کہنے کو تو یہ ایک سفر نامہ ہے البتہ ایک طالبِ صادق کے اس سفر میں دین اور تعبیرِ دین پر جس انداز سے گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا ہے اس نے اس داستانِ سفر کو بڑی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ تصوف پر اب تک جو ناقدانہ تحریریں لکھی گئی ہیں ان کی حیثیت باہر کے مشاہدہ کی رہی ہے اور چونکہ اہلِ تصوف اس بات کے قائل ہیں کہ تصوف سمجھ کر برتنے کی چیز نہیں بلکہ برت کر سمجھنے کی چیز ہے، اس لئے باہر سے کی جانے والی تنقید کو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سفر نامے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں متکلم آپ کو اہلِ سلوک کی ان مجلسوں اور کبار اولیائے وقت کے ان ایوانوں میں لئے چلتا ہے جہاں عام سالکین کے پر جلتے ہیں اور خود متکلم کے لئے بھی یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہو سکا ہے کہ اس نے راہِ سلوک کی مشقوں میں اپنی عمرِ عزیز کا ایک بڑا حصہ صرف کیا ہے، خاص طور پر ایامِ شباب میں عرب و عجم کے بعض کبار شیوخ کی جوتیاں سیدھی کی ہیں۔ گویا وہ ایک اندر کا آدمی ہے، اس نے رموزِ تصوف کو برت کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
مجاہدہ کسے کہتے ہیں؟ مکاشفہ کیا ہے؟ رابطہء شیخ، توصل اور مشاہدہء حق کی حقیقت کیا ہے؟ طرقِ تصوف کے مختلف سلسلوں کی دینی حیثیت کیا ہے؟ اور ان جیسے دسیوں دقیق اور پریشان کن سوالات پر مبنی اس بیانیے سے قاری کو بسااوقات ایسا لگتا ہے تلاش کے اس عمل میں وہ خود بھی شریک ہو گیا ہو۔
اسلام کیا ہے اور اسے کیا سے کیا بنا دیا گیا ہے اگر کسی کو اس حادثہء فاجعہ پر مطلع ہونا ہو تو اس کے لئے صرف اسی ایک کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا۔ ایسا اس لئے کہ اہلِ صفا کی اس دلچسپ داستان میں تصوف کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کا باطن بلکہ خبثِ باطن بھی باہر آ گیا ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.