مصنف: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
اسلام کاایک اہم رکن حج بیت اللہ ہے،یہ ہراس مسلمان پرزندگی میں ایک بارفرض ہے، جوسفرحج کے اخراجات اورجن لوگوں کی کفالت اس سے متعلق ہے، اس مدت میں ان کی ضروریات پوری کرنے پرقادرہو،اگرجسمانی اعتبارسے صحت مندہوتوضروری ہے کہ خودسفرکرے،اوراگر خودسفرکرنے کے لائق نہ ہوتوحج بدل کرائے، یہ فریضہ مردوں سے بھی متعلق ہے اورعورتوں سے بھی، مردوں کے سفرحج کے لئے توصرف یہ شرط ہے کہ وہ مالی اورجسمانی استطاعت رکھتا ہو؛ لیکن عورتوں کوچونکہ زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے؛ اس لئے یہ بات قابل غورہے کہ کیاعورت کے لئے ایک زائدشرط یہ بھی ہونی چاہئے کہ سفرمیں شوہر یامحرم ساتھ ہو؟ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی ہدایات کوسامنے رکھتے ہوئے فقہاء کی تین رائیں پائی جاتی ہیں، اورجومسائل اجتہادپرمبنی ہوں، ان میں اس طرح کے اختلاف رائے کا پایاجانا باعث تعجب نہیں۔
١. ایک نقطۂ نظریہ ہے کہ سفرحج میں عورتوں کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے، ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہؒ اورامام احمدبن حنبل ؒ نیزدیگر بہت سے فقہاء مجتہدین جیسے ابراہیم نخعیؒ ،حسن بصریؒ ،اسحاق بن راہویہؒ اورابوثورؒ وغیرہ کابھی یہی نقطۂ نظرہے،(التمہیدلابن عبدالبر:۱۲:۱۵۰) البتہ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک یہ شرط اس وقت ہے جب مکہ مکرمہ سفرشرعی کی مسافت پرہو(فتح القدیر:۲؍۴۲۲،کتاب الحج)نیزیہ شرط حج فرض کے لئے بھی ہے اورحج نفل کے لئے بھی۔
٢. دوسرانقطۂ نظریہ ہے کہ حج کرنے والی خاتون کے ساتھ دوسری ثقہ عورتیں ہوں تووہ محرم یاشوہرکے بغیربھی حج کے لئے جاسکتی ہیں؛بشرطیکہ وہ حج فرض اداکررہی ہوں، یہ نقطۂ نظرائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کاہے، اور ان کے علاوہ امام اوزاعیؒ ،عطاءؒ اوربعض دیگراہل علم کی بھی یہی رائے ہے،(شرح صحیح البخاری لابن بطال:۴؍۵۳۲)
٣. تیسرانقطۂ نظریہ ہے کہ خواتین حج نفل کاسفربھی محرم کے بغیرکرسکتی ہیں،بعض فقہاء شوافع اس کے قائل ہیں،اور امام مالکؒ کابھی ایک قول ایساہی ہے،(الاعلام لابن الملقن:۶؍۸۱)یہی نقطۂ نظرعلامہ ابن تیمیہ ؒ کاہے کہ کوئی بھی ایساسفرہوجس کا مقصداللہ تعالیٰ کی طاعت ہواورسفر مامون ہوتو عورت بغیرمحرم کے سفرکرسکتی ہے،(الفروع لابن المفلح:۳؍۲۳۶)
جن فقہاء نے سفرمیں عورت کے ساتھ محرم یا شوہرکی شرط لگائی ہے،صریح،واضح اورمعتبرحدیثیں ان کے نقطۂ نظرکے موافق نظرآتی ہیں؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: عورت محرم کے بغیرتین دنوں کا سفرنہ کرے، (بخاری،حدیث نمبر: ۱۰۲۴) اسی مضمون کی روایت حضرت ابوسعیدخدریؓ کے واسطہ سے بھی منقول ہے(مسنداحمد،حدیث نمبر:۱۰۶۱)بعض راویوں نے یہ تفصیل بھی نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اگرتین دن یا اس سے زیادہ کا سفرکرے تو اس کے ساتھ اس کے والد یا بھائی یا شوہر یا بیٹے یامحرم رشتہ دارکو ہونا چاہئے (ترمذی،حدیث نمبر:۱۰۸۱) بعض روایتوں میں تین دن کے بجائے ایک شب وروز کی بات آئی ہے کہ عورت کاایک شب وروز کا سفربھی محرم کے بغیرنہیں ہونا چاہئے، یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے، اس کوصحاح ستہ میں سے امام بخاری (حدیث نمبر:۱۰۳۸)امام مسلم(حدیث نمبر:۱۳۳۹)اور امام ترمذی(حدیث نمبر:۱۰۹۰)نے نقل کیاہے، شارحین حدیث کاخیال ہے کہ ایک اورتین دنوں کافرق امن وامان اورخطرات کے لحاظ سے ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کے احوال کوسامنے رکھ کرفرمایا ہے؛ لہٰذاا گرایک دن کے سفرمیں بھی فتنہ کااندیشہ ہو، تواس میں بھی محرم کاساتھ ہونا ضروری ہے، اوراگرتین دنوں کاسفر ہو تو چاہے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، پھربھی محرم یاشوہرکی رفاقت ضروری ہے۔
یہ احادیث تومطلق سفرسے متعلق ہیں؛ لیکن اہم بات یہ ہے کہ خاص سفرحج کی صراحت کے ساتھ بھی اس مضمون کی روایت آئی ہے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:محرم کے بغیرعورت سفرنہیں کرسکتی ہے توایک صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں توفلاں لشکرکے ساتھ جا رہا ہوں اور میری بیوی کا ارادہ حج کرنے کاہے، میری بیوی کس طرح حج کرپائے گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پرچلے جاؤ (بخاری:باب حج النساء،حدیث نمبر:۱۸۶۲) یہی روایت مسند احمد میں بھی مذکور ہے، اور اس میں صراحت ہے کہ تم ابھی سفر جہاد چھوڑدو اور بیوی کے ساتھ حج کرلو، فارجع فحج معھا(مسنداحمد:۲۲؍۱۶۰حدیث نمبر:۱۰۶۱۵)نیزحضرت ابوامامہ باہلیؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: کسی مسلمان عورت کے لئے شوہر یامحرم کے بغیرحج کرناجائزنہیں ہے(المعجم الکبیرللطبرانی،حدیث نمبر:۷۹۲)
جولوگ اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ سفرمامون ہو اور کچھ معتبرخواتین ساتھ ہوں، ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے آخری حج میں ازواج مطہرات کوحج کرنے کی اجازت دی تھی، اورحضرت عثمان غنیؓ اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کوان کی حفاظت اورنگہداشت کے لئے ساتھ بھیجا تھا (بخاری عن ابراہیم بن سعد،حدیث نمبر:۱۸۶۰) اور دیگر صحابہ نے اس پرکوئی نکیرنہیں کی تھی، جیساکہ حافظ ابن حجرؒ نے لکھاہے (فتح الباری:۴؍۹۱) اسی طرح حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ایک زمانہ میں اتناامن قائم ہوجائے گاکہ ایک عورت حیرہ (عراق) سے بیت اللہ شریف اس حال میں آئے گی کہ اس کوکسی کی پناہ حاصل نہیں ہوگی ۔، یاعدي! یوشک أن تری الظعینۃ تخرج من الحیرۃ حتی تأتي البیت بغیرجوار(المعجم الأوسط:۶؍۳۵۹،حدیث نمبر:۶۶۱۴)
بعض حضرات نے مکہ سے تنہا مدینہ کی طرف بعض خواتین کے ہجرت کے واقعات سے بھی استدلال کیاہے، جن کے ساتھ ان کے شوہر یامحرم شریک سفرنہیں تھے؛ مگرغورکیاجائے تویہ دلائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صریح حدیثوں کے مقابلے قابل قبول نظرنہیں آتے، جن میں واضح طورپرمحرم کے ساتھ ہونے کاحکم فرمایا گیا ہے، ازواج مطہرات کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ ہے، وہ پوری امت کی مائیں تھیں، ان کوخاص تقدس حاصل تھا ؛چونکہ امہات المؤمنین کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی اور سے نکاح نہیں ہوسکتا تھا؛ اس لئے امت کے افراد ان کے لئے محرم کے درجہ میں تھے، اور ہرمسلمان ان کو ایک ماں کی نظرسے ہی دیکھتا تھا؛ بلکہ نسبی ماں سے بھی بڑھ کر، پھروہ زمانہ بھی اخلاقی اقدار کے اعتبار سے اعلیٰ ترین معیارپرتھا،نیز ان کے لئے بارگاہ خلافت سے خصوصی سیکورٹی مہیاکی گئی تھی،اورحضرت عثمان غنیؓ اورحضرت عبدالرحمٰن ابن عوفؓ جیسے اکابرصحابہ کو ان کے تحفظ پر مامورکیا گیا تھا، دوسری خواتین کویہ درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور جہاں تک عدی بن حاتمؓ کی روایت ہے ، یہ توایک خبرہے، حکم نہیں ہے،اس پیشین گوئی کامقصدعورت کوتنہا سفرکرنے کے جواز کو بتلانا نہیں ہے؛ بلکہ یہ مقصودہے کہ اسلام کی برکت سے دنیاپوری طرح امن وامان سے ہمکنار ہو جائے گی، اسی طرح شوہر یامحرم کے بغیرخواتین کے ہجرت کرنے کے جو واقعات پیش آئے ہیں، ان کی حیثیت اضطراری حالت کی ہے، بعض خاندانوں کے مردمدینہ ہجرت کرگئے تھے؛لیکن اہل مکہ نے خواتین کوجانے نہیں دیا،انہوں نے بڑی دشواری کے ساتھ بچتے بچاتے مدینہ کے لئے رختِ سفرباندھا،اورظاہرہے کہ حالت اضطرار کے احکام حالت اختیار سے الگ ہوتے ہیں۔
ان حضراتِ فقہاء کااصل منشاء یہ ہے کہ عورتوں کومحرم کے بغیر جوسفرسے منع کیا گیا ہے ،اس کا مقصدیہ ہے کہ وہ امن وامان کی حالت میں سفرکریں، ان کی عزت وآبروکے لئے کوئی خطرہ نہ ہو، اوراگرکوئی عورت تنہانہ ہو،اس کے ساتھ چندمعتبرخواتین موجود ہوں تویہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اب بعض حضرات نے امن وامان کے مقصدکوسامنے رکھتے ہوئے حج فرض اور حج نفل دونوں کاسفر بغیرمحرم کے جائز قرار دے دیا، اوربعض حضرات نے ممانعت کے احکام اورامن وامان کی مصلحت کے درمیان ہم آہنگی پیداکرتے ہوئے فرض حج کے لئے بغیرمحرم کے حج کی اجازت دی، اورنفل حج کے لئے اجازت نہیں دی۔
لیکن بحیثیت مجموعی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوفقہاء سفرحج کے لئے شوہریامحرم کی رفاقت کوضروری قرار دیتے ہیں، ان کانقطۂ نظررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اورشریعت کے مزاج سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے، اور یہی زیادہ ترفقہاء کی رائے ہے، تجربہ بتاتاہے کہ خواتین کوبمقابلہ دوسرے اسفارکے حج میں محرم کی رفاقت کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے،آب وہواکی تبدیلی،حجازکے موسم کی شدت، کھانے پینے کے فرق، جسمانی تکان، دوڑدھوپ وغیرہ کی وجہ سے بیشترخواتین زمانۂ حج میں بیماری سے دوچار ہوتی ہیں، اور انہیں سنبھا لناپڑتاہے، حرمین شریفین میں قیام گاہیں مسجدوں سے دورہوتی ہیں،اچھے خاصے لوگ راستہ بھٹک جاتے ہیں،سڑکوں کا نشیب وفرازبھی تھکادینے والا ہوتا ہے، حج کے پانچ ایام اس طرح گزرتے ہیں کہ بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑتا ہے، ازدہام کی وجہ سے مجمع مخلوط ہوجاتا ہے، مقامات حج میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کافاصلہ پیدل طے کرناپڑتاہے، پھرفساداخلاق کی وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ باربارسمجھانے کے باوجودخواتین چہرہ کے پردہ کااہتمام نہیں کرتیں، اوربعض دفعہ فتنہ کااندیشہ بڑھ جاتاہے؛ کیوں کہ شیطان کی وسوسہ اندازی سے کوئی جگہ خالی نہیں۔
اس لئے فقہی اختلاف سے قطع نظرشریعت کے مصالح اورموجودہ دورکے تجربات کوسامنے رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی معقولیت نظرنہیں آتی کہ سفرحج میں محرم کی شرط ختم کردی جائے،افسوس کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کوحرم محترم کی تولیت کاشرف فرمایاہے، وہ ہرایسی چیزکوسینہ سے لگائے جارہے ہیں، جومغرب کی نظرمیں بہترہو؛ حالانکہ خودسعودی مفتیان کرام کافتویٰ وہی رہاہے ،جوجمہورفقہاء حنفیہ وحنابلہ وغیرہ کاہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دینی وابستگی اورمذہب کی پابندی کاجوجذبہ برصغیرکے مسلمانوں میں ہے، عالم عرب کے بشمول دوسرے علاقوں میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی، خودعرب حضرات بھی اس کااعتراف کرتے ہیں،حکومت ہند کا مسلمانان ہندکے اس دینی جذبہ کونظراندازکرتے ہوئے سفرحج میں محرم یا شوہرکی رفاقت کی شرط کوختم کردینا بہت ہی قابل افسوس ہے؛ اس لئے حکومت اورحج کمیٹی کوچاہئے کہ فقہی اختلافات سے قطع نظرشریعت اسلامی کے مزاج، مسلمانوں کے عمومی جذبات اورخواتین کی سہولت کوسامنے رکھتے ہوئے اس شرط کوبرقراررکھے۔