یہ کتاب دہلی کے مشہور معروف مدرسہ عبدالرب کی تاریخ ہے ۔ محافظ ربانی سے اس کا ہجری سن تاسیس ۱۲۹۲ھ اور بتاریخ مدرسہ عبدالرب دلی سے عیسوی سن ۱۸۷۵ء برآمد ہوتا ہے۔ دہلی میں چار مدرسوں نے کافی شہرت حاصل کی ،۱۔ مدرسہ امینیہ دہلی ،۲۔ مدرسہ عالیہ فتحپوری ، ۳۔ مدرسہ حسین بخش اور مدرسہ عبدالرب ۔اول الذکر تینوں مدرسوں میں تومتعدد بار گیا ہوں لیکن اتفاق کی بات ہے کہ بکثرت دہلی جانے کے باوجود اب تک اس مدرسہ کی دیدو زیارت سے محروم ہوں۔ اس کتاب کو دیکھنے سے پہلے نہ جانے کس طرح میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مدرسہ عبدالرب ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میں ختم ہوگیا ہے،اس لئے کبھی اس کی جستجو بھی نہیں رہی ۔ اس کتاب کے مولف مولانا ظفرالدین قاسمی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنی یہ کتاب بھیج کر ہماری گم شدہ تاریخ کا ایک روشن باب ہمارے سامنے کردیا۔
اس مدرسہ کے بانی مولانا عبدالرب(م: محرم ۱۳۰۵ھ ۱۸۸۸ء) دہلی کے مشہور عالم وواعظ تھے ، ان کا تعلق دہلی کے ایک معزز علمی خانوادے سے تھا ، وہ اور ان کے والد مولانا عبدالخالق دہلوی دونوں شا ہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ کے شاگرد تھے ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ سے ان کے گہرے مراسم تھے ، مولانا کے مشورے سے ہی مذکورہ مدرسہ کی بنیاد رکھی،ابتداء میں یہ مدرسہ جامع مسجد دہلی کے شمالی جانب ایک گلی میں تھا ، اس وقت اس کا نام مدرسہ الاسلام دہلی تھا،اسے مدرسہ عربیہ دہلی بھی کہا جاتا تھا۔ مولانا نانوتوی کو اس مدرسہ سے خاص لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے تلمیذ خاص مولانا سید احمد حسن امروہی ،مولانا فخر الحسن گنگوہی اور مولانا عبدالعلی میرٹھی نے وہاں تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔اس دور میں مولانا نانوتوی وہیں منشی ممتاز علی کے مطبع میں تصحیح کتب کا کام کرتے تھے اور اول الذکر دونوںشاگردوں کی وجہ سے رات میں یہیں سوتے تھے ۔حضرت نانوتوی کی وجہ سے حضرت شیخ الہندکو بھی یہ مدرسہ بہت عزیز تھا ، مالٹا سے واپسی کے بعد دیوبند جانے سے پہلے یہاں تشریف لائے پھر دیوبند گئے ۔ ان کے چچازاد بھتیجے اور داماد مولانا محمد شفیع دیوبندی نے یہاں ۶۱؍سال تدریسی خدمات انجام دیں ، کئی سال وہ مدرسہ کے مہتمم بھی رہے ۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے تدریس کا آغاز یہیں سے کیا تھا ، جیسا کہ نفحۃ العنبر میں اس کی صراحت موجود ہے۔ ۱۸۸۷ء میں یہ مدرسہ جامع مسجد کے علاقہ سے اپنی موجودہ جگہ[کشمیری گیٹ] پر منتقل ہوا، مولانا عبدالرب دہلوی نے اپنی جواں سال بیٹی آسیہ بیگم کی وفات پر کشمیری گیٹ پر اس کے نام سے ایک مسجد آسیہ بیگم بنوائی اور مدرسہ اسی مسجد میں منتقل ہوگیا،اور اب تک وہیں ہے۔مولانا عبدالرب صاحب کے انتقال کے بعد مدرسہ انہی کے نام سے موسوم ہوگیا۔
کتاب کے ابتدائی پچاس صفحات میں قیام مدرسہ سے پہلے سلطنت مغلیہ کا زوال اور دہلی کے حالات، اس وقت علماء دہلی کی دینی جد وجہداور قیام مدارس کی کوشش، خاندان ولی اللٰہی کے نامور سپوتوں کا ذکر ،مولانا عبدالرب دہلوی اور ان کے خانوادے کے ساتھ دہلی کی کچھ دیگر شخصیات کا ذکر ہے۔ صفحہ ۹۸ سے مدرسہ کے قیام سے لے کر اب تک کے تفصیلی حالات ہیں، جس میں مدرسہ کےسرپرست حضرات ، یہاں تشریف لانے والے اہم علماء، مولانا عبد الرب کے بعد مدرسہ کے منتظمین ، مدرسین ، مہتمین وصدرالمدرسین ، ارباب شوریٰ، فارغین وفیض یافتگان سب کا ذکر ہے ، اس کتاب سے پہلی بار معلوم ہوا کہ مولانا محمد منظور نعمانی نے یہاں ایک سال تعلیم حاصل کی ہے اور جامع مسجد دہلی کے سابق امام مولانا سید عبد اللہ بخاری یہاں کے فارغین میں سے تھے۔
کتاب کے مولف مولانا ظفر الدین قاسمی(ولادت: ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۸ء) ایک جواں سال عالم ہیں ، دارالعلوم دیوبند سے شعبان ۱۴۲۱ھ (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں فضیلت کی تکمیل کی ، اور شوال ۱۴۲۱ء سے مذکورہ مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب وتالیف پر مولاناقابل ستائش و لائق تحسین ہیں کہ جس مدرسہ کی روداد صرف چند صفحات میں شائع ہوتی تھی انھوں نے غیر معمولی تلاش وجستجو کے نتیجہ میں پانچ سو صفحات کی کتاب مرتب کردی ، جس سے مدرسہ عبدالرب کی مفصل تاریخ کے ساتھ ساتھ اس دور کے دہلی کے بارے میں بھی بہت کچھ معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ کتاب کا نقش اول ہے ، کمیوں اور خامیوں کا راہ پاجانا کچھ بعید نہیں ہے ، جب کتاب اہل علم واہل نظر کی نگاہ سے گزرے گی تو بہت سی آراء ومعلومات سامنے آئیں گی ، مصنف کی تلاش ومحنت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا نقش ثانی نقش اول سے بہتر وبرتر ہوگا۔
ضیاء الحق خیرآبادی
Muhafiz e Rabani Tareekh Madarsa Abdul Rab Delhi, محافظ ربانی بتاریخ مدرسہ عبدالرب دلی