Web Analytics Made Easy -
StatCounter

ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد

ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد

ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر بالرائے کا مطلب سمجھنے میں لوگوں کو لغزشیں ہوئی ہیں ۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مطالب میں عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے ۔کیونکہ اگر یہ مطلب ہو تو پھر قرآن کا درس مطالعہ ہی بے سود ہوجائے ، حالانکہ خود قرآن کا یہ حال ہے کہ اول سے لے کر آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت ہے ، اور ہر جگہ مطالعہ کرتا ہے

Tarjuman ul Quran Maulana Azad

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (24:47) در اصل تفسیر بالرائے میں ” رائے ” لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ”رائے” مصطلحہ شارع ہے ،اور اس سے مقصود ایسی تفسیر ہے جو اس لیے نہ کی جائے کہ خود قرآن کیا کہتا ہے، بلکہ اس لیے کی جائے کہ ہماری کوئی ٹھہرائی ہوئی رائے کیا چاہتی ہے ،اور کس طرح قرآن کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کر دیا جا سکتا ہے ۔

مثلا جب باب عقائد میں ردوکد شروع ہوئی ، تو مختلف مذاہب كلا میہ پیدا ہو گئے ۔ ہر مذہب کے مناظر اپنے مذہب پر نصوم قرآنیہ کوڈھالے۔ وہ اس کی جستجو میں نہ تھے کہ قرآن کیا کہتا ہے؟ بلکہ ساری کاوش اس کی تھی کہ کسی طرح اسے اپنے مذہب کا موئد دکھلا دیں۔ اس طرح کی تفسیر تفسیر بالرائے گی۔

یا مثلا مذاہب فقہیہ کے مقلدوں میں جب تخرب و تشیع کے جذبات تیز ہوئے ، تو اپنے اپنے مسائل کی پچ میں آیات قرآنیہ کھینچے تانے لگے۔ اس کی کچھ فکر نہ تھی کہ لغت عربی کے صاف صاف معانی، اسلوب بیان کا قدرتی مقتضی عقل و بصیرت کا واضح فیصلہ کیا کہتا ہے؟ تمام تر کوشش یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح قرآن کو اپنے امام کے مذہب کے مطابق کر دکھایئے۔ یہ طریق تفسیر تفسیرِ بالرائے ہے۔

یا مثلا صوفیا کا ایک گروہ اسرار و بطون کی جستجو میں دور تک نکل گیا، اور پھر اپنے موضوعہ عقائد و مباحث پر قرآن کو ڈھالنے لگا۔ قرآن کا کوئی حکم کوئی عقیدہ کوئی بیان تحریف معنوی سے نہ بچا۔یہ تفسیر تفسیر بالرائے تھی۔

یا مثلا قران کے طریق استدلال کومنطقی جامہ پہنانا، یا جہاں کہیں آسمان اور کواکب و نجوم کے الفاظ آ گئے ہیں، یونانی علم ہیئت کے مسائل چپکا نے لگنا، یقینا تفسیر بالرائے ہے۔

یا مثلا ، آج کل ہندوستان اور مصر کے بعض مدعیان اجتهاد و نظر نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ زمانہ حال کے اصول علم وترقی‘‘ قرآن سے ثابت کیے جائیں۔ یا جدید تحقیقات علمیہ کا اس سے استنباط کیا جائے۔ گویا قرآن صرف اسی لیے نازل ہوا ہے کہ جو بات کوپرنکس اور نیوٹن نے یا ڈارون اور ویلس نے بغیر کسی الہامی کتاب کے فلسفه اندیشیوں کے دریافت کر لی، اسے چند صدی پہلے معموں کی طرح دنیا کے کان میں پھونک دے، اور پھر وہ بھی صدیوں تک دنیا کی سمجھ میں نہ آئیں ۔ یہاں تک کہ موجودہ زمانہ کے مفسر پیدا ہوں، اور تیرہ سو برس پیشتر کے معمے حل فرمائیں۔ یقینا یہ طریق تفسیر بھی ٹھیک ٹھیک تفسیر بالرائے ہے۔
ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد رح, ص: 51-52

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *