مئو میں تذکرہ نگاری کی روایت

مئو میں تذکرہ نگاری کی روایت

سوانح نگاری وتذکرہ نویسی سے مسلمانوں کو خاص شغف اور غیر معمولی دلچسپی رہی ہے،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عربی ،فارسی ،اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں اس موضوع پر لاتعداد کتابیںلکھی گئی ہیں، جس میں الگ الگ علاقوں اور خطوں کی تاریخ اور وہاں کے علماء واعیان کے حالات لکھے گئے،کسی نے ائمہ مسالک اور ان کے متبعین کے حالات وسوانح کو اپنا موضوع بنایا ،تو کہیں ایک ایک صدی کے اعتبار سے اکابرامت کے حالات لکھے گئے، اسی طرح عمومی اعتبار سے بھی حالات وتذکرے لکھے گئے۔انھیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارا روشن وشاندار ماضی پوری تابناکی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے اور ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہیں ۔

ہندوستان میں تذکرہ نگاری و تاریخ نویسی کا یہ سلسلہ اگرچہ بہت بعد میں شروع ہوا ،لیکن اس کی بھی ایک روشن تاریخ ہے۔ہر علاقہ اور خطہ کے لوگوں نے بقدر استطاعت اپنے یہاں کے علمائ، شعراء ، ادباء اوربزرگوں کے حالات محفوظ کرنے کا اہتمام کیا۔ شمالی ہندوستان کا وہ خطہ جو دیار پورب کے نام سے معروف ہے ،ہمیشہ علما ء ومشائخ ، ادبا ء وشعرا اور صوفیاء واہل دل کا ماوی ومسکن رہا ہے ، اس دیار کا معروف علمی خطہ اعظم گڑھ اپنی مردم خیزی کے باعث علما ء وفضلا ء اور دانشوروں کے نزدیک ہمیشہ قابل رشک و لائق احترام رہا ۔اعظم گڈھ کی علمی شہرت اس کے جن قدیم علمی قصبات وقریات کی بدولت تھی ان میں نمایاں ترین قصبہ مئو ناتھ بھنجن تھا ، غیر منقسم اعظم گڈھ کے قصبات میں سب سے زیادہ علماء وفضلاء اسی کی خاک سے اٹھے ۔1988ء میں جب اعظم گڈھ کی تقسیم ہوئی تو مئو ایک مستقل ضلع بن گیا اور اعظم گڈھ کے بیشتر علمی قصبات اسی ضلع کا حصہ بن گئے جس کا ذکر ‘پیش نامہ ‘ میں ہے۔

زیر نظر کتاب ‘مئو میں تذکرہ نگاری کی روایت ‘ ضلع مئو سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی ان 106 کتابوں کے تعارف پر مشتمل ہے جو تذکرے اور سوانح پر لکھی گئی ہیں۔ اردو ادب میں تذکرہ سے مراد وہ کتاب ہوتی ہے جس میں شعرا کے حالات وواقعات اور ان کے کلام کو جمع کیا گیا ہو، لیکن یہاں تذکرہ نگاری میں بہت عموم ہے ، اس میں سوانح حیات، خود نوشت ، وفیاتی مضامین کے مجموعے اور خاکے سب شامل ہیں۔نمبر شمار کے اعتبار سے یہ 112 کتابیں ہورہی ہیں لیکن ان میں بعض کتابیں دو یا تین جلدوں پر مشتمل ہیں اور ہر جلدکا تعارف الگ الگ کرایا گیا ہے اس لئے یہ تعداد ہورہی ہے۔

اس مجموعہ میں شامل سب سے قدیم کتاب ‘حیات ولی’ ]سوانح حضرت حاجی صوفی شاہ ولی محمد [ ہے،٦٤صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1943ء میں کلکتہ سے شائع ہوئی، اس کے بعد ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی کی’اعیان الحجاج’ جلد اول ہے جو مارچ 1958ء میں شائع ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مئو میں تذکرہ نگاری کا یہ سفرآٹھ دہائیوں سے جاری ہے ، ان میں سے بیشتر کتابیں وہ ہیں جو اسی صدی کے آغاز سے اب تک شائع ہوئی ہیں ، اور ایک تہائی کتابیں صرف ان تین مصنفین کی کاوش قلم کا نتیجہ ہیں: مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی ]گھوسی[ ،مولانا اعجاز احمد اعظمی اور مولانا نظام الدین اسیر ادروی۔

کتاب کے مصنف حکیم وسیم احمد اعظمی ]فاضل دیوبند،فراغت:1974ء[ علمی ،ادبی وطبی دنیا کے ایک نامور فرد ہیں ، آبائی وطن اعظم گڈھ اور مستقل قیام لکھنؤ میں ہے۔طبی ادبیات پر آپ کا بڑا کام ہے ،ابھی حال میں اردو اکیڈمی اترپردیش نے ان کی اس طبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک لاکھ کے انعام سے نوازا ہے۔اس موضوع پر ان کی تقریباً دودرجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

حکیم صاحب ایک محبت بھرا دل رکھنے والے ،اہل کے علم کے قدرداں اور خود ایک صاحب علم انسان ہیں ، ان سے شناسائی اور تعلق تمام تراسی علم کی راہ سے ہوا،وہ مئو کی تذکرہ نگاری پر کام کررہے تھے ، اس سلسلہ میں کسی نے میری جانب رہنمائی کی ۔رمضان 1443ھ کی کوئی تاریخ تھی ، موبائل کی گھنٹی بجی ،ریسیو کیا تو ادھرسے آواز آئی کہ میں حکیم وسیم احمد اعظمی بول رہا ہوں، میں مئو کی تذکرہ نگاری پر کچھ کام کررہا ہوں ، اس سلسلہ میں مجھے آپ کا تعاون درکار ہے، یہیں سے تعارف ہوا اور کچھ ہی عرصہ میں یہ تعارف گہرے مخلصانہ تعلقات میں بدل گیا ، ان کے علم وفضل کے ساتھ ان کی انسانیت وشرافت، قدردانی وذرہ نوازی اور اعلی اخلاق نے مجھے ان کا گرویدہ بنادیا ۔

آج اس کتاب پر یہ چند سطریں لکھتے ہوئے مجھے مسرت ہورہی ہے کہ یہی کتاب مصنف سے تعارف کا ذریعہ بنی ۔یہ کتاب کا نقش اول ہے ، جو کتابیں انھیں دستیاب ہوئیں ان کا تعارف شامل کردیا ، کئی اہم خود نوشت شامل ہونے سے رہ گئیں، جیسے داستان ناتمام ]مولانااسیر ادروری[، 48 سال شفقتوں کے سائے میں ]ڈاکٹر سعید الرحمن الاعظمی [ اور حسابِ جاں ]ڈاکٹر شکیل احمد مئوی[ وغیرہ، لیکن یہ نقش اول ہے، جیسا کہ حکیم صاحب نے پیش نامہ میں لکھا ہے کہ اس کی ایک جلد اور آئے گی ۔۔۔۔۔ جو یقیناً ‘نقاش نقش ثانی بہتر کشد زاول’ کا مصداق ہوگی۔

رب کریم حکیم صاحب کی دیگر کتابوں کی طرح اسے بھی قبول عام کی دولت سے نوازے۔
حکیم صاحب نے اپنے پیش نامہ میں اعظم گڑھ کی تذکرہ نگاری کے تعلق سے یہ بشارت سنائی ہےکہ

ضیاء الحق خیرآبادی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *