Web Analytics Made Easy -
StatCounter

اختلاف منہج و فکر مفتی ابوالقاسم نعمانی

اختلاف منہج و فکر مفتی ابوالقاسم نعمانی

اہل سنت وجماعت اور جماعت اہل حدیث کے مابین اختلاف منہج وفکر ایک تعارف

حضرت اقدس مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہم کی شخصیت علمی دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں ہے اور نہ آپ کا میدانِ عمل کسی سے مخفی ہے، آپ دارالعلوم دیوبند کے باوقار مہتمم بھی ہیں اور بافیض شیخ الحدیث بھی، علومِ دینیہ بالخصوص حدیث پاک کی تدریس آپ کا مشغلہ ہے، اور اختلافی مسائل سے بچ کر اپنے علم وعمل سے امت کو نفع پہچانا آپ کا ذوق ہے، اور اِصلاح وتربیت کے لیے آنے والے طالبین وسالکین کی تربیت واصلاح آپ کا مشن۔

دارالعلوم دیوبند سے پہلے آپ جامعہ اسلامیہ بنارس میں شیخ الحدیث تھے اور اُس پورے علاقے میں دینی واِصلاحی جد وجہد کے سربراہ، جامعہ اسلامیہ بنارس میں حدیث کا درس دیتے، اپنے محلہ کی مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے، اِصلاحی بیانات کے ذریعے معاشرے میں درآنے والی رسوم وبدعات کو دور کرنے کی کوشش کرتے، لوگوں کو دردمندی کے ساتھ دین کی طرف لاتے، ان کی اِصلاح کرتے، اُن کے سوالات کے قرآن وحدیث کی روشنی میں جوابات دیتے، ان کی ہر دینی ضرورت پوری کرتے، اپنے منفرد اندازِ بیاں اور بلند پایہ علمی مقام کی وجہ سے بڑے بڑے جلسوں کی زینت بنتے اور وہاں بھی آپ کی اِصلاحی تقریریں قرآن کی آسان تفسیر اور حدیث کی دل نشیں تشریح پر مشتمل ہوتیں، نہ کسی پر کوئی طنز، نہ کسی کی کاٹ، نہ کسی طرح کی چیخ وپکار، نہ کردار کشی، نہ الزام تراشی، نہ جارحیت، نہ بے سروپا باتیں، بس مستند معلومات، معتبر تشریحات اور آپ کا البیلا طرزِ تکلم اور انتہائی آسان اندازِ تفہیم، کبھی ضرورت پڑی تو اپنے سے اختلاف رکھنے والے فرقوں کا مثبت اور شائستہ انداز میں رَد، یا اُن کے اعتراضات کے علمی جوابات، اور بس۔
غرض: جامعہ اسلامیہ کی تدریس، مسجد کی امامت وخطابت، جلسوں میں تقریر، دینی اداروں کی سرپرستی اور اِصلاح وتربیت میں شب وروز گذر رہے تھے، یعنی صرف مثبت فکر اور اِصلاحی کوششیں، لوگ تھے کہ آپ کی مقناطیسی شخصیت کی طرف کھنچے چلے آتے اور آپ اپنے علم وعمل کی خوشبو سے ان کو معطر کرتے۔ علاقے کا ماحول بڑا پرسکون تھا، مختلف الخیال لوگ (دیوبندی، بریلوی اور غیرمقلد) اختلافِ رائے کے باوجود مل جل کر رہتے، ایک دوسرے کی خوشی وغمی میں شریک ہوتے، علاقے کے پرانے دستور اور رواج کے مطابق ایک دوسرے کے یہاں شادی بیاہ بھی کرتے؛ لیکن ۲۰۰۵ء کے آس پاس یکایک اِس پرسکون دریا میں ایک پتھر پھینکا جاتا ہے اور برسوں کا سکون غارت ہوجاتا ہے، موجوں میں طغیانی آتی ہے اور ماحول میں ایک یورش بپا ہوجاتی ہے، جماعتِ اہل حدیث کی طرف سے جارحیت اور افتراپردازیوں کا بازار گرم ہوتا ہے تو جامعہ اسلامیہ بنارس کے اُس وقت کے شیخ الحدیث اور اِس وقت کے شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی اپنے مزاج کے برخلاف مجبوراً میدانِ عمل میں آتے ہیں اور اپنے رسوخ فی العلم، خداداد ذہانت منفرد اور وہبی طرزِ بیان کی بدولت، مساجد کے منبروں اور جلسوں کے اِسٹیجوں سے حق اور اہل حق کا دفاع فرماتے ہیں اور فریقِ مخالف کی افتراپردازیوں اور جارحیت کے مسکت جواب دیتے ہیں، مخالف کی طرف سے کردارکشی اور ذاتیات پر اوچھے حملوں کے باوجود زبان وبیان میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں۔ اِس طرح دسیوں بیانات ہوتے ہیں اور آپ کا ایک اور جوہر کھل سامنے آتا ہے۔

لیکن وقت گزرجاتا ہے اور وہ فتنہ بھی دب جاتا ہے؛ مگر اُس وقت کے ہنگامی حالات میں کیے گئے کچھ بیانات کیسٹوں اور سی ڈیز میں محفوظ رہ جاتے ہیں اور ۲۰۱۴ء میں وہی دستیاب بیانات حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ کی تقریظ کے ساتھ مرتب ہوکر کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں اور ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہوجاتے ہیں تو مزید دستیاب بیانات وتحریرات کے اِضافے اور ترتیب وتحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے، جس کے لیے برادرِ عزیز مفتی ابن مالک ایوبی قاسمی کمر بستہ ہوئے اور بڑی دقت نظری اور عرق ریزی کے ساتھ دس اُمور کی رعایت کے ساتھ (جن کی تفصیل اُنہوں نے عرضِ مرتب میں بیان کی ہے) نہ صرف ترتیب اور تہذیب پر اِکتفاء کیا؛ بلکہ ۱۴۳ کتابوں کی مراجعت کرکے مفید اور معلومات افزا حواشی کا بھی اِضافہ کیا، جو اُن کی تحقیق، حسنِ ترتیب اور صلاحیت وقابلیت کا شاہ کار ہیں۔

کتاب کے اِعتبار اور اِستناد کے لیے حضرت مہتمم صاحب کا اِسم گرامی اور محدث و ادیب اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ سابق اُستاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کی علمی واًصولی تقریظ کا حوالہ کافی ہے، اور مشمولاتِ کتاب کی اہمیت، اِفادیت اور خصوصیت کا اندازہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی تقریظ کے درجِ ذیل اِقتباس سے لگایا جاسکتا ہے، حضرت تحریر فرماتے ہیں:

’’کتاب پر نظر ڈالنے سے اَندازہ ہوتا ہے کہ اِس میں اُصولی وفروعی دونوں پہلوؤں سے اِس فرقے کے زیغ واِنحراف کا پردہ چاک کیا گیا ہے، اِس میں سنت، اِجماع، قیاس اور تقلید جیسے اُصولی مباحث پر بھی گفتگو کی گئی ہے اور تراویح، طلاقِ ثلاث وتوسل وغیرہ فروعی مسائل بھی تفصیل سے زیرِ بحث لائے گئے ہیں، مجموعی اِعتبار سے یہ کتاب غیرمقلدین کی اُصولی اَغلاط، فکری اِنحراف اور اُن کی جارحیت و اِفتراپردازیوں سے واقفیت کا کافی سامان بہم پہنچاتی ہے، جس سے اِس موضوع پر صاحبِ تقاریر کی وسعتِ نظر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ( صفحہ 26)

بہرکیف: نئی ترتیب وتحقیق، دو رنگی طباعت، صاف کتابت اور جاذبِ نظر سرِورق کے ساتھ، کتاب کا یہ نیا ایڈیشن حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے، جو حضرت مہتمم صاحب مدظلہم کے رسوخ فی العلم اور آسان اندازِ تفہیم کا شاہ کار ہے، اور مرتب موصوف کے حسن ترتیب اور ذوقِ تحقیق کا غماز، اور اَربابِ ’’دارالمعارف النعمانیہ‘‘ کے ذوقِ لطیف کا آئینہ دار بھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *