Web Analytics Made Easy -
StatCounter

حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری

احوال و ارشادات حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری

حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری

حیات نامہ | احوال و ارشادات حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری

یہ کتاب حضرت سید عثمان علی شاہ المعروف لعل شاہ چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و آثار پر مشتمل ایک جامع سوانح حیات ہے۔
حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری عالم جلیل، فاضل نبیل، شیخ طریقت، صاحب کرامات، عاجزی و انکساری کا پیکر، متقی و پرہیزگار اور کئی کتابوں کے مؤلف تھے۔ ریاض الصالحین کی تین جلدوں پر مشتمل صوفیانہ شرح لکھی۔ سن ولادت میں دو قول ہیں ایک 1887ءیا 1888ء جبکہ دوسرا 1910ء اور تاریخ وفات 27 جمادی الثانی 1416ھ / 21 نومبر 1995ء ہے۔

حیات نامہ کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول احوال و آثار پر مشتمل ہے ، جس میں ولادت، نام و نسب، تعلیم و تربیت، بیعت و خلافت، ہجرت اور کرامات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب دوم حضرت کے ملفوظات پر مشتمل ہے، جو صفحہ 97 سے لے کر 154 تک ہیں، جس میں بڑی ہی نفع بخش باتیں درج ہیں۔

باب سوم میں حضرت کی سماجی، دینی و ملی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ باب کتاب کا سب سے اہم باب ہے، جس میں مؤلف نے حضرت کے کردار ، خدمات اور اُن کے معاشرے میں پڑنے والے اثرات پر مفصل کلام کیا ہے۔ باب چہارم میں آپ کے بعض مکاتیب کو جمع کیا گیا ہے۔ باب پنجم میں آپ کے تین خلفا کا بہت ہی مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے

باب ششتم میں صرف اُن چند معاصرین کا تذکرہ ہے، جن کے ساتھ حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری کا کسی نہ کسی طرح کوئی علمی ،روحانی وملی تعلق رہا ہے، ان میں خواجہ نظام الدین تونسوی، ڈاکٹر اقبال ،محدث اعظم مولانا سردار احمد چشتی قادری اور خواجہ قمر الدین سیالوی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ اس کے بعد عکسی صحائف اور مآخذ و مراجع کی فہرست شامل ہے۔ جبکہ آخر میں آیات، احادیث، شخصیات، اماکن، سنین، کتابیات اور اشعار کا مفصل اشاریہ دیا ہے۔

مولانا شہروز احمد نظامی کا تالیف کردہ حیات نامہ تذکرہ نویسی پر اچھی کاوش ہے۔ کافی عرصے بعد ایک اچھا تذکرہ پڑھنے کو ملا ہے۔ عمومی طو پر ہمارے ہاں مشائخ کے تذکرہ میں کرامات اور عجیب و غریب نکات کا غلبہ ہوتا ہے، جو کسی شخصیت کے اصل پہلو کو چھپا دیتا ہے۔ جبکہ موصوف نے تذکرہ کو کرامات اور عقیدت سے بھرنے کی بجائے حضرت کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی خوب کوشش کی ہے۔ ہر روایت کو لینے سے پہلے اس کا مآخذ پرکھا ہے۔ ایک جگہ دو متضاد روایات میں تطبیق بھی دی ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ موصوف نے حضرت سید لعل شاہ چشتی اجمیری کی سیرت بیان کرنے والے راویوں کے حالات بھی جمع کر رکھے ہیں۔ راویان حدیث کے حالات جمع کرنا امت کی ضرورت تھی اور امت نے اس کا پورا حق ادا کیا ہے۔ جبکہ علما و مشائخ کی سیرت بیان کرنے والے راویوں کے حالات جمع کرنا تاریخ سے ثابت ضرور ہے، لیکن اسے قبولیت عامہ نہیں ملی۔ موصوف نے اس روایت کو بھی زندہ کر دیا ہے۔

ہمارے ہاں زیادہ تر کسی مخطوطہ یا قلمی کتاب کی تصحیح و تحقیق کے دوران ہی کتاب کا اشاریہ تیار کیا جاتا ہے، نئی تالیف کردہ کتابوں میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ موصوف نے کتاب کا مفصل اشاریہ تیار کرکے خود کو چند محققین میں شامل کر لیا ہے ، جو اس کی اہمیت سے بھی واقف ہیں اور اس کو ضروری بھی سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *