₹395.00
زیر نظر کتاب’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات: مدارس اور مسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے اردو کے مذہبی رسائل و جرائد کا تحقیقی مطالعہ‘‘کئی لحاظ سے اہم ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق مدارس اور مسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے رسالوں کا جائزہ اس پیمانے پر اب تک نہیں لیا گیا تھا۔یہ رسائل و جرائد اور ان کا مطالعہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے مدارس کی پیش رفت اور ان کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔سہیل انجم نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ہندوستانی مدارس کی کم از کم دو ایسے اسباب ہیں جنہیں کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اول یہ مدارس مذہب کے قلعے ہیں ، دوئم یہ مدارس اردو زبان و ادب کے مراکز بھی ہیں۔ مذکورہ کتاب کو مصنف سہیل انجم نے چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کے علاوہ عرض مصنف، پیش لفظ اور ڈاکٹرمحمد منظور عالم کا تحریر کردہ مقدمہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
کتاب کا پہلا حصہ ۱۹ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے، جس میں مذہبی صحافت کا پس منظر، اس کے آغازکے علاوہ دوسرے مذاہب بالخصوص عیسائی، ہندو، قادیانی اور سکھ مذاہب و نظریات کے اخبارات و رسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔سہیل انجم کا خیال ہے کہ ہندوستان میں مذہبی رسائل کی اشاعت کا سلسلہ عیسائیوں نے شروع کیا تھا، ظاہر ہے اس میں ان کا مفاد بھی شامل تھا، وہ شاید ان رسائل سے ہندوستانی عوام کو مذہبی طور پر بھی اپنا غلام بنانا چاہتے ہوں۔ممکن ہے اس میں ان کو کامیابی بھی حاصل ہوئی ہو،مگر جلد ہی ہندوستان کے مذہبی رہنماوں نے ان کی اس سازش کو بے نقاب کردیا اور اپنے اپنے مذہبی رسائل و جرائدکی اشاعت پر توجہ صرف کی۔سہیل انجم نے لکھا ہے کہ ابتدائی دنوں میں جو مذہبی رسائل شائع ہوئے ان میں اپنے اپنے مذاہب کے متعلق تحریریں تو شامل ہوتی ہی تھیں ، عیسائی مشنری کے خلاف بھی ان میں مواد ہوتا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کا پہلا مذہبی رسالہ مولوی باقر نے ’’مظہر حق‘‘ کے عنوان سے ۱۸۴۳ میں جاری کیا۔یہ بنیادی طور پر شیعہ مذہب کی حمایت میں جاری کیا گیا تھا۔سہیل انجم نے عیسائی، اسلام اور ہندو مذاہب کے اہم رسائل و جرائد کی ایک فہرست بھی دی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں سہیل انجم نے دینی صحافت کا تاریخی تناظر کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی اہل حدیث، بریلوی اور شیعہ مسالک اور مکتب فکر کے چند اہم رسالوں کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کا تیسرا باب نہایت اہم ہے۔ اس باب میں جن رسالوں پر سہیل انجم نے تبصرہ کیا ہے ان کا تعلق مذہب سے تو ہے ہی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھی ان رسالوں کا ایک اہم رول رہا ہے۔ اس باب میں الہلال و البلاغ،ترجمان القران، برہان،منادی اور تجلی جیسے رسائل شامل ہیں۔کتاب کا چوتھا باب’’ ہم عصر دینی رسائل و جرائد‘‘ ہے۔جیسا کہ باب کے عنوان سے ہی ظاہر ہے مصنف نے اس باب میں موجودہ عہد کے رسالوں اور ان کے مزاج کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شائع ہونے والے بعض اہم مضامین پر تبصرہ بھی کیا ہے۔اس باب میں جن رسالوں پر گفتگو ملتی ہے ان میں’ باب الفتاویٰ، دارالعلوم،تحقیقات اسلامی،نوائے اسلام، محدث، اشرفیہ،اور جام نور جیسے اہم رسائل شامل ہیں۔
بہرحال ’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات‘‘ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ حالانکہ کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوتا اور تب جب وہ ارتقائی صورت میں ہو۔اس لحاظ سے یہ کتاب مکمل تو نہیں اور نہ ہی مصنف نے اس کا دعویٰ کیا ہے۔مگر یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے، مصنف نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ مذہبی رسائل کا تجزیہ اس پیمانے پر پورے بر صغیر میں نہیں ہوا ہے۔سہیل انجم نے جس تندہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا ہے وہ ایک مثال ہے۔ان رسالوں کا مطالعہ ہمیں ایک طرف مذہبی صحافت کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد کرتا ہے تو دوسری طرف مختلف مکتب فکر اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں بھی یہ رسالے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔میں سہیل انجم کو اس وقیع کام کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس کتاب سے مذہبی صحافت کے نئے باب وا ہوں گے اور اہل علم اس جانب توجہ کریں گے۔
In stock
Reviews
There are no reviews yet.