₹350.00
زوال امت پر اردو میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں،لیکن زیر نظر کتاب”زوال امت۔جہات،اسباب اور تدارک“میں عمومی اسباب پر بحث کرنے کے بجائے ان شعبوں کو زیر بحث لایا گیا ہے جو کسی بھی قوم کے عروج وزوال میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں،
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول میں اختلاف کے معنیٰ ومفہوم کی وضاحت کے بعد اس کی اقسام ذکر کی گئی ہیں،پھر بتایا گیا ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اختلاف کے اسباب کیا تھے؟
باب دوم میں فاضل مصنف نے تفصیل سے بحث کی ہے کہ صحابۂ کرام،تابعینِ عظام،فقہاء اور مجتہدین نے اپنے اختلافات میں کن آداب کی رعایت کی تھی اور کن اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا تھا؟ اگلے دو ابواب میں امت کے زوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چنانچہ
باب سوم میں علمی وفکری میدان میں زوال اور اس کے اسباب سے بحث کی گئی ہے۔فقہاء کے درمیان اجتہا د کے بجائے جمود اور تقلید ، توسّع کے بجائے مسلکی تعصّب وتصلّب اور رواداری کے بجائے شدّت پسندی نے جگہ بنا لی، تزکیہ واحسان کی جگہ عجمی تصوف غالب آگیا ، متصوّفین کے مختلف فرقے وجود میں آگئے، وحدۃ الوجود اور دیگر غیر اسلامی تصورات کی حمایت کی جانے لگی، فلسفہ کے غلبے کی بنا پر امت انحرافات کا شکار ہوگئی اور عقائد میں بے اعتدالی اور افراط وتفریط کی وجہ سے مختلف فرقوں نے جنم لیا، اس طرح امت کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ ان مباحث پر مصنف نے تفصیل سے اظہار ِ خیال کیا ہے۔
باب چہارم کو سیاسی زوال سے بحث کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے خاص طور پر خلافت ِ عباسیہ،خلافت ِعثمانیہ اور مغل سلطنت کے زوال سے بحث کی ہے اور اس کے اسباب کا تذکرہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ باب پنجم اس کتاب کی جان ہے۔اس لیے کہ اس میں ’تدارک‘ کی صورتوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔عموماً مصنفین جب امتِ مسلمہ کے زوال سے بحث کرتے ہیں تو ان کا بیانیہ اور اسلوبِ تحریرقارئین پر مایوسی طاری کرتا ہے، لیکن مصنف گرامی رجائیت پسند ہیں ۔ وہ اسبابِ زوال کی نشان دہی کے بعد قارئین کو حیران وپریشان اور سرگرداں نہیں چھوڑ دیتے ، بلکہ ان کی دست گیری کرتے ہیں اور ان طریقوں کی طرف رہ نمائی کرتے ہیں جن کے ذریعہ زوال کا تدارک کیا جاسکتا ہے اور امت کی رفعت وشان دوبارہ واپس لائی جاسکتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ احادیث میں غلبۂ دین کی بشارتیں موجود ہیں ،جو ہمیں اصلاح و تجدید کے میدان میں سرگرم عمل ہونے پر ابھارتی ہیں۔ ان کا پختہ عقیدہ ہے کہ امت کی فلاح وبہبود اسی طریقے سے ممکن ہے جس طریقے سے’قرون مشہود لہا بالخیر‘ میں ہوئی تھی۔ فاضل مصنف کا یہ اندازِ بحث انہیں دیگر مصنفین سے ممتاز کرتا ہے۔
In stock
Reviews
There are no reviews yet.