Web Analytics Made Easy -
StatCounter

مولانا اعجاز احمد اعظمی کے خاکے

مولانا اعجاز احمد اعظمی کے خاکے

مولانا اعجاز احمد اعظمی کے خاکے

نام کتاب: کھوئے ہوؤں کی جستجو
مولف: مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ

کھوئے ہوؤں کی جستجو….‘‘ استاذ ی مولانا اعجاز احمد اعظمی ( م: ۲۲؍ ذی قعدہ ۱۴۳۴ھ/۲۸؍ستمبر ۲۰۱۳ء)کے قلم سے نکلے ہوئے ان خاکوں اور انشائیوں کا مجموعہ ہے ، جو ملک کی مختلف شخصیات پر ان کی وفات کے بعد لکھے گئے ، اور مختلف رسائل میں شائع ہوئے، جن کو میں نے ان کی حیات میں ہی کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کردیا تھا ۔ کتاب کا نام علامہ اقبال کے اس شعر کے دوسرے مصرعہ کے ایک حصہ پر رکھا گیا ہے

میں کہ مری نوا میں ہے ،آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا ، وہ ایک بہترین مدرس ومربی اور بااثر خطیب ومقرر ہونے کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے ادیب وانشاء پرداز بھی تھے ۔ان کے اسلوب بیان اور طرز تحریر کے بارے میں عرب وعجم کے مسلم ادیب مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی شہادت سنئے ، جس کے :بعد مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں ، وہ ’’حیات مصلح الامت ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں

مولانا اعجاز احمدصاحب اعظمی کی تالیف کی ہوئی کتاب’’ حیات مصلح الامت ‘‘ کا کتابت شدہ مسودہ طباعت کے لئے تیار ہے ، میں نے جستہ جستہ اس پر نظر ڈالی اور اس کے بعض حصے سنے ، کتاب جدید اسلوب اور مذاق کے مطابق لکھی گئی ہے، اور اس میں جہاں تک مجھے اندازہ ہوا وہ خصوصیات موجود ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ میرا مصنف سے اس کتاب کے ذریعہ پہلی مرتبہ تعارف ہوا ، وہ مدرسۂ دینیہ غازی پور کے مدرس ہیں ، جن کا اصلاً اشتغال درس وتدریس سے ہوگا ، لیکن ان میں تصنیفی سلیقہ، تحریرمیں ایسی شگفتگی اورسلاست ، کتاب میں ایسی حسن ترتیب اور مضامین کا حسن انتخاب ہے جو کہنہ مشق مصنفوں اور اہل قلم میں پایا جاتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت وقت کی ایک اہم دینی واصلاحی خدمت اور بزرگوں کی سوانح عمریوں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔( حیات مصلح الامت ،ص: ۱۶)

اس کتاب میں جن شخصیات کا ذکر ہے ان میں مولانا محمد احمد پرتاب گڈھی ، مولانا مسیح اﷲ خاں جلال آبادی ، مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی ، مولانا عبد الحلیم جونپوری جیسے اکابر ومشائخ۔ مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ، مفتی نظام الدین اعظمی، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا مفتی محمد یٰسین مبارکپوری جیسے دیدہ ور ونکتہ رس فقیہ۔ مولانا وحید الزماں کیرانوی ، مولانا محمد یحییٰ رسولپوری ، مولانا محمد مسلم بمہوری ، اورمولانا شکراﷲ ولید پوری رحمہم اللہ ، جیسے مردم ساز اصحاب تدریس ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے فن کے کاملین میں شمار کئے گئے ۔ان سبھی حضرات سے مولف کے قریبی روابط وتعلقات رہے، اور ان میں سے اکثر کی شفقت ومحبت اور نظر عنایت بھی ان کو حاصل رہی جیسا کہ مطالعہ سے معلوم ہوگا۔

لیکن اس میں بیشتر وہ گمنام مخلصین ہیں جن کو مولف کے قلم نے زندۂ جاوید بنادیا ، یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے مولف سے محض دین کی نسبت سے محبت کی ، اور انھیں ٹوٹ کر چاہا۔ ان حضرات کے تذکرے میں ان کی زندگی کے ان گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو حیات انسانی کے لئے مشعل راہ ہیں ، مولف کے سحر طراز وشگفتہ نگار قلم کی ادبیت وچاشنی نے اس میں اس قدر دلکشی اور جاذبیت پیدا کردی ہے کہ

Khoye Huon Ki Justuju

وہ کہا کریں اور سنا کرے کوئی

کا سماں پیدا ہوجاتا ہے ۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی انھیں شخصیات کے ساتھ چل پھر رہے ہیں ، اور ان سے بات چیت کررہے ہیں، یہ کسی لکھنے والے کا انتہائی کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو بھی وہیں پہونچادے جس ماحول کی وہ تصویر کشی کررہا ہے۔
یہ جتنے بھی تذکرے ہیں ، سب فی البدیہہ اور برجستہ لکھے گئے ہیں ، اس میں کسی قسم کی آورد اور تکلف وتصنع کا دخل نہیں ہے ، اور نہ ہی کسی شخصیت کو اس کے مقام ومرتبہ سے گھٹا بڑھا پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے ، بلکہ مؤلف نے جیسا انھیں محسوس کیا بے کم وکاست حوالۂ قلم کردیا ، یہ اور بات ہے کہ الفاظ وعبارات کے حسن ترتیب ، ترکیب کلام کی بندش وچستی اور زبان وبیان کی شگفتگی وبرجستگی کی نتیجہ میں تحریر ’’سحر حلال‘‘ کا نمونہ بن جائے ، اور اس کی بے پناہ جاذبیت اور اثر آفرینی کی وجہ سے مبالغہ کا دھوکا ہونے لگے۔مگر جولوگ ان شخصیات سے قریبی واقفیت رکھتے ہوں گے ، اور ان کی معلومات وقوت مشاہدہ درست ہو،وہ اس کی حرف بحرف تصدیق کریں گے۔

:یہ تذکرے مولف نے کس مقصد اور نظریہ کے تحت لکھے، وہ سننے کے لائق ہے، وہ رقم طراز ہیں

بعد والوں کا یہ بھی فریضہ ہے کہ اگلوں کے محاسن اعمال ، مکارم اخلاق اور معالی احوال کو یاد رکھیں ، ان کا مذاکرہ کریں ، انھیں بعد والی نسل تک منتقل کریں ، تاکہ بعد والوں کو یاد رہے کہ ان کے اسلاف کیسے تھے ؟ ان میں اتباع سنت کی کیا شان تھی ؟ ان کے احوالِ باطنی کیا کیا تھے ؟ پھر ان کے دل میں حوصلہ اور ولولہ جاگے ، کہ ہمارے بزرگ بھی خاک کے پُتلے ہی تھے، گوشت وپوست کے ڈھانچے ہی تھے ، انھیں امراض وعوارض میں وہ بھی گھرے رہتے تھے جن میں آج کا انسان مبتلا ہے ، مگر اس کے باوجود وہ بندگی کا حق کس طرح اداکرتے رہے ۔

انھوں نے اﷲ کو راضی کرنے کے کیا کیا جتن کئے ، انھوں نے دنیوی مال ودولت کو کس طرح اپنی ٹھوکر میں رکھا ۔ کیا یہ سب کچھ انھیں کے ساتھ مخصوص تھا ، ان کے بعد جو خاک کے پُتلے تیار ہوئے ، اورہڈیوں کے جو ڈھانچے گوشت وپوست کا لباس پہن کر وجود میں آئے ، کیا وہ اس صلاحیت سے محروم ہیں ؟ جب انھیں یہ خیال آئے گا تو ان کے اندر کی سوئی ہوئی عبدیت جاگے گی ، چھپاہوا جذبۂ کمال ابھرے گا ، خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑسکتا ہے، ایک چراغ سے دوسرا چراغ جل سکتا ہے ، ایک طوطی کی آواز سن کر دوسرا طوطی ترنم ریز ہوسکتا ہے ۔ تو کیامعنیٰ کہ ایک انسان ، دوسرے انسان کو دیکھ کر اسی راہ پر نہ چل پڑے ۔

سیرت نویسی اور سوانح نگاری کی اصل منشاء یہی ہونی چاہئے ، اور پڑھنے والوں کو بھی اسی نظر سے پڑھنا چاہئے ، واقعات وحکایات کا بیان ، شہور وسنین کا اہتمام ، تاریخ ویوم کی تقدیم وتاخیر پر گہری نظر ، مؤرخ کا فریضہ ہوتو ہو ، سوانح نگار کو اس کا مکلف نہیں بنایا جاسکتا ، اس سلسلے میں اس کے تسامحات قابل عفو ہیں ۔ یہاں جو کچھ لکھا جائے ، اسے مؤرخ کی نگاہ سے مت پڑھئے ، بلکہ تذکیر واعتبار کی نگاہ سے پڑھئے ۔ انشاء اﷲ آپ فائدے میں رہیں گے ۔‘‘( تذکرہ مولانا عبد القیوم فتحپوری)

مولانا کس پایہ کے نثرنگار وانشاپرداز تھے ، ان کے قلم میں کیسی روانی، شگفتگی ، ادبیت اور چاشنی تھی؟میں اس کتاب کے چند اقتباس پیش کررہاہوں ، قارئین اس سے خود لگاسکتے ہیں۔ مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کے تذکرے میں لکھتے ہیں

وہ جس نے آخری دور میں جنید وشبلی کی یاد تازہ کردی ، جس کے انفاس طیبہ سے مشائخ پیشیں کی خوشبو محسوس ہوتی تھی ، جس کی نگاہوں میں ایمان وایقان کی بجلیاں بھری ہوئی تھیں۔جس کی گفتگو سے احسان وعرفان کے گلشن مہک اٹھتے تھے ، جس کی شفقت وعنایت انبیاء کرام علیھم السلام کے لطف وکرم کی یادگار تھی ، جس کی مبارک صحبت میں دلوں کو روشنی اور ایمان کو تازگی ملتی تھی ، جس کی مجلس میں وساوس وخطرات کا صفایا ہوجاتا تھا ، جس کی مسیحائی سے مردہ قلوب زندگی پاتے تھے۔

آہ! کہ وہ پیکر محبوبیت تھا ، وہ سراپا محبت تھا ، وہ خالص اﷲ والا تھا ، اس کا ہر لمحہ ، اس کی ہر ساعت ، اس کی ہرہر رگ ، ہرہر ریشہ وقف ﷲ تھا ، وہ اپنا کچھ نہ تھا ، وہ سب کچھ اﷲ کا تھا ، اﷲ کے لئے اس نے سب کچھ فنا کردیا تھا ، اپنے کو مٹادیا تھا ، اس کے بعد وہ کن درجات تک پہونچا اﷲ ہی جانتا ہے۔

:مولانا قاری سیدصدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کے متعلق تحریر فرماتے ہی

اگر آج کسی سے پوچھا جائے کہ تم نے جنید وشبلی کو دیکھا ہے ؟ بایزید بُسطانی و ابوالحسن خرقانی سے ملاقات کی ہے ؟ شیخ عبدالقادر جیلانی وخواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کی ہے ؟ خواجہ نظام الدین اولیاء وخواجہ نصیرالدین چراغ دہلی سے ملے ہو ؟ میاں جی نور محمد وحاجی امداداﷲ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے ہو ؟ تو اس کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ نہیں ! پھر اس سے پوچھئے کہ تم نے باندہ والے حضرت مولانا قاری صدیق احمدصاحب کو دیکھا ہے ؟ اگر وہ کہے کہ ہاں انھیں دیکھا ہے ، انھیں سنا ہے ، ان سے مصافحہ کیا ہے ، ان کا مہمان رہاہوں ، اگر وہ یہ کہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے پچھلے بزرگوں کا جلوہ دیکھا ہے ، جنید وشبلی کا علم وعرفان ، بایزید بسطامی و ابوالحسن خرقانی کے مجاہدات وریاضات ، شیخ عبد القادر جیلانی وخواجہ معین الدین چشتی کا فیضان عام ، خواجہ نظام الدین وخواجہ نصیر الدین کی محبوبیت واتباعِ سنت ، میاں جی نورمحمد وحاجی امداداﷲ کی روحانیت ، سب کا نمونہ تم نے دیکھ لیا۔

قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب اس دور ظلمت میں ایک ماہتاب ہدایت تھے، اﷲ کی قدرت کاملہ کی حجت بالغہ تھے ، اسلام کی حقانیت کی دلیل وبرہان تھے ، وہ اس بات کے نشان تھے کہ آدمی خواہ کتنا ہی بے نوا ہو ، ظاہری اسباب ووسائل سے تہی دامن ہو ، دور افتادہ اور گمنام علاقہ میں ہو ، جہل وضلالت کے ماحول میں ہو، لیکن اگر اس کے پاس ایمان کی طاقت ، توکل کا سرمایہ ، یقین کی پختگی، محبت کی سرشاری ، اﷲ کے لئے اخلاص، سنت پر شیفتگی اور دین کا سچا درد ہو ، نیز خدمتِ خلق کا جذبہ ہو ، تو بے نوائی کی تہوں سے اس کیلئے بال وپر پیدا ہوں گے ، اسباب ووسائل سے تہی دامنی ، کامیابی کا زینہ بن جائے گی ، علاقہ کی گمنامی اس کی شہرت کا دروازہ ثابت ہوگی ، جہل وضلالت کی چٹانوں سے علم ومعرفت کے سرچشمے اُبل پڑیں گے۔

:حاجی محمد ایوب کلکتوی کے متعلق مضمون کی تمہید میںرقم طراز ہیں

انسان کی زندگی میں بعض شخصیتیں اتنی آہستگی اور لطافت کے ساتھ داخل ہوتی ہیں کہ بروقت احساس نہیں ہوتا کہ شب و روز کی گردش میں کسی نئی چیز کا اضافہ ہورہا ہے، جیسے بادِ نسی م ،صبح دم پھولوں کے درمیان آتی ہے، اور انھیں مس کرتی ہوئی گزر جاتی ہے، مگر ان میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جاتی ہے، پنکھڑیاں کھلکھلا اٹھتی ہیں، اسی طرح کسی کسی شخصیت سے ابتداء ً سابقہ پڑتا ہے تو کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی، بس جیسے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا جسم سے مس ہوا ہو، مگر کچھ مدت کے بعد ایسا لگتا ہے، جیسے وہ ہلکا سا جھونکا رگ رگ میں سرایت کرگیا ہو، اس سے روح شاداب ہوجاتی ہے، قلب میں ٹھنڈک اور جگر میں طراوت محسوس ہونے لگتی ہے، یہ شخصیتیں بے وہم وگمان مل جاتی ہیں ، بغیر آرزو وتمنا کے دستیاب ہوجاتی ہیں، مگر دیر نہیں لگتی کہ وہی سراپا دل کی آرزو وتمنا بن جاتی ہیں ، زندگی ان کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے، ان کا تصور انسان کے لئے فرحت ومسرت کا پیغام بن جاتا ہے، یہ واقعہ اکثر انسانوں کو پیش آتا ہے، کچھ لوگ اسے محسوس کرکے رہ جاتے ہیں، کسی کو دکھا اور بتا نہیں پاتے، اور کچھ لوگ اس کو زبان عطا کردیتے ہیں ، تو دنیا بھی اسے جان جاتی ہے، پھر وہ بہت سے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے، لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ توخود ان پر بیتی ہوئی سرگزشت ہے، آج میں اسی طرح کی ایک سرگزشت کو الفاظ وعبارت عطا کرنے کی کوشش کررہا ہوں، ایک شخصیت جو میری زندگی میں اس طرح داخل ہوئی کہ ابتداء ً مجھے نہ کچھ التفات ہوا، نہ خیال، لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد دیکھتا ہوں کہ جان ودل کا ریشہ ریشہ اس کی محبت میں بھیگ گیا ہے، اس نے مجھ سے محبت کی ، مگر اس طرح کہ اس پر محبت کا گمان نہیں ہوتا۔

:میرے والد حاجی عبد الرحمن خیرآبادی کے متعلق لکھتے ہیں

جمعہ کا دن تھا ، جمعہ کی نماز کے بعد مدرسہ منبع العلوم خیرآباد کے وسیع صحن میں جنازہ کی نماز ادا کرنی تھی ، بڑی مشکلوں سے ضبط کرکے جنازہ کی نماز اس حقیر نے پڑھائی اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، پھر یہ محبّ ومحبوب رفیق خاکی چادر اوڑھ کر صبح قیامت کے لئے سوگیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو رَوْضَة مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ بنائے ۔ مغفرت کی دلنواز ادائیں ہمدم ودم ساز رہیں ، نَمْ کَنَوْمَةِ الْعُرُوْسْ کی صدائے روح پروران کو لوریاں دے ، عفو ودرگذر کا آب زلال تمام خطاؤں اور غلطیوں سے دھوکر پاک وصاف کردے۔

ضیاء الحق خیرآبادی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *