Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maarif Shazarat October 2018, معارف شذرات اکتوبر ٢٠١٨

Ishtiyaq Ahmad Zilli

Maarif Shazarat October 2018, معارف شذرات اکتوبر ٢٠١٨

مصنف:   اشتیاق احمد ظلی

۱۷- ۱۹ستمبر کو وگیان بھون میں آر ایس ایس نے ایک بہت اہم پروگرام کا اہتمام کیا۔ یہ معنوی اور صوری دونوں اعتبار سے اس کے عام پروگراموں سے بالکل الگ تھا۔ اس کا موضوع تھا ’’مستقبل کا ہندوستان: آر ایس ایس کانقطۂ نظر‘‘۔ اس تنظیم کی ۹۲ سالہ زندگی میں اس نوعیت کا یہ پہلا پروگرام تھا۔ اس میں مختلف سیاسی پارٹیوں، سماج کے مختلف طبقات کے نمایندوں اور بڑی تعداد میں سفراء کو مدعو کیا گیا۔ شاید تنظیم کے ذمہ داروں نے یہ محسوس کیا کہ نہ صرف ملک کے سامنے بلکہ بین الاقوامی برادری کے سامنے بھی ہندوستان کی تاریخ کے اس اہم موڑ پر ملک کے مستقبل کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر اور موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

آر ایس ایس ۱۹۲۵ء میں اپنی تاسیس کے وقت ہی سے ملک اور اس کے مستقبل کے سلسلہ میں پوری صفائی سے اپنا موقف اور نقطۂ نظر بیان کرتی رہی ہے اور اس سلسلہ میں کبھی کسی لاگ لپٹ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ اپنے نظریات کا ببانگ دہل اعلان بھی کرتی رہی ہے اور اس پر پوری طرح عمل پیرا بھی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کو کئی بار پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ادھر کچھ دنوں سے اس کے اندازِ فکر میں کسی قدر تبدیلی کے آثار نظر آئے ہیں۔

اس سلسلہ میں پہلا اشارہ اس وقت ملا جب کانگریس کے پرانے لیڈر اور سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو ناگپور میں آر ایس ایس کے کیڈر کو مخاطب کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ لیکن دہلی کا حالیہ پروگرام تو اس سے بہت آگے کے مرحلہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس میں ان بنیادی امور کی نئی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن پر آر ایس ایس کا فکری نظام قائم ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آر ایس ایس کا سب سے بڑا اور اہم پروگرام وجے دشمی کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اس موقع کی مذہبی اور تہذیبی اہمیت کے علاوہ اس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اسی دن ۱۹۲۵ء میں ہیڈ گوار نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی تھی۔ آیندہ سال کے لیے تنظیم کے منصوبوں اور پالیسی کا اعلان اسی موقع پر کیا جاتا ہے۔

اس پس منظر میں یہ سوال اہمیت سے خالی نہیں کہ دسہرہ کے اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ کیا اسباب تھے جن کے باعث اتنے بڑے پیمانے پر ایک علاحدہ پروگرم منعقد کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس پروگرام میں کیے جانے والے پالیسیِ اعلانات اس بات کے شاہد ہیں کہ آر ایس ایس اس وقت اپنی شبیہ کے سلسلہ میں فکرمند ہے اور ہندوستانی عوام خاص طور سے پڑھے لکھے متوسط طبقہ اور اقلیتوں کے سامنے اپنی ایک نئی شبیہ پیش کرنا چاہتی ہے گو کہ لفظ اقلیت اسے پسند نہیں۔ یہ بات اتنی اہم اور ضروری سمجھی گئی کہ اس سلسلہ میں فوری اقدام ضروری محسوس کیا گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس ملک اور دنیا کے سامنے اپنی ایک بالکل نئی امیج پیش کرنا چاہتی ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک کی تاریخ کے اس موڑ پر جب ملک پر اس کی ایک ذیلی پارٹی حکومت کررہی ہے اور اگلے چند مہینوں میں جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے آر ایس ایس کو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ وہ فوری طور پر اپنی ایک ایسی شبیہ پیش کرے جو ملک میں بسنے والے مختلف طبقات کے لیے زیادہ قابل قبول نظر آئے۔ آر ایس ایس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ماضی میں پابندیوں کے دوران بھی آر ایس ایس کو ان چیزوں کی کبھی کوئی پروا نہیں رہی۔

کہنے کو تو آر ایس ایس ایک رضاکار سماجی تنظیم ہے لیکن اس کے کام کے سیاسی مضمرات اہلِ نظر سے کبھی پوشیدہ نہیں رہے۔ یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ یہ تنظیم ملک کے دستور پر یقین نہیں رکھتی۔ ملک کا ترنگا جھنڈا ان کو قبول نہیں تھا اس لیے انہوں نے بھگوا دھوج کا اختراع کیا جس میں صرف ان کا پسندیدہ زعفرانی رنگ ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ناگپور میں ان کے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں لہرایا جاتا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلہ میں ان کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

ان کے اور رہنماؤں کے علاوہ خاص طور پر گرو گولوالکر نے اپنی کتاب ’’اے بنچ آف تھاٹ‘‘ میں ان کو پوری صفائی سے بیان کردیا ہے۔ کمزور طبقات، اچھوتوں اور دلتوں کے سلسلہ میں بھی ان کے بہت سے تحفظات ہیں اور وہ منوسمرتی کے ذریعہ قائم کیے ہوئے طبقاتی نظام پر پورا یقین رکھتی ہے۔ لیکن ان کی تنظیم کا بنیادی نکتہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد، گھر واپسی، لو جہاد، گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی تشدد اور وندے ماترم پر اصرار جیسے کام وہی لوگ انجام دے رہے ہیں جو آر ایس ایس کی کسی نہ کسی ذیلی تنظیم سے وابستہ ہیں۔

مرکز اور کئی صوبوں میں آر ایس ایس کے زیرسایہ اور زیر حمایت بی، جے، پی کی حکومت میں نفرت کا کاروبار سرکاری سرپرستی میں اس وقت جتنے فروغ پر ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ جو ان کے نظریات سے اتفاق نہ کرے وہ ملک دشمن ہے اور اس کے ساتھ بدترین مجرموں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس ماحول میں آر ایس ایس ایک نئے شمولیت پسند، سیکولر ہندوستان کی بات کرنے لگی ہے۔ ہندتو کی ایک نئی تعریف کرتی ہے جس میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ ہوگی۔

شمسان، قبرستان جیسے نعروں پر اظہار نکیر کرتی ہے۔ اپنے کام کا مطمحِ نظر اقتدار کے بجائے عوام کی خدمت قرار دیتی ہے، جو اپنے آپ کو ہندو نہ کہنا چاہے اسے بھارتی کہنے کی اجازت دیتی ہے۔ جنگ آزادی میں کانگریس کی خدمات کو تسلیم کرتی ہے اور کانگریس مکت بھارت سے اتفاق نہیں رکھتی۔ یقین نہیں آتا کہ یہ سب آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے اس کے اعلیٰ ترین سربراہ کہہ رہے ہیں۔ ایں چہ می بینم بہ بیداری است یارب یا بخواب۔

چنانچہ ایسے دم گھٹنے والے ماحول میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک نے وگیان بھون میں جو کچھ کہا اسے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا جائے یا صحرا میں سراب کا فریب نظر۔ اس موقع پر جو باتیں کہی گئی ہیں وہ آر ایس ایس کے بنیادی فلسفۂ حیات سے یکسر الگ اور اس کے منافی ہیں۔ اگر یہ آر ایس ایس کے نقطۂ نظر میں کسی نئی سوچ، نئی ابتدا اور مستقبل میں اس کی سمتِ سفر میں کسی واقعی تبدیلی کا پتہ دیتی ہیں تو یہ بہت خوش آیند ہے۔

فکری اور نظریاتی سطح پر یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی اور ملکی صورت حال پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر یہ باتیں حالات کے دباؤ میں کہی گئی ہیں تو تبدیلی کی امید نادانی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ عام طور پر مبصرین اسے حالات کے دباؤ میں کیا گیا ایک سیاسی فیصلہ سمجھتے ہیں اور اسے ملک کے بدلتے ہوئے حالات سے اپنے موقف کو ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک صدی کی مسلسل اور منصوبہ بند کوشش کے بعد بی، جے، پی کی موجودہ حکومت کی صورت میں اس کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے نظریات اور فلسفۂ حیات کے مطابق حکومت اور سماج میں ضروری تبدیلیاں لائے اور اسے اپنے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرے۔

اس کو امید تھی کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس جمہوری سیکولر ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنے میں پوری طرح کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن ایک صدی سے دیکھا جانے والا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور جو کچھ ہوا اس کے نتیجہ میں یہ منزل شاید اور بھی دور ہوگئی۔ زمینی سطح پر گذشتہ چار سال میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سماجی اور معاشی سطح پر موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے حکومت میں عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔

دلفریب نعروں اور جملوں کی مدد سے ایک سنہرے مستقبل کا جو خواب عوام کو دکھایا گیا تھا، اس کا سحر اب ٹوٹ چکا ہے۔ آرایس ایس ایک گراس روٹ تنظیم ہے۔ وہ ان بدلتے ہوئے حالات کی آہٹ کو بہت پہلے محسوس کرچکی ہوگی۔ حکومت کی نا اہلی اور وعدہ شکنی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے غم و غصہ سے بھی وہ ناواقف نہیں ہوسکتی۔ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے عوام کے لیے جو نہایت دردناک صورت حال پیدا کردی اس سے بھی وہ غافل نہیں ہوسکتی۔ سنگھ کو اپنے ذرائع سے بہت پہلے حالات کے رخ اور سمت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔

صورت حال کی تمام ممکنہ جہات، امکانات اور مضمرات پر اس کے دانشوروں نے ہر زاویہ سے، گہرائی سے غور و فکر کیا ہوگا۔ ان کو شاید یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک صدی پر محیط محنت اور کوشش کے بعد جو سنہرا موقع ملا اس سے متوقع نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔ چنانچہ ۲۰۱۹ء سے پہلے بدلے ہوئے حالات کے لحاظ سے ایڈجسمنٹ کی یہ ایک کوشش ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں اپنی معنویت کو باقی رکھنے کے لیے شاید اس سے چارہ نہیں۔

اسباب جو بھی ہوں اگر یہ تبدیلی حقیقی ہے اور اس کے نتیجہ میں حالات میں بہتری کا کچھ بھی امکان ہو تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ لیکن تنظیم کا صدسالہ ریکارڈ اس کی نفی کرتا ہے۔ اگر آر ایس ایس واقعی اپنے آپ کو بدلنے کاعزم رکھتی ہے اور ملک میں ایک سیکولر تکثیری معاشرہ کے قیام و استحکام کے لیے کام کرنا چاہتی ہے تو س سے زیادہ خودآیند کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے حلقوں سے نکلنے والی آوازیں اس خوش گمانی کی اجازت نہیں دیتیں اور نہ ہی یہ اس کے بنیادی فلسفہ سے کسی طرح بھی میل کھاتی ہیں۔

اس پروگرام سے چند روز ہی پہلے خود سرسنگھ چالک نے شکاگو میں پوری دنیا کے ہندوؤں سے متحد ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ بہت سے کتّے مل جائیں تو شیر کو بھی ہلاک کرسکتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ شیر اور کتّوں سے مراد کون ہے بہت زیا دہ ژرف نگاہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے انہوں نے پھر رام مندر کی بات کی۔ ملک میں نفرت کا کاروبار اسی طرح جاری ہے اور گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی تشدد بھی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں نہ کسی تشویش کا اظہار کیا اور نہ اس کو روکنے کے لیے کوئی اپیل جاری کی۔

لوگ اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ اپنے نام اور تصویر کے ساتھ ویڈیو جاری کرتے ہیں جن میں ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ابھی گاندھی جینتی کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں مہاتما گاندھی کے مجسموں کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کے قاتل گوڈسے کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور اس کا بت نصب کیا گیا۔

یہ سب کرنے والے کسی نہ کسی سطح پر سنگھ یا اس کی کسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب تک زمینی سطح پر اس تبدیلی کے اثرات نہ محسوس کیے جائیں اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا۔ آخری فیصلہ صادر کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ اگر آر ایس ایس کی پوری تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ الیکشن سے پہلے ملک کے عوام کو الجھانےاور دھوکہ دینے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں
 اشتیاق احمد ظلی  کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *