Web Analytics Made Easy -
StatCounter

مولانا شبیر احمد ندوی

مولانا شبیر احمد ندوی

مولانا شبیر احمد ندوی

معھد دار العلوم ندوۃ العلماء کے سابق ناظر و سینئر استاد مولانا شبیر احمد ندوی ابنِ حاجی عبد الرزاق صاحب نصیر آبادی گزشتہ کل بروز ہفتہ 31, دسمبر 2022ء باسٹھ (62) کی عمر میں دوپہر سے قبل دار فانی سے دار القرار کی طرف رحلت کرگئے

مولانا کئ سالوں سے ذیابیطس و دیگر عوارض میں مبتلا تھے اور انکا علاج لکھنؤ کے سہارا ہاسپٹل میں چل رہا تھا ہر ہفتہ ڈائلیسس کے لئے وہاں جاتے تھے ڈائلیسس کے لئے گئے ہوئے تھے کہ طبیعت بگڑنی شروع ہوئی یہاں تک وہیں وقت آخر آ پہونچا.

مولانا مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص اور معتمد علیہ حاجی عبد الرزاق صاحب نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے فرزند تھے

مولانا مرحوم کی ولادت 8,جون 1962ء کو ہوئ، ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کرنے کے بعد عالمیت کی تکمیل دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کی، تعلیم سے فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء ہی سے نکلنے والے عربی جریدے”الرائد” میں کم و بیش سات آٹھ سال خدمات انجام دیں، بعد ازاں دار العلوم ندوۃ العلماء ہی کے شعبہء ثانوی معھد دار العلوم میں تدریس سے وابستہ ہوگئے بعد میں جب معھد ہردوئی روڈ سکروری میں منتقل ہوا تو ڈاکٹر ہارون رشید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد معھد کی نظارت مولانا مرحوم کے سپرد کی گئی جس پر فائز رہتے ہوئے تادم حیات بحسن وخوبی اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے مولانا کا ندوۃ العلماء میں تقرر 1987ء کو ہوا تھا اس طرح مولانا پینتیس (35) سال دار العلوم کی خدمت کرتے ہوئے اور اپنے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مالک حقیقی سے جاملے

مولانا کے والد محترم کو حضرت مفکر اسلام رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طویل خدمت و رفاقت کا شرف حاصل ہوا تھا 1957ء سے 31, دسمبر 1999ء کے طویل عرصہ تک حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو حضرت مفکر اسلام کی خصوصی قربت اور قابلِ اعتماد خدمت کا موقع ملا

ظاہر ہے کہ مولانا مرحوم کو حضرت مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں اور توجہات کا بھی خصوصی حصہ نصیب ہوا ہوگا کیونکہ وہ حضرت کے خادم خاص کے فرزند اکبر تھے اور حضرت کی حیات تک معھد دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاد بھی،

اس کے علاوہ حضرت مفکر اسلام کے عظیم خاندان “خانوادہ علم اللہی” کی تمام ہی شخصیات اور ندوۃ العلماء کے اکابرین کی نگاہوں میں مولانا مرحوم کو قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ حاجی صاحب کے فرزند اکبر اور معھد دار العلوم ندوۃ العلماء کےناظر اور سینئر استاد کی حیثیت سے جانے جاتے تھےاس کے علاوہ انکے اوصافِ حمیدہ نے بھی ان کو بڑوں چھوٹوں سب کی نگاہوں قابلِ اعتماد و ذی مرتبہ بنادیا تھا

مولانا مرحوم کے مؤقر دوستوں میں عالمی شہرت رکھنے والے اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ لندن)حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور مولانا مرحوم کی بابت لکھتے ہیں:

“مرحوم سے میری قربت کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ مرحوم کے صاحب زادے برادر معظم شبیر احمد ندوی میرے مخلص ترین دوستوں میں سے ہیں تواضع و خلوص، سادگی اور صفائی قلب میں اپنے والد مرحوم کی مثال، ان کے یہ اوصاف و دیگر اخلاق کریمانہ ہم ساتھیوں کے لئے ہمیشہ قابلِ رشک رہے ہیں یہ ان کی سعادتمندی کی دلیل ہے.”

(بحوالہ حاجی عبد الرزاق نصرآبادی صفحہ:60)

مولانا مرحوم سے راقم الحروف کی پہلی دید و شنید اس وقت ہوئی جب راقم کا بحیثیت مدرس تقرر بحکم حضرت ناظم صاحب دامت برکاتہم معھد دار العلوم ندوۃ العلماء سکروری میں (2016ء ) میں ہوا اس وقت مولانا مرحوم تندرست و توانا تھے اور ازخود پیدل چل کر معھد کی درسگاہ میں کار تدریس کے لئے حاضر ہوتے تھے اور پوری مستعدی سے کار تدریس میں منہمک رہتے تھے پھر جب چند دنوں کے بعد ناظر معھد مولانا فخر الحسن خان ندوی صاحب کی معھد سے دار العلوم ندوۃ العلماء کے شعبہء تعمیر وترقی میں منتقلی ہوگئ اور باقاعدہ مولانا کو معھد کی نظارت سپرد کی گئی تو مولانا مرحوم باقاعدہ طور پر معھد کی نظارت کے فرائض بھی پوری تن دہی اور پابندی فکر و عمل کے ساتھ بحسن وخوبی انجام دینے لگے

راقم الحروف کو مولانا کی شخصیت میں جو صفات بہت نمایاں طور پر بار بار مشاہدہ کرنے کو ملیں ان میں سب سے زیادہ جن کمیاب صفات و عادات نے راقم الحروف کو متاثر کیا وہ تھیں مولانا مرحوم کی کم سخنی ، متانت و سنجیدگی ، نرم خوئی اور بےضرر طبیعت ، کئ مواقع پر دفتری معاملات ، انتظامی امور کو مولانا مرحوم کو بڑے ہی حکیمانہ ، حلیمانہ انداز میں طے کرتے دیکھا حالانکہ وہ مواقع کسی قدر سختی طلب بھی تھے مگر مولانا مرحوم کی فطری پاکیزہ نفسی، نرمی پسندی ،اور سنجیدہ شخصیت نے انھیں اس معمولی سختی سے بھی باز رکھا ، معھد میں خدمات انجام دے رہے کئ رفقاء کار کی زبانی سنا کہ”مولانا نے آج تک کسی کو اپنے قلم سے نقصان نہیں پہونچایا”

مولانا مرحوم کو دیکھا کہ اکثر خاموش اور تنہا ہی بیٹھے رہتے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ سب پر نگاہیں رہتیں، مولانا مرحوم کو کئ ثقافتی پروگراموں میں خطاب کرتے ہوئے دیکھا مگر ان کی گفتگو بقدرِ ضرورت ہی ہوتی تھی اور وہ بھی مختصر اور نپے تلے الفاظ میں اور بس،

ادھر کووڈ 19 کی وبائی صورتحال اور لاک ڈاؤن کے بعد سے جب آن لائن اور پھر آف لائن تعلیم کا آغاز ہوا تو مولانا کی طبیعت اکثر ناساز ہی رہتی تھی مگر اس کے باوجود ہمیشہ پابندی سے دفتر حاضر ہوتے اور پوری ہمت و حوصلے کے ساتھ آخری گھنٹے کے آغاز تک بیٹھے رہتے قوت سماعت و بصارت دونوں کے کمزور ہوجانےکے باوجود تما کام توجہ و فکرمندی کے ساتھ انجام دیتے ادھر حالیہ تقریباً ایک سال سے از خود چلنا پھرنا بھی دشوار ونا ممکن ہوگیا تھا لیکن راقم الحروف نے پوری مدت علالت یہاں تک ابھی گزشتہ جمعرات تک کو معھد کی درسگاہ میں معزز اساتذہ کرام کے درمیان میدان میں خاموش بیٹھا ہوا دیکھا تھا مولانا کچھ مہینوں سے بہت کم سن پارہے تھے مگر پھر بھی حسب ضرورت اساتذہ کرام اور ملازمین ، حاضرین سے گفتگو کرتے تھے بعض ضروری مواقع پر لکھ کر بھی گفت و شنید کرتے دیکھا

مولانا مرحوم نے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد کو فیض یاب کیا جن میں سے کئ خود دار العلوم ندوۃ العلماء اور دیگر مؤقر تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں

راقم الحروف کی معلومات کی حد تک مولانا مرحوم نے اپنے والد محترم حضرت حاجی عبد الرزاق صاحب (خادم خاص حضرت مفکر اسلام رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک قیمتی کتاب مرتب کی ہے جس میں ندوہ کے اکابرین ، حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمہ کے متعلقین قلمکاروں کے پر مغز مضامین قلمبند ہیں حضرت ناظم صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہی کی خصوصی ایماء پر مولانا مرحوم نے یہ مضامین کتابی شکل میں مرتب کرکے محفوظ کردیے تھے معھد کے”الاصلاح”سالانہ رسالوں میں بھی مولانا کے پیغامات پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے تھے

اس کے علاوہ مولانا مرحوم” خوشحال ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی”کے زیر انتظام چلنے والے کئ اداروں” (مدرسہ أحمد العلوم، سن قیام 1975ء, سلائی کڑھائی سنٹر، دعوت و ارشاداور دینی معلومات کی نشر واشاعت، لائبریری (مکتبہ محمد ثانی حسنی)” کے نگراں بھی تھے اور بہت سے خدمت انسانیت کے رفاہی کاموں شریک رہتے تھے بالخصوص اپنے قصبہ نصیر آباد و مضافات کی بچیوں کی معیاری دینی تعلیم کے لئے حضرت مفکر اسلام رحمۃ اللّٰہ علیہ کی والدہ ماجدہ کے ہمنام ادارہ” مدرسہ خیر النساء” (سن قیام 1980ء) کی پوری نگرانی تادم آخر فرماتے رہے جن میں آپ کی کئ بیٹیاں (صالحہ شبیر، مریم شبیر،وغیرہ) تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں

مولانا مرحوم نے اپنے پیچھے شاگردوں و فیض یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد کے علاوہ پسماندگان میں بیوہ، چار بیٹے محمد حمزہ، محمد بشیر ندوی، محمد زبیر ندوی و محمد عبید اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں

محمد توحید خان ندوی لکھنؤ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *