₹200.00
حرف واثر ‘‘ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا ساتواں مجموعۂ مضامین ہےجس کی اشاعت ابھی مئی ۲۰۲۲ء میں ہوئی ہے۔ اس میں مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے ان کے ۲۵؍ علمی ، ادبی ، تنقیدی اور تاریخی مضامین ہیں ۔ اس سے قبل ان کے مضامین ومقالات کے چھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے
عظمت کے نشاں (۲۰۰۵ء)
متعلقات شبلی (۲۰۰۸ء)
مطالعات ومشاہدات (۲۰۰۸ء)
عکس واثر ( ۲۰۱۳ء)
شبلی اور جہانِ شبلی (۲۰۱۵ء )
قد اور سائے ( ۲۰۱۹ء)
اس مجموعہ کا پہلا مقالہ ’’ سرسید اور اعظم گڑھ ‘‘ ہے ، جس میں سرسید احمد خاں کی ایک نادر ونایاب تقریر ہے جو انھوں نے ۱۸۷۴ء میں یہاں کی تھی ، جس میں لوگوں کو ایم اے او کالج کے قیام کی طرف توجہ دلائی،یہ تقریر سرسید کے کسی مجموعہ مضامین میں شامل نہیں ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ مسلسل علمی وتحقیقی کام کرتے کرتے منجانب اللہ ڈاکٹر صاحب کے لئےاس طرح کی نادر چیزوں کی طرف رسائی آسان کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کام لائق ستائش وقابل تحسین ہے کہ تلاش وتحقیق کے دوران جو نادر تحریریں دستیاب ہوتی ہیں بہترین انداز میں ان کا تعارف کراکے اسے شائع کردیتے ہیں ، اس طرح بہت سی نادر تحریریں محفوظ ہوگئیں۔
اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ۱۸۷۲ء سے ۱۸۷۶ء تک اعظم گڑھ میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر رہے اور اپنا مشہور ناول ’’توبۃ النصوح ‘‘ یہیں لکھا۔
نمبر ۲ سے ۷ تک کے مضامین اسی طرح کے نوادرات کی دریافت اور ان کے تعارف پر مشتمل ہیں۔ دوسرے مضمون میں علامہ سید سلیمان ندوی کے ایک کے نادر خط کا تعارف ہے جو زمیندار لاہور کے ۱۳؍ دسمبر ۱۹۲۳ء میں شمارہ میں شائع ہوا تھا اور ایک صدی کے بعد ڈاکٹر صاحب کی دسترس میں آیا۔ تیسرے مضمون میں علامہ اقبال کا ایک مختصر سا خط ہے جو آگرہ سے نکلنے والے رسالہ شمع میں شائع ہوا تھا۔ چوتھے مضمون سے مولانا عبدالسلام ندوی کے ایک نایاب رسالہ کا علم ہوتا ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حالات پر ہے۔پانچویں مضمون میں مشہور شاعر اقبال سہیل اعظمی کی دو نادر تحریریں ہیں ۔ چھٹے مضمون میں مولوی محبوب الرحٰمن کلیم جیراج پوری کی دو نودریافت غزلیں ہیں جو ’’پیام یار‘‘ لکھنؤ اور ’’ دامن گلچیں ‘‘ مرادآباد میں شائع ہوئی تھیں ۔ ان کے چند شمارے ڈاکٹر صاحب کو دستیاب ہوگئے تھے ۔ ساتویں مضمون میں مولانا عبدالسلام ندوی کی دو نایاب غزلیں ہیں ، یہ بھی ’’ دامن گلچیں ‘‘ مرادآباد میں شائع ہوئی تھیں ۔
ان کے علاوہ ۲۵؍ صفحات پر مشتمل ایک قیمتی مقالہ ’’ اعظم گڑھ کےچند گمنام شعرا اور ان کا کلام ‘‘ ہے ، پیام یار لکھنؤ، دامن گلچیں مرادآباد اور باغِ سخن میرٹھ کے چند قدیم رسائل کی مدد سے یہ مضمون لکھا گیا ہے۔ ایک مضمون ’’ اعظم گڑھ میں اردو صحافت اور قدیم مطابع ‘‘ ہے، جس میں آزادی سے پہلے شائع ہونے والے دس اخبارات اور پانچ مطابع کا ذکر ہے۔ ایک مضمون معارف کی ادبی خدمات پر ہے ، اسی طرح اردو کے چند اہم رسائل وجرائد کے اشاریوں پر ایک مضمون ہے۔
اس میں سب سے زیادہ وفیاتی مضامین ہیں جن کی تعداد ۱۲ہے، جن شخصیات پر یہ مضامین ہیں ان میں شمس الرحمن فاروقی ، ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی ،ڈاکٹر آدم شیخ ممبئی ،ڈاکٹر ابرار اعظمی ، شاہ افضال اللہ قادری ( مصنف تاریخ اعظم گڑھ) اور محمد فاروق اعظمی ( مصنف یادوں کے چراغ )جیسے لوگ ہیں ، اس میں ایک مضمون محمد حامد سراج پر ہے جو پاکستان کے ایک منفرد وممتاز افسانہ نگار تھے ، یہ مضمون از دل خیزد بردل ریزد کا مصداق ہے ، ان کی علم دوستی ، انسانیت نوازی، بلند اخلاق اور شرافت ومروت سے دل بہت متاثر ہوا ۔مصر کے سابق صدر ڈاکٹر حافظ محمد مرسی پر بھی ایک مضمون ہے۔آخری مضمون ’’ میری علمی ومطالعاتی زندگی ‘‘ ہے ، یہ مضمون ماہنامہ النخیل کراچی کے مطالعہ نمبر کے لئے لکھا گیا تھا۔ اخیر میں کتابیات کی فہرست ہے جن کی تعداد سو کے قریب ہے۔
ڈاکٹر صاحب ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کے وقت میں اﷲ تعالیٰ نے بڑی برکت رکھی ہے، اپنی خانگی وتدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اتنا کچھ لکھ لینا اس برکت کی کھلی دلیل ہے۔ ان کی تصنیفات وتالیفات اور تراجم کی تعداد پچاس کے قریب ہے، اس وقت وہ دنیائےعلم وتحقیق کی ایک معتبر شخصیت ہیں ، ان کا یہ علمی مقام فضل خداوندی کے بعد تمام تر اپنی ذاتی محنت وکوشش کا رہینِ منت ہے، آج سے ستائیس سال قبل ۱۹۹۵ء میں مولانا مجیب اللہ ندویؒ نے ان کے متعلق لکھا تھا
’’ان کی ابتدائی تعلیم جامعۃ الرشاد میں ہوئی ، اس وقت تو یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان کے اندر اتنی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، مگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لئے اپنے بہت سے ایسے بندوں میں ان کی ذاتی محنت اور جدوجہد سے ایسی صلاحیتیں پیدا کردیتا ہے جن کے بارے میں ظاہری طور پر امکان بھی نہیں ہوتا۔ ( پیش لفظ تذکرۃ القراء ،ص:۱۶)
ضیاء الحق خیرآبادی
In stock
Reviews
There are no reviews yet.