز اس بازار کا، جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں، کا کافی دلچسپ و دل ربا کردار نظر آتی ہے۔ ممتاز کے جھروکے میں خالص فن کی نمو تھی، جہاں نوک جھوک، طعن و تشنیع، لڑھکتے الفاظ اور شگفتہ مذاق خالصتاً ادب میں ملفوف ہوتا، مختصراً جہاں شعلے نہیں پھول پھینکے جاتے تھے، اپنے وقت کی معروف و مشہور مغنیہ و نائک تھی۔ موسیقی کی چلتی پھرتی تاریخ تھی۔ اسی عبرت کدے کی اک تصویر تھی۔ اس بازار میں سب کچھ تھا مگر سکون، باطنی سکون، نایاب و کم یاب تھا۔
صرف اضطراب ہی اضطراب تھا اور حالت، اضطراری۔ خوشی تھی مگر سطحی، اوپری اوپری سی۔ شہرت، عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ بوڑھی ہو جاتی ہے۔ ڈوب جاتی ہے۔ شہرت کو دوام نہیں۔ یہ پٹختی ہے۔ اس نے سب کی طرح ممتاز کو بھی پٹخا۔ ان بازاروں میں ایمان ابتداء سے کمزور رہا مگر عقیدت شروع ہی سے مضبوط رہی۔ یہ سکے کے دم پہ گردش کرتا بازار ہے۔ بڑے بڑے امراء، زمیندار اس بازار میں، جنس کے ہاتھوں لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ شورش کاشمیری صاحب نے جس بھی موضوع پہ قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا۔
اب تو اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم برہمن زدہ معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ذات پات، افلاس، غربت اور بہت سے مسائل کی خلیج ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی چلی جا رہی ہے، دریا کے ان دو کناروں کی طرح جو ایک دوسرے کے بالکل متوازی چل رہے ہیں مگر نہ تو مل رہے ہیں اور نہ ہی بچھڑنے کے خواہاں ہیں۔ غربت ایک ناگہانی آفت ہے۔ جو اپنی آغوش میں مختلف طرح کے معاشی مصائب اور بیماریوں کو سمیٹے ہوئے آتی ہے۔
یہ ہر زاویۂ زندگی کو کج کرتی ہوئی، گاڑھے نقوش ثبت کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ فکر رسا کو، عقل، سمجھ، شعور اور افکار کو توڑتی ہے، مروڑتی ہے، پراگندہ کرتی ہے اور ژولیدگی سے آلودہ کرتی ہے۔ ان کسیلے حقائق کے بعد تو محسوس ہوتا ہے کہ ملک پاکستان کے لوگ ویش ہیں اور چند مخصوص طبقات برہمن اور کھشتری ہیں، جو ان ویشوں کی کمائی پر پل رہے ہیں۔ ان بے آسرا ویشوں کو صرف نچوڑا ہی تو جا رہا ہے اور حقوق سلب۔ پیروں میں غربت کی بیڑیاں پڑتی چلی جا رہی ہیں۔ تنگ دستی و نکبت روز افزوں ہے۔ کوئی بھی پالن ہار نہیں۔ عوام حاکم وقت سے روٹھ رہے ہیں۔ جبکہ طاقت کا منبع و ماخذ صرف عوام ہیں۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ اب غربا کے لاشے سواری والے رکشوں میں، مرحومین کے لواحقین کے ہاتھوں اور جھولیوں میں سفر کر رہے ہیں، الامان و الحفیظ۔
سید عدیل اعجاز