یو تو امت میں بہت بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں، مگر امام احمد بن حنبل رحمه الله ایک ایسی منفرد شخصیت تھے جن کو الله تعالی نے ایک خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا، امانت، دیانت، تقوی اور ذہانت و فطانت جیسی خوبیاں تو الله تعالی نے انہیں بہت چھوٹی عمر ہی میں عطا فرمادی تھی۔
میں نے یہ کتاب بطور خاص نوجوان نسل کے لیے لکھی ہے تاکہ وہ امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمه الله کی زندگی کے مختلف واقعات سے سبق حاصل کریں اور انہی جیسے بننے کی کوشش کریں۔
کتاب میں بعض واقعات کو اہم سمجھتے ہوئے انہیں دوبارہ یاسہ بارہ نقل کیا ہے تاکہ قارئین کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائیں، واقعات کی تکرار کا یہ طریق کار میں نے قرآن سے سیکھا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ قرآن کریم میں بہت سے واقعات ایسے ہے جن کو کئی مرتبہ مختلف اسالیب میں پیش کیا گیا ہے، یقینا اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ واقعات پڑھنے والوں کے دل ودماغ میں پختہ ہوجائیں، میری یہ دلی خواہش اور تمنا ہے کہ نوجوان نسل اس کتاب کا گہراہی سے مطالعہ کرے اور ان واقعات سے سبق حاصل کرے، مساجد کے ائمہ وخطباء حضرات ان کی شخصیت کو منبر ومحراب پر بیان کریں۔ (عبدالمالک مجاہد حفظه الله)
مشہور چار ائمہ میں سے “امام اہل سنه احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله”
آپ ﷺ نے فرمایا: “علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء نے دینار ودرہم ورثہ میں نہیں چھوڑے، انھوں نے علم کی وراثت دی جس نے اسے لے لیا اس نے بہت بڑا حصہ لے لیا۔”
(جامع ترمذی: ح 2682: صحیح: اللبانی)
آپ ﷺ نے فرمایا علماء انبیاء کے وارث ہے، انبیاء اپنے پیچھے مال و دولت چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں، انبیاء کی علمی میراث کی فہرست میں سے امام احمد بن حنبل رح کا نام آتا ہے، آپ نے کتب احادیث کی سب سے ضخیم کتاب لکھی جس کا نام آپ کے نام پر ہی رکھا “مسند امام احمد بن حنبل”
آپ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص کسی راستے پر چلے جس پر وہ علم تلاش کرتا ہے، تو الله اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے، فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بیچھاتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان اور زمین والے بخشش مانگتے ہیں حتی کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اور عالم کی عبادت گزار پر اس طرح فضیلت حاصل ہےجیسے چاند کو تمام ستاروں پر۔”
(جامع ترمذی: ح 2682: صحیح: اللبانی)
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل رح نے 16 سال کی عمر میں بغداد سے مکہ کی طرف علم حدیث کے لیے سفر کیا، اسی کے ساتھ ساتھ طلب علم حدیث کے لیے آپ نے یمن، بصرہ، کوفہ، مدینہ، مکہ، عراق، شام وغیرہ کا سفر کیا۔
الله تعالی فرماتا ہیں: “بس الله سے اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔”
(سورۃ فاطر 28:35)
امام احمد بن حنبل رح جہنم کے خوف سے اور جنت کی امید سے دن و رات میں 300 رکعات نوافل پڑھتے تھے، اور 7 روز میں قرآن کریم ختم کر دیتے تھے، جب کبھی قبر کے عذاب کا ذکر ہوتا تو زار وقطار روتے۔
اور جب مامون رشید کے دور میں خلق قرآن کا مسلہ اٹھا اور حاکم وقت نے اعلان کیا کہ ہر عالم ومحدث، مفسیر، مجتہد اور اہل زمانہ کو ماننا ہوں گا کہ قرآن الله کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے، حاکم کے ظلم و ستم سے سب علماء نے دل میں برا جانتے ہوئے کہہ دیا کہ قرآن مخلوق ہے، سوائے امام احمد بن حنبل رح کے آپ کہتے کہ اگر مجھے قائل کرنا ہے تو قرآن و سنت سے ایک دلیل لے آؤں، حکومت کی طرف سے پھر بہت ظلم و ستم کیا گیا ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئی، قید و بند کردیئے گئے، اور روزانہ 80 کوڑے آپ کو مارے جاتے، اگر وہ کوڑے ہاتھی پر مارے جاتے تو ہاتھی چیک اٹھتا، امام احمد بن حنبلؒ پر جب کوڑے مارے جاتے تو اس کی تکلیف سے بے ہوش ہوجاتے، لیکن اپنی زبان سے کفریہ کلمات نہیں نکلتے، بلکہ ان کا ایمان پہاڑ سے زیادہ مضبوط، سوچ سمندر سے زیادہ گہری، یقین آسمان سے زیادہ بلند ہوجاتا، آپ کو پتہ ہے یہ زندگی عارضی ہے، لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمه الله کی زندگی کے منتخب سنہرے واقعات نامی کتاب ہر مسلمان مرد و عورت کو پڑھنی چاہئے اور اپنے علم و عمل اور ایمان میں اضافہ کرنا چاہئے
This book is so informative