₹350.00
مجھے حج کے سفرناموں سے خاص دلچسپی رہی ہے،برصغیر کے اکثر مشاہیر ادب کے سفرنامہ حج کو پڑ ھ چکا ہوں۔اس وقت میرے سامنے ایک سفرنامہ حج ,,بازدیدِ حرم ” ہے ، جوپختہ قلم ،اور رواں اسلوب کے مالک مشہور ومعروف صحافی جناب سہیل انجم صاحب کے رشحات قلم سے نکلے شذرات ہیں ، انھوں نے ٢٠١٨ء میں اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ دوسری بار حج کی سعادت حاصل کی تھی ، ان کا پہلا سفرنامہ ” پھر سوئے حرم لے چل ” ٢٠٠٧ء میں شائع ہوا اور دینی وادبی حلقوں میں خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔
” باز دیدحرم ” کی اہمیت وافادیت کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ اس کے مصنف سہیل انجم صاحب ہیں جن کی نگارشات سے انقلاب ، اخبارِ نو ، نئی دنیا ، وبلٹز ممبئی وقومی آواز دہلی جگمگاتے رہے ، قارئین اس تحقیقی مزاج ، منفرد انداز اور دلآویز اسلوب کے حامل صحافی کے مضامین کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے ، قدرت نے سہیل انجم کو منظر کشی کی زبردست صلاحیت بخشی ہے ، وہ کسی مقام یا ماحول کا جب اپنے فطری اسلوب میں نقشہ کھینچتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس ماحول کا حصہ ہے ۔
سہیل انجم ایک دیانتدار صحافی ہیں ، اس لئے جہاں وہ دیار مقدس کے حسن انتظام اور خوبیوں کو وارفتگی وشیفتگی سے بیان کرتے ہیں وہیں خرابیوں اور بد انتظامی کے ذکر سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ وہ سعودی کی معاشی ترقیات اور زائرین حرم کے لئے فراہم کردہ سہولیات کا تذکرہ فراخدلی سے کرتے نظر آتے ہیں تو معلمین ومنتظمین کی بد نظمی پر نکیر بھی کرتے ہیں اور حق بیانی وصاف گوئی جو ایک صحافی کا طرۂ امتیاز ہے وہ اس پر کھرے اترتے ہیں ۔ وہ” تصویر کا ایک رخ” کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
” ہم نے جس لمحے سرزمین حجاز پر قدم رکھا اسی وقت سے ہمیں سعودی حکومت کے وسیع انتظامات کے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ، یہ مشاہدہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ، اور حج کے انتظامات کے تعلق سے اس کی کارکردگی ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی چلی گئی ۔ لاکھوں کی تعداد میں پولیس اور سیکورٹی جوان ، اسکاؤٹس اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے رضاکاروں نے حجاج کے لئے اپنے دیدہ ودل جس طرح فرشِ راہ کردئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ” (١٠٦)
اور منیٰ کی بدنظمی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
” خیمے کے اندر گئے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے ، ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ چوڑے اسفنج کے گدے یوں ملا ملاکر بچھائے گئے تھے کہ ان کے درمیان سوئی بھی نہیں رکھی جاسکتی ۔ ایک حاجی کے حصے میں ایک گدا تھا ، ہر گدے پر انتہائی گندی چادر رکھی ہوئی تھی جس کے روئیں روئیں جھڑ کر کپڑوں میں چپک رہے تھے ، ایک خیمے میں بمشکل پچاس افراد کی گنجائش تھی لیکن ڈیڑھ دو سو حاجیوں کو ٹھہرایا گیا اور طرفہ تماشہ یہ کہ اسی حالت میں پانچ روز قیام کرنا ، جب سارے گدوں پر حاجی براجمان ہوگئے اور وہ بھی سفید چادروں میں تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم انسان نہیں بلکہ بوائلر چکن ہیں جن کو جالیوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔” ( ص:١١٧)
یہ دو نمونے دو متضاد تصویریں پیش کررہے ہیں ، نقد وتعریف کے ساتھ مقامات مقدسہ کی تاریخ ، وہاں کی دینی حیثیت، جغرافیائی حالت اور معاشی خوشحالی کو بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے ، ایک عنوان حجاز اور اہل حجاز ( تب اور اب ) ہے جس میں ایک صدی قبل کے سفرناموں کی روشنی میں اس وقت کے سعودی عرب اور حرمین کی حالت اور آج کے ترقی یافتہ دور کی صورتحال کو بیان کیا ہے جو خاصا دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
سہیل انجم نے صرف حج کی روداد ہی نہیں بیان کی ہے بلکہ سفر حج کے منکرات پر زبردست نکیر کی ہے ، مجھے کتاب کا یہ عنوان بہت پسند آیا ” حرمین کا تقدس اور سیلفی کا جنون ”واقعی سوشل میڈیا!جیسے فیس بک ، وہاٹس اپ اور ٹوئٹر وغیرہ کی لت منشیات کی لت سے بھی زیادہ مضر ہوتی ہے، اٹھتے ، بیٹھتے سوتے جاگتے دھیان اسی کی طرف ہوتا ہے، آنکھ کھلتے ہی پہلاکام یہ ہوتا ہے موبائل اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ کوئی میسیج تو نہیں ہے۔ حج جیسا سفر جو خالص اللہ کیلئے ہوتا ہے ، جہاں انسان ہر طرف سے یکسو ہوکر دوردراز کاسفر طے کرکے پہونچتا ہے، وہاں بھی یہ چیز اس پر چھائی رہتی ہے، دراصل ریاونمود کے جذبہ فراواں نے انسان کو اس حد تک پہونچادیا ہے کہ جب تک وہ نیک اعمال کی تشہیر نہ کرلے ، دوسروں کو نہ بتالے تب تک اس جذبے کی تسکین نہیں ہوتی ، چنانچہ حرمین شریفین میں بھی لوگ اس کثرت سے موبائل سے تصویریں لیتے ہیں اور ویڈیو بناتے ہیں جیسے اسی کام کے لئے آئے ہوں ، میرا تو دل کانپ جاتاہے جب دیکھتا ہوں کہ لوگ عین بیت اللہ کے سامنے حطیم کی دیوار سے ٹیک لگاکر ویڈیو بنارہے ہیں، اور اسے شیئر کررہے ہیں ، بیت اللہ کے سامنے تصویر کھنچواکر اسے اپنی پروفائل کی جگہ لگارہے ہیں ، عین مواجہ شریف کے پاس لوگ نہایت انہماک کے ساتھ ویڈیوگرافی میں مشغول نظرآتے ہیں ،یعنی اس ذات شریف (رسول اللہ ﷺ)کے روضہ کے عین سامنے،جس کی نہایت واضح تعلیمات اس کی حرمت کے متعلق بکثرت حدیث پاک کی کتابوں میں موجود ہیں۔اور یہ رواج دن بدن بڑھتا جارہا ہے،افسوس کہ اس معاملے میں عوام کے شانہ بشانہ پڑھا لکھا دیندار طبقہ بھی ہے۔
یہ سہیل صاحب کی دینی حمیت ہے کہ انھوں نے اس موضوع کو اہمیت کودے کرزوردار انداز میں اس پر گفتگو کی ۔ تمام عازمین حج وعمرہ کواسے ضرور ایک بار پڑھنا چاہئے اور اس تحریر کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنی چاہئے۔
آپ کو اس سفرنامہ میں حرمین میوزیم ، کسوہ فیکٹری اورمکہ کلاک ٹاور کے بارے میں دلچسپ اور اہم معلومات ملیں گی ۔ ایک مضمون میں حج وعمرہ سے ہونے والی آمدنی سے سعودی معیشت پر کیا فوائد واثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔ کتاب کا آخری عنوان ” حج وعمرہ : وِژن ٢٠٣٠ء ” ہے جس میں سعودی حکومت کے آئندہ منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پوری کتاب نہایت دلچسپ اور مفید ہے ، بطور خاص حج وعمرہ پر جانے والے حضرات اسے جانے سے پہلے ضرور ایک بار پڑھیں۔
تعارف نگار: ضیاء الحق خیرآبادی
In stock
Reviews
There are no reviews yet.