ہندوستان میں انگریزی استعمار کے دور میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور نصوصِ شریعت کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں پیش کرنے لگا جس پر علمائے اسلام نے اس کے دعوؤں اور دلیلوں کی حقیقت واضح کرنے کے لیے اَن گنت کتابیں لکھیں۔
امام محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بھی، جو اپنے عہد کے جلیل القدر عالم و محدث تھے، اس موضوع پر خامہ فرسائی کی اور ختمِ نبوت کے نام سے یہ کتاب لکھی جس میں ختمِ نبوت کی تائید میں قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ اور علمائے امت کے آثار و اقوال پیش کرنے کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے پیدا کردہ اشکالات کا ازالہ بھی کیا۔
کتاب کے آغاز میں مولفِ گرامی نے ضروریاتِ دین، کفر اور اختلافی مسائل کی قسمیں اور مسئلۂ ختمِ نبوت سے متعلقہ کچھ اصولی مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ختمِ نبوت کی شریعت میں کیا اہمیت ہے اور کیونکر اس کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ پھر ختمِ نبوت پر اجماعِ امت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس اجماع پر قادیانی امت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔
بعد ازاں قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ سے عقیدۂ ختمِ نبوت کے اثبات والی آیات و احادیث درج کی ہیں۔ ساتھ ہی قدیم و جدید مفسرین اور شارحینِ حدیث سے ان کے مطالب نقل کیے ہیں۔ یہ اس کتاب کا امتیازی وصف ہے کہ ختمِ نبوت پر قرآنی آیات اور احادیث ذکر کرنے کے بعد ان دلائلِ شرعیہ پر قادیانی حضرات کے ان تمام شبہات کا مکمل جواب بھی دیا ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ان دلائل پر کیے جاتے ہیں جس سے عام قاری ختمِ نبوت کے مسئلے پر شرعی ادلہ کے ساتھ ساتھ مرزائی اشکالات اور حربوں سے بھی مکمل واقف ہو جاتا ہے۔
کتاب کے آخر میں مرزائی امت کے کچھ بنیادی عقائد اور قادیانیوں کے دونوں گروہوں (قادیانی ولاہوری) کا تذکرہ کیا ہے، نیز مرزائی قوم کا یہ عقیدہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ عام مسلمانوں سے نکاح حرام سمجھتے ہیں اور مرزا قادیانی پر ایمان نہ لانے والے مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں جس سے عام مسلمانوں کے متعلق اس گروہ کے اندرونی خیالات واضح ہوتے ہیں۔