امام بخاری اور سماجی مسائل

امام بخاری اور سماجی مسائل

امام بخاری اور سماجی مسائل ،صحیح بخاری کا عصری مطالعہ، اچھوتے موضوع پر عمدہ کتاب ہے، ان شاء اللہ جلد چھپ کر قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی

تقريظ
قلم: راشد حسن مبارکپوری

امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (ت: ۲۵۶ہـ) کا نام آتے ہى اصحاب علم وفضل کى نگاہیں احترام اور توقیر سے جھک جاتی ہیں، ائمہ دین ومجتہدین امت میں سب سے بلند مقام پر باجماع امت فائز ہیں، آپ کى عظمت وبرترى کو دنیا نے باتفاقِ تمام نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ امیر المؤمنین فی الحدیث اور امام المحدثین والفقہاء جیسے القاب سے نوازا بھى ہے، عالم تحقیق وشعور میں یہ وہ القاب ہیں جن پر تعدیل وتوثیق ختم ہوتى ہے اور تحقیق وروایت اور حدیث واسناد کى چھان بین میں اس سے آگے کوئی مرحلہ نہیں ہوتا،جو اعزاز وتکریم امام بخارى رحمہ اللہ کو سینہ گیتی پر ملى وہ آپ کے بعد کسى کو نہ مل سکى،کیا دنیا میں اس سے بھى بڑا کوئى اعزاز ہوسکتا ہے! کوئی اس سے عظیم سرخ روئی ہوسکتى ہے! کسى اس سے بڑى عظمت کا احساس کیا جاسکتا ہے! ہزاروں اعزازات وعظمتیں اس عظیم مقام کے سامنے ہیچ ہیں۔

یہ مقام عظیم وبلند امام بخارى رحمہ اللہ کو کیونکر حاصل ہوا، یہ صرف اور صرف حدیث رسول گرامى صلى اللہ علیہ وسلم سے انتہائى وارفتگى اور جنون کى حد تک محبت کیوجہ سے حاصل ہوا۔ آپ نے اپنى پورى زندگى حدیث رسول اور سنت نبوى – علی صاحبہا أفضل الصلاۃ والتسلیم – کى حفاظت وتدوین میں گذار دى۔ آپ کا سب سے عظیم کارنامہ صحیح بخاری کى ترتیب وتدوین ہے۔ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جسے قرآن کریم کے بعد دنیا کى سب سے معتبر کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے، پورى دنیا نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ یہ حدیث کى سب سے معتبر اور موثوق کتاب ہے، صحیح بخارى اور صحیح مسلم کا کہیں کوئی حوالہ نظر آجائے تو وہ حوالہ بجائے خود معتبریت کى دلیل ہے، اس حوالہ کے بعد بحث وتحقیق کى حاجت ختم ہوجاتى ہے۔ علماے اسلام نے یہ بات بھى اجماعى طور پر طے کى ہے کہ اگر کوئی اس پر شک کرتا ہے یا اسکى احادیث کو ضعیف سمجھتا ہے تو وہ انکار وتشکیک سنت کے مرض میں مبتلا ہے۔ آج کل یہ فیشن چل پڑا ہے کہ علم وشعور کى پرخار وادیوں سے نابلد اور ناعاقبت اندیش بیمار ذہنیت کے کچھ حاملین صحیحین کى احادیث میں مین میخ نکالتے ہیں۔ رسول گرامى صلى اللہ علیہ وسلم کى زبان مبارک سے صادر شدہ کلمات کو شعورى یا غیر شعورى طور پر مشق ستم بناتے ہیں۔ اور اپنا سارا زور اس بات صرف کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایسا قول یا ایسى دلیل ہاتھ لگ جائے جس سے صحیحین کا استنادی مقام کمزور ثابت کرنے میں آسانی ہو تو وہ ایسا کرنے ہرگز گریز نہیں کرتے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کوقرآنی مزاج کا حامل کہتے ہیں، دراصل یہی اصلا نہ صرف صحیحین کے دشمن ہیں بلکہ بحیثیت مجموعى سنت کے بھى خیر خواہ نہیں ۔

بایں ہمہ امام بخارى رحمہ اللہ کى عظمت کا ستارہ ہمیشہ سے تمام اہل عالم کے لئے چمکتا رہا ہے اور علم فضل کى روشنى لٹاتا رہا ہے۔ تاریخ میں کبھى کوئی ایسا مرحلہ نہیں آیا کہ ان کى شخصیت کومجروح کرنے کى سعى کامیاب ہوسکى ہو۔ یہ سب کچھ آپ کے اخلاص للہیت تقوى شعارى نیک نفسی اور اسلامى شریعت سے بے پناہ لگاو اور سنت کے بقاء وتحفظ اور جمع وتدوین میں غیر معمولى جدوجہد اور انتھک کوششوں کے طفیل ہى ممکن ہوا۔ فیاض ازل نے آپ کے اندر سارى خوبیاں جمع کردی تھیں جو ایک عظیم انسان کے اندر ہوسکتى ہیں، بارگارہ الہى سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ جامع الصفات بنایا گیا۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے:
ولیس على الله بمستنکر
أن یجمع العالم فی واحد

امام بخارى کے بارے میں اس کتاب میں آپ کو بہت کچھ ملے گا لیکن ہم یہاں بطور استیناس چند ائمہ فن وجہابذہ وقت کے ستائشی کلمات واعترافات ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں:

امام اہل السنۃ والجماعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مَا أَخْرَجَتْ خُرَاسَانُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ بْنِ إِسْمَاعِيلَ». خراسان میں دوبارہ امام بخارى جیسا شخص پیدا نہ ہوا۔
امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : «أَشْهَدُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الدُّنْيَا مِثْلُكَ». میں گواہى دیتا ہوں کہ آپ (امام بخاری) جیسا دنیا بھر میں کوئی نہیں۔
امام حاکم کا قول شاید قول فیصل ہو۔ فرماتے ہیں: «هُوَ إِمَامُ أَهْلِ الحَدِيثِ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَهْلِ النَّقْلِ». امام بخاری بے شبہ امام اہل حدیث ہیں۔ اس پر علماء شریعت کا اتفاق ہے۔
[یہ سارے اقوال ملاحظہ ہوں: فتح الباري از حافظ ابن حجر : (۱/۱۸۵)۔ تهذيب التہذیب از حافظ (9 /50 – 54)۔ تهذيب الأسماء واللغات از امام نووي (2 / 71)]۔
امام ابن خزيمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مَا تَحت أَدِيم السَّمَاء أعلم بِالْحَدِيثِ من مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل». [«تذكرة الحفاظ للذهبي» (2/ 105)۔«فتح الباري لابن حجر» (1/ 485)] اس روئے زمیں پر امام بخاری سے بڑا حدیث کا عالم اور محدث نہیں دیکھا۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: «لم أر أعلم بالعلل والأسانيد من مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ» [«فتح الباري لابن حجر» (1/ 485)] میں نے علل واسانید حدیث میں امام بخاری سے بڑا عالم موجود نہیں۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کو «شيخ الإسلام وإمام الحفاظ» «تذكرة الحفاظ للذهبي» (2/ 104) کے لقب سے یاد کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اہل علم کے اقوال نقل کرنے کے بعد جو کلمات رقم کئے ہیں۔ یہاں ہم ان کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:
«وَلَو فتحت بَاب ثَنَاء الْأَئِمَّة عَلَيْهِ مِمَّن تَأَخّر عَن عصره لفنى القرطاس ونفدت الأنفاس فَذَاك بَحر لَا سَاحل لَهُ» [«فتح الباري » (1/ 485)]۔ متأخرین ائمہ کرام نے امام بخارى کى بابت جو ستائشی کلمات کہے اورجو اعترافات کئے ہیں اگر ان کو یہاں نقل کیا جائے تو صفحات کے صفحات سیاہ ہو جائیں اور عمریں فنا ہو جائیں (پھر بھى مدح باقی رہے گى) کہ وہ بحر نا پیدا کنار ہیں۔

امام بخارى رحمہ اللہ کى تابندہ عظمت کو نکھارنے کا کام ہر دور میں ہوتا رہا، امام ذہبی رحمہ اللہ نے باقاعدہ ان پر ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی جيسا کہ خود انہوں نے وضاحت کى ہے: «قد أفردتُ مناقبَ هذا الإمامِ في جزء ضخم فيها العجبُ» [«تذكرة الحفاظ» (2/ 105)]۔ میں نے امام بخاری کے مناقب وکمالات پر ایک مستقل ضخیم کتاب لکھى ہے، جس میں نادر اور انوکھى معلومات درج ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح البارى میں تقریبا بیشتر اہم چیزیں نقل کردی ہیں، تمام علماء اعلام جنہوں نے بھى تراجم پر کام کیا ہے یا کتابیں لکھیں ہیں، انہوں نے امام بخارى رحمہ اللہ کو بھر پور انداز میں لکھا ہے، غالبا سب سے زیادہ عربى زبان میں لکھا گیا، محققین اہل علم نے اس بات کى صراحت کى ہے کہ دنیا میں قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ خدمت صحیح بخارى کى کى گئی ہے، سو سے زیادہ شروحات لکھی گئیں، مختلف انداز سے آپ کى اس عظیم الشان اور بلند پایہ کتاب پر کاوشیں صرف کى گئیں، مختلف حوالوں سے اسے مرکز التفات بنایا گیا، متنوع جہات سے اس کو موضوع گفتگو بنایا گیا۔ اس موضوع پر اردو زبان کى سب سے معتبر کتاب (سیرت البخاری) تسلیم کى گئى، جو ہمارے جد الجد حضرت العلام مولانا عبد السلام مبارکپورى مرحوم (ت:۱۹۲۴م) کى شاہکار تصنیف ہے۔ بلکہ مشاہیر علماء عرب کا کہنا ہے کہ اس طرح کى کتاب عربی میں بھى نہیں لکھی گئی، اس کتاب کا عربى ترجمہ محترم ڈاکٹر عبد العلیم بستوى رحمہ اللہ نے بڑى عمدگى سے انجام دیا۔ اس کتاب نے دراصل ایک خلا جو سالہاسال سے چلا آرہا تھا اسے پر کر دیا، اور سچ یہ ہے ایک امت اسلام پر امام بخارى رحمہ اللہ کے حوالے سے قرض کى ادائیگى ہوگئی، اس کتاب نے امام بخارى کے علم وفقہ ، بصیرت وآگہى، شعور وادراک اور عظمت وتبحر کے سارے پردے وا کردئیے، ان کا منہج استدلال واستنباط، مسائل کى چھان بین، کمال ترتیب وتنسیق وغیرہ کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے،صحیح بخارى کا استاد یا طالب علم یا عام قاری اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔

ہر زمانے کے تقاضے یکساں نہیں رہتے، قافلہ بحث وتحقیق رواں دواں رہتا ہے، علم وتحریر کى دنیا اہل ذوق وتحقیق سے آباد رہتى ہے، نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں، آج کى دنیا میں خصوصا عالم عرب میں ہرسال نہ جانے کتنى کتابیں سوانح وتراجم پر شائع ہوتى رہتى ہیں، مؤلف مختلف پہلووں یا مخصوص پہلووں کو سامنے رکھ کر اپنا کام انجام دیتا ہے، یہ واقعى خوش آئند ہے، اردو زبان میں بھى مختلف النوع جہتیں تلاش کر لى گئی ہیں، نئے موضوعات پر کام کئے جارہے ہیں۔

اسی نوعیت کا ایک اہم کام ہمارے بھائى فاضل گرامى شیخ حافظ ریاض احمد عاقب أثرى وفقہ اللہ وسدد خطاہ کا ہے، کتاب کا نام (امام بخارى اور سماجى مسائل – صحیح بخارى کا عصرى مطالعہ) خوبصورت اور جاذب قلب ونگاہ ہے، موضوع اچھوتا اور نیا ہے، فاضل مؤلف نے بڑے اعتماد، سلیقے اور ہنر مندى سے موضوع کوبرتا ہے، کتاب میں باذوق قاری جامعیت اور اسلوب کى کشش محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکے گا، مؤلف نے ہر ممکنہ طریقے سے اسے مکمل اور جامع بنانے کی کوشش کى ہے، حوالے، حواشی اور انداز تحقیق میں جدید ضوابط واصول کا لحاظ کیا گیا ہے، صحیح بخارى سے استفادہ کرنے والے اہل ذوق کے لئے ایک مفید کتاب ہے، امید ہے کہ علمى حلقے اسے پسندیدگى کى نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کى اہمیت کو محسوس کریں گے، ساتھ ہى اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچا کر مؤلف کى علمى حوصلہ افزائی کریں گے۔

مؤلف کا عہد شباب میں پیرانہ موضوعات سے دلچسپى ظاہر کرنا خوش آئند ہے، مقدمہ نگار نہ صرف پر امید بلکہ دعا گو بھى ہے کہ اللہ تعالى مؤلف گرامى سے مزید علمى کام لیتا رہے، وہ یونہى علمى دنیا کواپنى کاوشوں سے فیض یاب کرتے رہیں۔ برادر گرامى کے حکم اور اصرار پر یہ چند سطریں زیر قلم آگئیں، اللہ سبحانہ وتعالى سے دعا گو ہوں کہ بارالہا! اس کتاب کو مؤلف اور ان کے جملہ محبین اور ناشر سبھى کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے۔ واللہ ولی التوفیق۔

راشد حسن مبارکپوری

(استاد جامعہ اسلامیہ فیض عام، مئو، الہند)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *