شکستہ پر ناول

شکستہ پر ناول خلیل جبران

خلیل جبران کا ناول شکستہ پر
ترجمہ پروفیسر کوثر مظہری
تبصرہ طیب فرقانی

اگرچہ آدمی آزاد پیدا ہوا ہے لیکن اپنے آبا و اجداد کے ذریعے وضع کردہ سخت قوانین کا غلام ہوتا ہے.
روح کی پیاس مادی اشیا کے نشے سے زیادہ شیریں ہوتی ہے اور اس کی دہشت حفظ جان سے عزیز تر
انسان کے ہونٹوں پر سب سے خوبصورت لفظ ماں ہوتا ہے۔
خموشی ہماری روحوں کو روشن کرتی ہے، دلوں سے سرگوشی کرتی ہے اور انھیں باہم ملا دیتی ہے۔
یہ اجنبی اور نا واقف نسل خواب اور بیداری کے درمیان سانس لے رہی ہے۔
ایک بوڑھے کا آنسو ایک نوجوان کے آنسو سے زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے۔ نوجوان کا آنسو گلاب کی پنکھڑی پر پڑا ہوا قطرۂ شبنم ہے جب کہ بوڑھے کا آنسو موسم سرما میں ہوا کے زور سے گرے ہوئے زرد پتے کی مانند ہے۔
وہ مظلوم قیدی جو جیل کی سلاخوں سے باہر نکل سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرتا، بزدل ہے۔
جس سپاہی نے اپنے سر کے اوپر چمکتی ہوئی تلواروں اور پیروں تلے خون کی نہروں کو دیکھا ہو، وہ گلیوں کے اوباش لڑکوں کے پھینکے گئے پتھر کی پروا نہیں کرتے۔
درج بالا اقتباسات خلیل جبران کے ناول : الاجنحۃ المتکسرہ” سے ماخوذ ہیں. اس ناول کے انگریزی ترجمہ : The Broken Wings سے اسے اردو قالب میں بہ عنوان : “شکستہ پر“ پیش کیا ہے ہمارے استاد محترم پروفیسر کوثر مظہری نے.

خلیل جبران کی نگارشات کے اقتباسات، میں یہاں وہاں پڑھتا رہا تھا لیکن ناول کے اسلوب نے بہت متاثر کیا. اسلوب میں جتنی کشش ہے اتنی ہی سفاکیت ہے. اس میں ایک قسم کی pull and push کی صورت پیدا ہوتی ہے. صرف یہی نہیں بلکہ پورے ناول میں طرب و کرب کی متوازی لہریں دوڑتی رہتی ہیں. یہ اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے. ناول کی کہانی بہت معمولی ہے. اگر اسے دو چار جملوں میں بیان کرنا ہو تو یوں ہوگا کہ راوی کو ایک معصوم سی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے. لڑکی کو بھی اس سے محبت ہوجاتی ہے. پھر ایک رقیب درمیان میں آتا ہے اور لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف “رقیب روسیاہ” سے ہوجاتی ہے. دونوں عاشق ایک قدیم عبادت گاہ میں چھپ چھپ کر چند دن ملتے ہیں اور ایک دن لڑکی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوجاتی ہے. کہانی المیہ ہے. رومانی خصوصیت کی حامل ہے.

لیکن اتنی سی کہانی کی وجہ سے اس ناول کو اتنی شہرت و مقبولیت ہرگز نہیں مل سکتی. اس ناول کی شہرت و مقبولیت کی اصل وجہ اس کا اسلوب ہے. خلیل جبران الفاظ و خیالات کا دھنی ہے. وہ ایک ہی مضمون کو الگ الگ ڈھنگ سے سو بار باندھ سکتا ہے. وہ ایک باب شروع کرتا ہے اور ایک یا دو جملے کہانی سے متعلق لکھتا ہے اور دو سے ڈھائی صفحے کہانی کے متعلقات و انسلاکات پر لکھ ڈالتا ہے. آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ کہانی کا حصہ نہیں ہے. کیوں کہ ناول صرف عشقیہ کہانی نہیں بیان کرتا بلکہ اس کا موضوعاتی بیانیہ سماجی ناانصافی، روحانیت، خواتین کی مظلومیت اور مشرقی معاشرے میں مذہب اور رواج کے تصادم کا بیانیہ بھی ہے. مثلاً وہ ایک مقام پر لکھتا ہے :

نئی تہذیب نے عورت کو قدرے عقل مند بنا دیا ہے لیکن مردوں کے لالچ اور نئی تہذیب نے عورت کی مصیبت میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ کل کی عورت ایک خوش مزاج بیوی تھی لیکن آج کی عورت ایک غم زدہ بیگم ہے۔ پہلے وہ روشنی میں آنکھیں بند کر کے بے خوف و خطر چلتی تھی لیکن آج کی عورت آنکھیں کھول کر چلنے کے باوجود ضلالت میں محصور ہے۔ وہ اپنی بے خبری میں حسین تھی، اپنی سادگی میں پاکیزہ اور اپنی کمزوری میں مستحکم ۔ آج وہ اپنی بناوٹ اور تصنع میں بدصورت ہے۔ وہ اپنی معلومات کے باوجود آج سطحی پن اور بے کیفی کا پیکر ہے۔ کیا وہ دن آئے گا جب خوبصورتی، علم ، نیکی اور سطحی پن جسم کی کمزوری اور روح کی طاقت ، سب ایک ساتھ کسی عورت میں جمع ہو جائیں؟

واضح ہو کہ یہ ناول آج سے قریب ایک صدی قبل تخلیق پذیر ہوا تھا. اور جو کچھ خلیل جبران نے لکھا، نسائی مسائل پر لکھنے والے آج بھی وہی کچھ لکھ رہے ہیں. یعنی اس کے پیش کردہ خیالات میں آج بھی وہی تازگی ہے. وہی کشش ہے. مذکورہ اقتباس کو ایک بار پھر پڑھیں اور پیش کردہ خیالات سے پرے ان الفاظ و محاورات پر غور کریں
عورت کا عقل مند ہونا، مصیبت میں اضافہ ہونا، خوش مزاج بیوی، غم زدہ بیگم، بند آنکھیں، کھلی آنکھیں، بے خوف و خطر چلنا، ضلالت میں محصور ہونا، بے خبری میں حسین، تصنع میں بد صورت.

الفاظ و محاورات سے خلق شدہ پیکر متضاد کیفیات و احساسات کے حامل ہیں. مذکور ہوا کہ ناول میں پش اینڈ پل کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے. یہ مثال میرے اس خیال کو مستحکم کرتی ہے. پورے ناول میں بیان کی یہی صورت ہے. جو اس ناول کے امتیاز کا باعث ہے. بنیادی طور سے وہ ناول میں خوشی اور غم کی لہروں کو ایسی دو دریاؤں کی طرح پیش کرتا ہے جو متوازی طور سے ساتھ ساتھ بہتی ہوں اور باہم مدغم بھی نہیں ہوتیں. ہمارے تاثرات یہ ہیں کہ یہ ناول نثر میں اردو غزل ہے، غزل جو کلاسیکی ہے.

خلیل جبران شعوری طور سے سیاسی بیانیے سے گریز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے نزدیک ملک و قوم کو فریب دینے والوں کی کہانی بیان کرنے سے بہتر ہے کسی شکستہ خاطر اور مصیبت زدہ عورت کی کہانی پیش کرنا، لیکن اس ناول میں اس نے مذہبی پیشواؤں کو متعدد مقام پر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے. وہ مذہبی پیشواؤں کے لالچی ذہن کو اجاگر کرتا ہے. شاید اس کی وجہ اس کی اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ رہے ہوں، اس کے بچپن اور جوانی کے دن مالی اور معاشی حالات کے اعتبار سے خوش گوار و خوش حال نہیں رہے. ناول کے بیانیے کے تجزیے سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں وہ مذہب کا صریح منکر نہیں ہے بلکہ مذہب کی آڑ لینے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے. وہ روح، روحانیت اور تقدس کی بات کرتا ہے، حتی کہ اپنی محبوبہ سے ملاقات کے لیے بھی وہ ایک قدیم مندر کا انتخاب کرتا ہے جہاں اسے احساس ہے کہ جو آنکھ مچولی وہ کرر ہا ہے وہ خدا کے سایے میں انجام پذیر ہو رہا ہے. اس سلسلے کے دو دل چسپ اور معنی خیز اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
“مشرق میں مذہبی پیشوا اپنی وافر دولت سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ اہل خاندان کو ظالم اور برتر بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ ایک شاہزادہ کی بزرگی حسب وراثت اس کے بڑے بیٹے کو ملتی ہے لیکن مذہبی پیشوا کی خوشی اور سر بلندی اس کے بھائیوں اور بھتیجوں تک چھوت کے مرض کی طرح پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح ایک عیسائی پادری، ایک مسلم امام اور ایک برہمن پجاری سمندر میں رینگنے والے ان جانوروں کے زمرے میں آتے ہیں جو اپنے بے شمار ریشوں (Tentacles) سے اپنا شکار پکڑتے میں اور ان گنت منھ سے ان کا خون چوس لیتے ہیں۔“

اس اقتباس میں جہاں حریص اور لالچی مذہبی پیشوا پر تنقید کی گئی وہیں تقابل اور تضاد کی صورتیں بھی ابھری ہیں. مشرق کا مغرب سے تقابل، مذہبی پیشوا کا شاہی افراد سے تقابل، انسان اور جانور کا تقابل، خوشی اور مرض کا تقابل، سربلندی اور خون چوسنے کا تقابل و تضاد خلیل جبران کے اسلوب کو دل کش اور عظیم بناتا ہے.

اس چھوٹے سے مندر میں گہری خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ عوام الناس پر ی یہ دیوی کے اسرار کو منکشف کر رہا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزشتہ تہذیبوں اور مذہبی ارتقا کو بیان کر رہا ہے۔ ایسی جگہ ایک شاعر کو اس مقام سے بہت دور لے جاتی ہے جہاں وہ بود و باش کرتا ہے، اور فلسفیوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ انسانوں کی پیدائش مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ انھوں نے اس چیز کی ضرورت محسوس کی جسے دیکھا نہیں تھا۔ علامتیں تراشی گئیں، جن کے معانی نے ان کے پوشیدہ اسرار اور موت و زندگی سے متعلق ان کی آرزومندی کو فاش کر دیا۔

مذکورہ دونوں اقتباسات میں مذہبی بیانیہ اس طرح آیا کہ اس کا تہذیبی سیاق بھی ابھرتا ہے. لیکن قاری کو مذہب سے بیزار نہیں کرتا بلکہ اسے فکر کی ایک راہ پر ڈال دیتا ہے. اس کے تزکیے کا سامان فراہم کرتا ہے اور ناول کی بنت کو پختہ کرتا ہے.

کلیم الدین احمد نے اپنے ایک مضمون میں چوسر کے ایک قصے کی مثال دی ہے جو 28 سطروں کا تھا اور چوسر نے اسے پھیلا کر 21 صفحوں تک پھیلا دیا. وہ ایسا اس وجہ سے کر پایا کہ اس نے ممتاز الفاظ کا ممتاز طریقے سے استعمال کیا. یہی بات خلیل جبران کے اس ناول کے بارے میں کہی جاسکتی ہے. اس نے مختصر سے قصے کو پھیلا کر ایک ناول کی شکل دے دی ہے اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس نے اپنے الفاظ، بیان اور اسلوب کو ممتاز طریقے سے استعمال کیا.

ظاہر ہے ایسے ناولوں میں یوں بھی کرداروں کا جم گھٹ لگانا مشکل ہے، خلیل جبران نے اس میں مرکزی طور سے صرف دو کردار رکھے ہیں. ایک عاشق (بیان کنندہ) اور ایک معشوقہ، جس کا نام بھی کلاسیکی ہے :سلمی کرامی. اور غور سے دیکھیں تو یہ ناول صرف سلمی کی کہانی ہے جو ایک مصیبت زدہ مشرقی عورت کا استعارہ ہے.

ایک اور نکتہ جس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب خلیل جبران مکالمہ نگاری پر آتا ہے تو وہ مکالمہ نگاری کے روایتی فنی اصولوں کو توڑ دیتا ہے. اس کے مکالمے بہت طویل ہیں، لیکن اسلوب کی دل کشی اس طوالت کی طرف نظر ہی نہیں کرنے دیتی. ابن صفی کے ناولوں کو پڑھتے ہوئے ہم طویل مکالمے سے جب گزرتے ہیں تو اس کے فنی جواز کی جو دلیلیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک اسلوب کی دل کشی بھی ہے. اس ناول کے طویل مکالمے کے مطالعے کے بعد مجھے اس کی نظیر بھی مل گئی.

مذکورہ اقتباسات سے آپ یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ پروفیسر کوثر مظہری نے اس کا ترجمہ کس خوبی سے کیا ہے. انھوں نے کوشش کی ہے کہ اسلوب کی پرکاری اور اثر انگیزی برقرار رہے. 1996 میں ترجمے کی پہلی اشاعت پر انھوں نے اس پر ایک مقدمہ بھی لکھا تھا جو دوسری اشاعت (2025) میں بھی شامل ہے. مقدمے میں انھوں نے خلیل جبران کی سوانح و شخصیت اور کارناموں پر روشنی ڈالی ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *