Amwale Zakat Ki Sarmaya Kari, اموال زکاۃ کی سرمایہ کاری
اسلام کے نظام معیشت کی بنیادی خصوصیت انفرادی ملکیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور اس کو ارتکاز سے بچانا ہے،اس کی ایک عملی مثال زکوۃ کا نظام ہے۔زکوۃ کو واجب قرار دیا جانا ایک طرف اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ دار خود اپنی دولت کا مالک ہےاور وہ جائز راستوں میں اسے خرچ کر سکتا ہے۔دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی دولت میں سماج کے غریب لوگوں کا بھی حق ہے ۔یہ حق متعین طور پر اڑھائی فیصد سے لیکر بیس فیصد تک ہے،جو مختلف اموال میں زکوۃ کی مقررہ شرح ہے،اور بطور نفل اپنی ضروریات کے بعد غرباء پر جتنا کرچ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل مسلمان اس عظیم الشان فریضے کی ادائیگی سے سے بالکل لا پرواہ ہو چکے ہیں۔اور زکوۃ نکالنے کا اہتمام مفقود نظر آتا ہے۔اس پس منظر میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری کی جائے تاکہ زیادہ عرصہ تک اور زیادہ سے زیادہ فقراء کو اس سے استفادہ کرنے کا موقع مل سکے۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے دیگر موضوعات کی طرح اس پر بھی ایک سیمینار کا انعقاد کیا اور اس میں مختلف اہل علم نے مقالات پیش کئے اور اپنے موقف کا اظہار کیا۔یہ کتاب ” اموال زکوۃ کی سرمایہ کاری ” اس سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کے مجموعے پر مشتمل ہے،جسے ایفا پبلیکیشنز نئی دہلی نے طبع کیا ہے۔یہ اہل علم اور طلباء کے لئے ایک گرانقدر علمی وتحقیقی تحفہ ہے۔تمام طالبان علم کو چاہئے کہ وہ اس خاص موضوع پر مطالعہ کے لئے اس کتاب کو ضرور پڑھیں
ایسے مسائل جن سے پوری دنیا کے مسلمان دو چار ہیں، اس کتاب کے مطالعہ سے آپ بہت سی الجھنوں سے نجات پاسکتے ہیں مثلاً: زکاۃ کی رقوم سے سرمایہ کاری کرنا اور منافع بخش تجارت کرنا درست ہے یا نہیں؟ زکاۃ کی ادائیگی کے لئے مستحق زکاۃ کا مالک ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ زکاۃ کے مال سے رہائشی مکانات یا دوکانیں تعمیر کرکے فقراء کو رہائش یا تجارت کے لئے دینا جائز ہے یا نہیں؟ فقراء میں زکاۃ کا مال تقسیم کرنے کے بجائے اگر ان کے لئے زکاۃ کے مال سے مکانات یا دوکانیں تعمیر کرکے ان کی ملکیت میں دیدی جائیں تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟
Reviews
There are no reviews yet.