اظہار حقیقت بجواب خلافت و ملوکیت للمؤلف مفکر اسلام علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی
سید مودودی کی “خلافت و ملوکیت” کے علمی نقد پر اہلسنت کے مختلف مکاتبِ فکر کی طرف سے کئی تالیفات منظرِ عام پر آئیں۔ ان تمام تالیفات میں مختلف مناہج اور امور کو پیشِ نظر رکھ کر اہل علم نے کتابِ مذکور کے قابل اعتراض مندرجات پر علمی نقد کیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی مفکرِ اسلام علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی مرحوم کی تین جلدوں میں لکھی مفصل کتاب “اظہارِ حقیقت بجواب خلافت و ملوکیت” ہے جو غالباً خلافت و ملوکیت کے مندرجات پر لکھا جانے والا نہ صرف سب سے مفصل بلکہ کئی اعتبار سے منفرد نقد بھی ہے کیونکہ اس کتاب میں “خلافت و ملوکیت” کے مباحث پر براہ راست علمی تنقید کرتے ہوئے علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی نے ضمناً اسلام کے سیاسی نظام سے متعلق بھی نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی علامہ سندیلوی نے کئی تاریخی مباحث پر بھی ضمناً تفصیل سے لکھا ہے جن کا مودودی صاحب کی کتاب سے براہ راست نہ سہی لیکن منطقی بنیادوں پر تعلق ضرور ہے۔ مثال کے طور پر اسی کتاب کی تیسری جلد میں علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی نے معرکۃ ابن زبیرؓ اور حجاج بن یوسف سے متعلق تقریباً ۷۰ سے زائد صفحات میں کلام کیا ہے جو اس کتاب کی اشاعت کے وقت اردو زبان میں شاید حجاج بن یوسف پر لکھی جانے والی مفصل ترین تحریر تھی۔
اسی طرح مسلکِ احناف سے تعلق رکھنے کے سبب آپ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی اور احناف کے سیاسی مسلک پر لکھا ہے جس کو اگردوسرے زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علامہ سندیلوی نے بغیر نام کی تحدید کیے مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کی کتاب “امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی” پر تنقیدانہ تبصرہ کیا ہے۔ الغرض زیرِ نظر کتاب اپنے مفصل مباحث اور منفرد موضوعات کے سبب نہایت عالمانہ کاوش ہے جو عرصۂ دراز سے ناپید تھی۔ تاہم حال ہی میں رفیقِ محترم محمد اعجاز صاحب کے توسط سے اس کتاب کی تینوں جلدوں کی پی ڈی ایف میسر آسکیں جن کے ڈاؤنلوڈ لنک عوام الناس کے استفادے کے لیے تحریر کے آخر میں دئیے جارہے ہیں۔
اس کتاب کے سلسلے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی ؒ کا بھی تفصیلی تعارف ہدیۂ قارئین کردیا جائے۔ علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی ۲۴ صفر ۱۳۳۱ ہجری بمطابق ۱۲ فروری ۱۹۱۳ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز ندوۃ العلماء سے کیااور دیکھتے ہی دیکھتے علمی و تحقیق دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا یہاں تک جس ادارے سے آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا آپ اسی کے مہتمم اور شیخ الحدیث مقرر ہوگئے۔ آپ عربی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے اور تینوں زبانوں میں آپ کی تالیفات موجود ہیں۔ ایک زمانے میں جدید فقہی معاملات پر غور و فکر کے لئے اصحابِ ندوہ نے ایک اہم علمی ادارہ بنام “مجلسِ تحقیقات شرعیہ” قائم کیا تھا، علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی اس کے کنوینر تھے۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید اور مولانا کے خلیفہ مولانا وصی اللہ اور ڈاکٹر عبدالحئ عارفی صاحب کے خلیفہ تھے۔
قیامِ پاکستان سے قبل یوپی مسلم لیگ نے پاکستان کے اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کے لئے سید سلیمان ندوی مرحوم کی صدارت میں جو مجلسِ قانون ساز بنائی تھی، علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی اس کے سب سے زیرک اور متحرک کارکن تھے۔ یہ کمیٹی پانچ علماء پر مشتمل تھے، تاہم باقی علماء کی مصروفیات کے سبب سید سلیمان ندوی نے دستور سازی کا یہ مشکل کام علامہ اسحٰق صدیقی کے سپرد کیا ۔ آپ نے یہ مشکل ترین کام جس سے کمیٹی کے بڑے بڑے علماء کترارہے تھے چند ماہ میں مکمل کرکے صدر کمیٹی علامہ سید سلیمان ندوی کے سپرد کردیا جسے بعد میں دارالمصنفین اعظم گڑھ نے مولانا عبدالماجد دریا آبادی کے دیباچہ کے ساتھ” اسلام کا سیاسی نظام” کے نام سے شائع کیا۔ بعد میں یہ کتاب جامعہ بنوری ٹاؤن کی مجلس دعوت و تحقیق نے پاکستان سے بھی شائع کی۔
غالباً ۱۹۷۰ء کی دہائی میں مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم کی فرمائش پر اسحٰق صدیقی سندیلوی ہندوستان سے پاکستان تشریف لائے اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں شعبہ دعوت و ارشاد کے صدر مقرر ہوئے۔ بعدازاں مولانا محمد یوسف بنوری کی قائم کردہ “مجلس دعوت و تحقیق” کے رکن بھی رہے۔ مولانا محمد یوسف بنوری آپ سے خاص دلی لگاؤ رکھتے تھے اور اکثر آپ کا تذکرہ نہایت فخر و اہتمام سے کرتے تھے۔ ۲۳ اگست ۱۹۷۴ء کی خدام الدین لاہور کی اشاعت میں اپنے ایک انٹرویو میں اپنے مدرسے کا تعارف کرواتے ہوئے مولانا یوسف بنوری نے تمام اساتذہ میں سے صرف علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی ندوی کا ذکر خاص طور سے کیا۔ طلباء کے مدرسین کی بابت فرماتے ہوئے مولانا بنوری کہتے ہیں:
“ان سب ( جامعہ بنوری کے پاکستان اور مختلف ملکوں سے آئے طلباء) کو چھبیس اساتذہ درس دیتے ہیں۔ سب کے سب فضل و کمال کے پیکر ہیں۔ ان افاضل میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق شیخ الحدیث اور مہتمم مولانا محمد اسحٰق صدیقی بھی شامل ہیں جو انگریزی، عربی، اردو تینوں زبانوں کے مصنف ہیں۔”
تاہم مولانا یوسف بنوری کے انتقال کے بعد جامعہ کی انتظامیہ سے اختلافات کی بناء پر آپ نے جامعہ کی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دیدیا اور مفتی طاہر مکی صاحب کے ادارے مدینۃ العلوم کے صدر مفتی مقرر ہوگئے جہاں اپنی وفات ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۵ء تک ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ آپ کی صلوٰۃ المیت مولانا محمد یوسف بنوری کے بڑے داماد مولانا محمد طاسین صاحب نے پڑھائی اور یاسین آباد کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی ندوی کی وفات پر پاک و ہند کے بہت سے رسائل نے تعزیتی تاثرات لکھے۔ ہفت روزہ خدام الدین لاہور اور بعض دوسرے رسائل سے مولانا کی سوانح پر بھی کئی مضامین شائع ہوئے۔
علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی ندوی اپنے پیچھے انگریزی ، اردو اور عربی میں کئی تصانیف چھو ڑ گئے جن میں مسئلہ ختم نبوت علم و عقل کی روشنی میں، اسلام کا سیاسی نظام، ایمان و ایمانیات، دینی نفسیات، سُنّی ذہن اور اس کی ضروریات، اسلام اور نظریۂ امامت، اور سب سے معرکۃ الآراء کتاب “اظہارِ حقیقت بجواب خلافت و ملوکیت ” تین جلدوں میں نمایاں ہیں۔ علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی کی کتاب “اظہار حقیقت” کو جید علمائے کرام کی تائید حاصل رہی جن میں مولانا یوسف بنوری بھی شامل ہیں۔
مولانا بنوری اپنی عربی کتاب الاستاذ المودودی حصہ اول صفحہ ۹ پر علامہ سندیلوی کی کتاب اظہارِ حقیقت کا خاص ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خلافت و ملوکیت کے رد میں لکھی گئی کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب شیخ فاضل علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی حفظہ اللہ کی ہے۔ اسی طرح احناف کے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے مکی مسجد کراچی میں ۷ دسمبر ۱۹۸۰ء بروز اتوار علماء کے بھرے مجمع میں علامہ اسحٰق صدیقی سندیلوی صاحب کو خوب دعائیں دیتے ہوئے ان کی کتاب “اظہارِ حقیقت” کی نہ صرف تعریف فرمائی بلکہ اس کتاب کے عربی ترجمے کی بھی خصوصی تاکید کی۔
اسی طرح جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین مولانا غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں فخر ہے کہ مولانا سندیلوی کی کتاب “اظہارِ حقیقت” کا پاکستان میں سب سے اول ہم نے تعارف کروایا۔ مدرسہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم مولانا احمد الرحمٰن صاحب نے اس کتاب کی جب دوسری جلد چھاپی اور مفتی محمود صاحب کی خدمت میں پیش کی تو بعد از مطالعہ انہوں نے یہ کہہ کر کتاب کی تحسین فرمائی کہ قرنِ اول کی تاریخ کے الجھے ہوئے جنگل کو جس طرح سے مولانا نے صاف کیا ہے وہ ان کا زبردست علمی کارنامہ ہے۔