Web Analytics Made Easy -
StatCounter

مجلہ المآثر مئو خصوصی اشاعت بیاد ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمی

ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمی

مجلہ المآثر مئو خصوصی اشاعت بیاد ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمی

نام کتاب : مجلہ المآثر مئو خصوصی اشاعت بیاد ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمیؒ
مدیر تحریر ومرتب : ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی

محدث کبیر ابوالمآثرمولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی علیہ الرحمہ(1901-1992) اپنے دور کےممتاز محدثین میں سے تھے۔ مسند حمیدی ، سنن سعید بن منصور ، المطالب العالیہ اور مصنف عبدالرزاق جیسی اہم اور بلند پایہ کتب حدیث کی تحقیق وتعلیق نے ان کو بین الاقوامی شہرت عطا کی ۔۱۰؍ رمضان المبارک ۱۴۱۲ھ مطابق ۱۶؍ مارچ ۱۹۹۲ء دوشنبہ کوان کا انتقال ہوا ۔  انتقال کے بعدباہمی مشورہ سے یہ طے ہوا کہ حضرت محدث الاعظمی کی یاد میں ایک علمی وتحقیقی مجلہ نکالا جائے ،تاکہ اس کے ذریعہ حضرت کے چھوڑے ہوئے مسودات کی اشاعت ، ان کے علوم ومعارف کا تعارف ، اور ان کے ناپید مضامین ومقالات کو دوبارہ اہل علم کے سامنے لایا جائے۔ استاذ محترم مولانا اعجازاحمد اعظمیؒ نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔

محرم ، صفر ، ربیع الاول ۱۴۱۳ھ ( جولائی ، اگست ، ستمبر ۱۹۹۲ء ) میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا،جسے علمی دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔جن مقاصد کے پیش نظر یہ مجلہ نکالا گیا تھا اس میں مکمل کامیابی ملی ،اس کے ذریعہ حضرت محدث الاعظمی کی اکثر تحریریں ، ساٹھ ستر سال پہلے شائع شدہ مضامین ومقالات اور بہت سارے غیر مطبوعہ مکاتیب ورسائل اس میں شائع ہوئے اور بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔مسلسل ۲۷؍ سال نکلنے کے بعد شوال ، ذیقعدہ،ذی الحجہ۱۴۳۹ھ (اگست ، ستمبر ،اکتوبر، ۲۰۱۸ء) میں اس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔
مجلہ المآثر کی ۲۷؍ سالہ مدت میں اس کا کوئی خصوصی شمارہ نہیں شائع ہوا۔ رسالہ کے سرپرست مولانا رشید احمدالاعظمی مدظلہ ایک عرصہ سے اس کے لئے کوشاں تھے کہ المآثر کا ایک خصوصی شمارہ شائع کیا جائے جس میں حضرت محدث الاعظمی پر شائع ہونے والے اب تک کے تمام اہم مضامین کو شامل کیا جائے ، خواہ وہ المآثر میں شائع ہوئے ہوں یا اس کے علاوہ کسی بھی اخبار ورسائل میں ۔ مدیر رسالہ ڈاکٹر مسعود الاعظمی نے اس کی جمع وترتیب کا کام شروع کیا ، اورحضرت محدث اعظمی پر شائع ہونے والی تمام تحریروں کو یکجا کرکے اس میں سے وہ تحریریں منتخب کیں جو اس خصوصی اشاعت میں شائع ہوئیں۔

اس کا آغاز مرتب کے ’’حرف آغاز ‘‘ سے ہوتا ہے ،اس کے بعد رسالہ کے سرپرست مولانا رشید احمد الاعظمی کا ’’ کلمۂ افتتاح ‘‘ ہے جو المآثر کے پہلے شمارے کے لئے لکھا گیا تھا۔پھر اسی پہلے شمارہ کا اداریہ ہے جو اس کے مدیر اول مولانا اعجاز احمد اعظمی ؒ کے قلم اعجاز رقم کا شاہکار ہے ، اس کی ابتدائی سطریں ملاحظہ ہوں،اس میں حضرت محدث الاعظمی کا تعارف کس قدر جامع اور بلیغ انداز میں کرایا گیا ہے:

’’ اب سے تقریباً ایک صدی قبل غیر منقسم ہندوستان کے ایک چھوٹے سے صنعتی قصبہ مئو کے اُفُق پر علم وفضل کا ایک ہلال نمودار ہوا ، جو باوجود بے سروسانی اور قصبہ کی علمی تنگ دامانی کے چرخِ کمال پر بڑھتا رہا، چڑھتا رہا ،یہاں تک کہ تھوڑی ہی مدت میں وہ آسمانِ علم کا بدرِ کامل بن کر چمکنے لگا ۔ کچھ لوگوں نے اسے پہچانا اور بہت سے لوگ اس کے رتبہ سے واقف نہ ہوسکے ، لیکن اس کی عظمت سب کے قلوب پر چھائی رہی ، سب کو اس کی دستگاہِ علم کی بلندی کا اعتراف رہا ۔ اس نے اپنی زندگی کا تقریباً تمامتر حصہ مئو میں گذارا ، مگر اس کی شہرت کا آوازہ عرب وعجم میں گونجا ، وہ خود نہایت خاموش تھا ، مگر اس کا چرچا شہر در شہر تھا ، اس نے خود کو ہمیشہ چھپااور دبا کر رکھا، مگر خدا نے اسے ظاہر کیا اور ابھارا ۔ اُسے متعدد علوم میں مہارتِ تامّہ حاصل تھی ، مگر خصوصیت سے علم حدیث اور اس کی ذیلی شاخ فن اسماء الرجال میں اسے جو حذاقت ومہارت حاصل تھی اس کی دورِ حاضر میں نظیر نہ تھی ، وہ حدیث رسول کا سچا اور مخلص خادم تھا ، اسے رسول کی ذات سے عشق تھا ، والہانہ لگاؤ تھا ، اس لئے حدیثِ رسول اس کے لئے سرمایۂ زندگی اور آبِ حیات تھی ، اس کے دن حدیثی ذخائر کی جستجو میں صرف ہوتے ، اور اس کی راتیں ان کے مطالعہ وتحقیق میں بسر ہوتیں۔ اس کا حافظہ زبردست تھا ، اس نے آبِ زمزم پیتے وقت فیضانِ الٰہی سے حافظ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ جیسے علم کی درخواست کی تھی ، اس کی ذکاوت بے مثال تھی ، اس کی دقّتِ نظر عجیب تھی ، اس کا مطالعہ وسیع تھااور عمیق بھی ! ان خصوصیات نے اسے علم وتحقیق بالخصوص علومِ حدیث کی ایک زندہ علامت بنادیا تھا ، وہ علماء وفضلاء کا مرجع تھا ، تحقیق کی الجھی ہوئی گتھیاں اس کے یہاںسلجھتی تھیں، حدیث وقرآن کی مشکلات کا تشفی بخش حل اس کے پاس تھا۔ علم رجال کے مخفی خزانوں پر اس کی دسترس تھی ، فقاہت اس کی طبیعت تھی ، وہ سراپا علم تھا۔ یہ بدرِ تاباں ! نہیں ! آسمانِ فضل وکمال کا آفتابِ درخشاں ۹۳؍سال تک مئو کے افق پر چمکتا رہا ،اور دنیائے علم کو روشنی اور حرارت بخشتا رہا ، آخر میں اس کا جسم انتہائی نحیف ونزار ہوگیا تھا ، قُویٰ جواب دے گئے تھے ، بینائی نے نظریں چرالی تھیں ، مگر دل ودماغ بالکل تازہ دم اور نشیط تھے ، حالت یہ ہے کہ بستر علالت پر جسمِ بیمار پڑا ہو اہے ، آنکھیںبند ہیں اور حدیث کے ایک مشہور ذخیرہ ’’ مُصَنَّفْ اَبِیْ شَیْبَہ‘‘ کی تحقیق جاری ہے ، ایک ایک لفظ پر غور ہورہا ہے ، غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے ، حواشی املا ہورہے ہیں ، اسی دوران خالق کائنات کی طرف سے بلاوا آگیا ، کتابِ دنیا بند کردی گئی ، آخرت کا دروازہ کھول دیا گیا ، زندگی بھر کی کاوش وکوشش کا صلہ ملنے کا وقت آگیا۔ کچھ عرصہ تک یہ آفتاب موت وحیات کی کشمکش میں جھلملاتا رہا ، بالآخر ۱۰؍ رمضان المبارک کی شام کو جب دنیا کو روشنی بخشنے والا آفتاب غروب ہورہاتھا اور رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عشرۂ مغفرت میں داخل ہورہا تھا ، ٹھیک اسی وقت علم وفضل کا یہ آفتاب دنیا کے افق سے غروب ہوکر حق تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں جاپہونچا۔إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون

یہ عظیم ہستی مئو اور اس کے اطراف میں ’’ بڑے مولانا ‘‘ کے نام سے معروف تھی اور علماء وفضلاء اسے ’’ محدثِ جلیل، فاضل اَجل، ابولمآثر حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔‘‘ (ص:۱۴)

یہ خصوصی اشاعت محدث الاعظمیؒ کی حیات وخدمات پر نہایت قیمتی اور اہم علمی دستاویز ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل مشاہیر اہل قلم کی فہرست سے لگایا جاسکتا ہے جن کے مضامین ومقالات اس خاص نمبر کی زینت ہیں:

مولانا رشید احمد الاعظمی، مولانا اعجاز احمد اعظمی،مولانا ابوالحسن علی ندوی،مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، مولانا نظام الدین اسیر ادروی،شیخ نورالدین عتر،مولاناڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی،مولانا محمد ظفیر الدین مفتاحی، مولانا محمد عثمان معروفی،مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ،شیخ نذیر حسین لاہور، مولانا مجیب اللہ ندوی،مولانا افضال الحق جوہر قاسمی، مولانا زین العابدین معروفی ،مولانا برہان الدین سنبھلی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، پروفیسر عبدالرحمن مومن،مولانا محمد حنیف ملی،مولانا عزیز الحسن صدیقی، مولانا سعید الرحمن الاعظمی ندوی، مولانا حبیب الرحمن ندوی، مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، مولانا ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی،مولانا محمود الازہار ندوی، ڈاکٹر عبدالمعید،مولانا مجیب الاغفار اسعدؔ اعظمیؒ،مولانا فضل حق خیرآبادی ، ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل، شاہد صدیقی(مدیر نئی دنیا)مبشر اعجاز اعظمی، ڈاکٹر محمد صہیب الہٰ آبادی،مولانا عبدالحفیظ رحمانی ،مولانا جمیل احمد نذیری،مولانا محمد عبید اللہ الاسعدی، مولانا عطاء الرحمن عطاؔ مفتاحی وغیرہ

مقالات کے بعد صفحہ ۵۱۳ سے ۵۲۴ تک ملک وبیرون ملک کے نامور اصحاب علم وفضل کے تعزیتی مکتوبات کے اقتباسات ہیں۔ محدث الاعظمی کے انتقال کے معاً بعد مولانا اسیر ادروی نے سہ ماہی ترجمان الاسلام بنارس کا ’’محدث اعظمی ‘‘ نمبر نکالا تھا ۔ صفحہ ۵۲۵ سے ۵۴۴ تک اس خاص نمبر سے متعلق متعدد اہل علم کے تاثرات وآراء ہیں ، جن میں مولانا انظر شاہ کشمیری ،مولانا قاضی اطہر مبارکپوری، مولانا محمد حنیف ملی، پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی ، پروفیسر بدرالدین الحافظ اور ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی جیسے اہل علم ہیں۔
صفحہ ۵۴۴ سے ۵۶۶ تک ’’ حیات ابوالمآثر‘‘ مولفہ ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی پر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی،مولانا عمیر الصدیق ندوی،مولانا نور عالم خلیل امینی، مولانا محمد علاء الدین ندوی اور ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کے تبصرے وتاثرات ہیں ۔اس کے بعد پروفیسر حفیظ بنارسی ، مولانا مجیب الغفار اسعد اعظمی اور امیرالاعظمی کے منظوم تاثرات ہیں ۔

مجلہ المآثر مئو خصوصی اشاعت بیاد ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *